سفر ِباطن SAFAR-E-BATIN


4.7/5 - (30 votes)

سفرِباطن Safar-e-Batin

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

فقر کا سفر جس کی انتہا دیدار و وِصالِ الٰہی ہے،ا ختیار کرنے کا آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ بندہ حقیقی طور پر ’’بندہ‘‘ یعنی اللہ کا غلام بن جائے۔ اس کا ہر عمل کھانا، پینا، سونا، بات کرنا صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہو اور وہ ہر لمحے اپنے ربّ کو حاضر ناظر جان کر اس کے حضور سر جھکائے حاضر رہے، اس کی یاد میں محو رہے اور اس کے ایک بھی حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے خوف کھائے۔اپنے اختیار، ارادے، مرضی اور خواہش کو اللہ کے اختیار اور رضا کے سامنے بالکل ختم کر دے جیسا کہ قرآن میں اللہ پاک فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  (سورۃ الانعام۔162)
ترجمہ: فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور میری قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

یعنی میرا ہر عمل اللہ کے لیے ہے۔ صوفیا کرام انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم فرماتے ہیں:
۱)  طالبانِ دنیا: جن کا ہر عمل صرف ان کی اپنی ذات کے لیے ہے۔ ان کی ہر محنت، کوشش حتیٰ کہ عبادت بھی اپنی ذات اور اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔ ان کے نیک اعمال بھی لوگوں میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے ہیں اور عبادات بھی اپنے کسی نہ کسی دنیاوی مقصد کو پانے کے لیے ہیں۔

۲)  طالبانِ عقبیٰ: جن کے ہر عمل کے پیچھے اپنی آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کی نیت کار فرماہے۔ ان کی عبادات، اعمال، جدوجہد جنت کے حصول اور نارِ جہنم سے نجات کے لیے ہیں۔ ان کی نظر دن رات بہشت کی حوروں، محلات اور دیگر نعمتوں پر رہتی ہے۔ اسی کے لیے ان کی تمام ریاضت اور زہد و عبادات وقف ہیں۔

۳)  طالبانِ مولیٰ: یہ اہلِ اللہ کا وہ مخصوص اور قلیل گروہ ہے جن کی نظر صرف اور صرف اللہ پر ہے، انہیں نہ دنیا سے کوئی غرض ہے نہ آخرت کی نعمتوں کی طلب ہے، نہ اپنی آسائش و تعریف کی تمنا ہے۔ ان کے ہر عمل، عبادت اور جدوجہد کا مقصد صرف اور صرف دیدار و رضائے الٰہی ہے۔ یہ دنیا و عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر صرف ذاتِ حق کے وصال کے متمنی رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا کھانا، پینا، سونا، اٹھنا، بیٹھنا صرف اور صرف اللہ کی حضوری کی حالت میں ہوتا ہے کہ یہ ایک لمحہ بھی اپنے ربّ سے غافل نہیں ہوتے۔ یہ عاشقانِ الٰہی ہیں جن کا عشق انہیں کسی پل بھی ان کے محبوبِ حقیقی سے جدا نہیں ہونے دیتا۔ اللہ کا عشق ان کی ذات سے ہر غیر ماسویٰ اللہ کو دور کر دیتا ہے۔ ان کا عشق ہی ان کی عبادت اور ایمان ہے۔ اللہ ان کے متعلق فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (سورۃ البقرہ۔165)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ  نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ (سورۃ البقرہ۔207)
ترجمہ: اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا (سورۃ السجدہ۔16)
ترجمہ:ان کے پہلو ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے ربّ کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (سورۃ البقرہ۔46)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ کا دیدار کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

ان تینوں گروہوں کو حدیثِ قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے:
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مَذَکِّرٌ 
ترجمہ: طالبِ دنیا مخنث ہے، طالبِ عقبیٰ مؤنث ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا فَلَہُ الدُّنْیَا مَنْ طَلَبَ الْعُقْبٰی فَلَہُ الْعُقْبٰی وَ مَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ 
ترجمہ: جس نے دنیا کی طلب کی اس کے لیے دنیا ہے، جس نے عقبیٰ کی طلب کی اس کے لیے عقبیٰ ہے اور جس نے مولیٰ کی طلب کی اس کے لیے سب کچھ ہے۔

اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الْعُقْبٰی وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا اَلدُّنْیَا وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْمَوْلٰی 
ترجمہ: دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے اور عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے۔ دنیا اور عقبیٰ دونوں طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں۔

اب ہر انسان اپنے اعمال، اپنی خواہشات اور اپنی طلب پر غور کر کے بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ ان میں سے کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایک عام مسلمان اپنی زندگی پر غیر جانبدار ہو کر نگاہ ڈالے تو وہ یہ حقیقت ضرور جان پائے گا کہ اس کا کوئی بھی عمل اور عبادت خالص اللہ کی رضا اور محبت کے لیے کبھی بھی نہ تھا۔ اس نے کھایا پیا تو اپنے تن کی پرورش اور اپنے ذائقے کی تسکین کی خاطر، پہنا تو خود کی آرائش اور لوگوں کی ستائش کی خاطر، پڑھا لکھا تو دنیاوی مال اور عزت کمانے کی خاطر، شادی کی تو اپنی زندگی پرُسکون بنانے کے لیے، اولاد پیدا کی تو اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے، اولاد کی پرورش کی تو اسی کی محبت میں یا اسے اپنے بڑھاپے کا سہارا بنانے کی نیت سے۔۔۔ یہاں تک کہ عبادات بھی اپنی دنیاوی ضروریات کی تکمیل کے لیے کیں۔ ہر نماز و روزہ کے بعد اپنی ضروریات اور خواہشات کی فرمائشوں کی طویل فہرست ’’دعا‘‘ کی صورت میں اللہ کے سامنے پیش کر دینا ظاہر کر دیتا ہے کہ عبادات کا اصل مقصد کیا تھا۔ دعائوں کی اس فہرست میں کبھی اللہ کو پا لینے کی یا اس کے دیدار کی دعا موجود نہیں ہوتی نہ وہ کبھی اللہ سے اللہ کو مانگتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی عبادات میں اللہ کی محبت، اس کے قرب کی چاہت موجود ہی نہ تھی یعنی وہ خالص اللہ کے لیے نہ تھیں۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے بھی ان کا دھیان، ان کی فکر دنیا کی طرف تھی۔جو اعمال اور عبادات اللہ کی خاطر تھے ہی نہیں تو ایسے بے روح اعمال کی اللہ کے ہاں قبولیت حاصل ہونے کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ البتہ اپنے بندوں کی ضرورتوں اور خواہشوں کو اپنی ’’رحمانیت‘‘ کی صفت کے تحت اللہ ضرور پورا کرتا ہے۔ اگر اہلِ عقبیٰ کے اعمال و عبادات پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بھی ان کے ذاتی فائدے کی نیت ہی نظر آتی ہے۔ البتہ وہ فائدہ دنیا کی بجائے آخرت کا فائدہ ہے یعنی بہشت، حوریں، دودھ و شہد کی نہریں ،محلات وغیرہ۔ وہ یا تو دوزخ کے خوف سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں یا جنت کے لالچ میں۔ پس ان کی نظر بھی اللہ کی رضا اور دیدار اور اللہ کے خوف پر نہیں، اپنی بخشش اور اُخروی آسائش پر ہے۔ ان کا ایمان بھی آخرت تک محدود ہے۔ 

منقول ہے کہ ایک روز حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا ایک ہاتھ میں آگ اور ایک ہاتھ میں پانی لیے تیزی سے کہیں جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہی ہیں تو فرمایا کہ میں پانی سے جہنم کی آگ کو بجھانے اور آگ سے جنت کو جلانے جا رہی ہوں کیونکہ ان دونوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر اللہ سے ہٹ گئی ہے۔ 

بیشک اگر اللہ جنت اور دوزخ نہ بھی بناتا تو بھی وہ اس لائق تھا کہ اس سے محبت کی جائے اور اسی محبت کے تحت اس کی عبادت کی جائے۔ اسی محبت اور خلوص کی کمی اہلِ دنیا اور اہلِ عقبیٰ کے اعمال و عبادات میں ہے۔ اللہ بھی انہیں وہ شے عطا کرتا ہے جس کی خاطر انہوں نے ہر عمل کیا یعنی طالبانِ دنیا کو دنیااور طالبانِ عقبیٰ کو جنت و حور و قصور لیکن اپنی ذات کے قرب و دیدار سے انہیں محروم رکھتا ہے کیونکہ وہ کبھی اس کے طالب تھے ہی نہیں۔ اللہ کے طالب جنہیں اللہ کے دیدار اور قرب کی طلب کسی پل چین نہیں لینے دیتی اپنے ہر عمل کے ذریعے اللہ کے قرب کے طلبگار ہوتے ہیں وہ اعمال تو دنیا کے کرتے ہیں لیکن ان کا دل ہر وقت اللہ کی یاد میں رہتا ہے۔ اسی کو حضورِ قلب کہتے ہیں۔ وہ کھاتے پیتے ہیں تو اس نیت سے کہ اللہ کے عطا کردہ جسم کو اس کا حق دیں کہ یہ جسم بھی اللہ کی نعمت ہے جس کے متعلق روزِ قیامت پرُسش ہوگی یا وہ اس نیت سے کھاتے پیتے ہیں کہ جسم کو اللہ کی عبادت اور اللہ کے دیگر کاموں یعنی دین کی تبلیغ وغیرہ کے لیے درکار قوت حاصل ہو۔ وہ سوتے ہیں تو اس لیے کہ دوبارہ تازہ دم ہو کر اٹھیں اور پھر سے اللہ کے کاموں میں مشغول ہو جائیں یا اس نیت سے کہ دورانِ نیند انہیں دنیا کے جھنجھٹ سے فراغت حاصل ہو اور وہ سکون سے خواب کے ذریعے مشاہدات میں مگن ہو جائیں۔وہ شادی کرتے ہیں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ادا کرنے کے لیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’نکاح میری سنت ہے جس نے اسے چھوڑا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘وہ اولاد پیدا کرتے ہیں کہ اس کی پرورش رضائے الٰہی کے مطابق کر کے اسے دین کے کاموں میں لگائیں، اسے حقیقی دین یعنی عشقِ الٰہی اور فقر سے آگاہی دے کر اہلِ اللہ حقیقی مسلمانوں میں اضافہ کریں۔ وہ محنت کرتے اور کماتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا ’’اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہ  ترجمہ: ’’محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے‘‘ اور رزقِ حلال کمانا بھی عبادت ہے یا وہ اس لیے کماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کر سکیں۔ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کی انتہائی ضروریات کے علاوہ وہ تمام مال سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ پس ان کا ہر عمل اور ہر سوچ اللہ سے جڑی ہے، اللہ کے لیے ہے۔ لہٰذاوہ ہر وقت اللہ کی عبادت کی حالت میں ہیں اور ان کی حقیقی عبادات کا تو کیا کہنا۔ حضرت رابعہ بصریؒ فرماتی ہیں:

سجدہ مستانہ ام باشد نماز
دردِ دل با او بود قرآنِ من

ترجمہ: مستانہ وار محبوب کو سجدہ کرنا میری نمازِ حقیقی اور درد بھرے دل کا سوز و گداز میرا قرآن پڑھنا ہے۔

طالبانِ مولیٰ باطنی آنکھوں سے ہر وقت دیدارِ الٰہی میں مگن رہتے ہیں اور حالتِ حضوری میں غرق رہتے ہوئے ہر وقت باطن میں قربِ الٰہی کے سفر پر گامزن رہتے ہیں۔اسی قرب کی حالت میں انہیں تجلیاتِ الٰہیہ کی شدتوں کو بھی سہنا ہوتا ہے۔ اللہ کبھی اپنے اسمائے جلالی مثلاً جبار، قہار، قابض وغیرہ کی تجلی سے ان کے نفس کو فنا کرتا ہے تو کبھی اسمائے جمالی مثلاً رحیم، کریم، لطیف کی تجلی سے ان کے باطن کو اپنے نور سے آباد کرتا ہے جیسا کہ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حق تعالیٰ اپنے جلال کی تجلی سے دوستوں کے نفس کو فنا کرتا ہے اور اپنے جمال کی تجلی سے ان کے دل اور باطن کو آباد کرتا ہے۔ (کشف المحجوب)

اسمائے جلالی کی تجلی سے ان پر قبض، وحشت، خوف، عشق کی شدید تڑپ اور سکر جیسی حالتیں طاری ہوتی ہیں جن سے ان کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا۔ ان حالتوں کو خاموشی سے بغیر کسی پر ظاہر کیے برداشت کرنا، ان پر صبر کرنا اور قرب کے سفر پر چلتے رہنا ہرگز آسان نہیں۔ اس کے علاوہ اللہ اپنے بندوں کو باطنی آزمائشوں سے بھی گزارتاہے اور باطنی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے۔ جیسا کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف ’’شمس الفقرا‘‘ میں رقم طراز ہیں:
اور پھر راہِ فقر میں یہ لمحات بھی آجاتے ہیں کہ طالب ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے محوِگفتگو یا اللہ تعالیٰ طالب سے محوِگفتگو رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عاشق و معشوق، محب اور محبوب کے درمیان نہایت ہی دلچسپ اور پرُ کیف سلسلۂ راز و نیاز شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مومن کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے، جہاں اُس کی ہمت، ایمان اور یقین کوپرکھا جاتا ہے۔ یہاں پر اس پر انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔ جہاں کبھی تو اس پر قوسِ ابرُو سے تیر مژگاں چلا کر اس کے قلب و جگر کو چھلنی کیا جاتا ہے اور کبھی لبِ لعل کے شربت ِرُوح افزا سے اس پر نوازشات کی بارش کی جاتی ہے اس مقام پر کبھی عاشق کے لیے شمع و پروانہ اور گل و بلبل کی داستانیں دہرائی جاتی ہیں تو کبھی اُسے نظرِ عنایت سے نوازا جاتا ہے۔ کبھی پردہ چہرے سے اٹھا کر اُسے حسنِ عالم سوز کے جلوئوں سے مشرف کیا جاتاہے تو کبھی اُسے آتشِ ہجر و فراق میں ڈال کر خاکستر بنایا جاتاہے۔ اسی مقام پر عابد و معبود اور عاشق و معشوق کے مابین ایسا سلسلہ کلام جاری ہو تا ہے جس میں ہزاروں لاکھوں حقائق و معارف بیان کیے جاتے ہیں، علمِ لدنیّ اور علمِ اسرار عطا کیا جاتا ہے اور کئی قسم کی تجلیات سے سالک کی تواضع کی جاتی ہے۔ کبھی جاہ و جلال کی بجلیاں گرائی جاتی ہیں تو کبھی حسن و جمال کے کرشموں سے سرشار کیا جاتا ہے، کبھی ہجرو فراق کے تیر برسائے جاتے ہیں تو کبھی شرابِ وصل سے سیراب کیا جاتا ہے، کبھی زلفِ سیاہ کے پھندوں میں گرفتار کیا جاتا ہے تو کبھی رُخِ انور کی ضیا باریوں سے ان کے قلب و جان کو زندہ کیا جاتا ہے۔ کبھی بعد سے آزمایا جاتا ہے۔ کبھی قرب سے نوازا جاتا ہے۔ کبھی بیخودی، استغراق اور محویت میں مست کیا جاتاہے توکبھی خوف و ہیبت کی آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کبھی بلبل کی طرح رُوئے گل پر نثار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو کبھی شمع حسن پر دیوانہ وار جلایا جاتا ہے۔ غرضیکہ محبوبِ حقیقی کے ناز و انداز عشوئے غمزے بدلتے رہتے ہیں اور عاشق صادق ہر حال میں خوش و خرم رہتا ہے۔ اس لیے کہ دوست کا جلال اور جمال دونوں محبوب ہیں۔ قرب میں وہ صفتِ جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بعد میں جمال کا اور کبھی اس کے برعکس معاملہ ہوتا ہے۔ ان کی گریہ و زاری، ان کے غم و اندوہ، ان کے ہجرو فراق، ان کے وصل و انبساط، ان کے ذوق و شوق، ان کے شعرو سخن، ان کے وجد و حال، ان کے علم و دانش، ان کی جدوجہد، ان کی کاوشوں، قربانیوں، جاں نثاریوں کا مرجع، ان کا منجا، ان کا ملجا، ان کا ماویٰ، ان کی جان، ان کی عزت، ان کی شان، ان کی آن، ان کی بان، ان کے دین، ان کے ایمان، ان کے دھرم، ان کے بھرم، ان کی شرم، ان کے زُہد، ان کے تقویٰ، ان کے حج، ان کی زکوٰۃ، ان کے صوم، ان کی صلوٰۃ، ان کی زندگی اور ان کی موت کا مقصد و مدعا، غرض و غایت محبوبِ حقیقی کی رضا ہوتی ہے۔ (شمس الفقرا)

پس اپنے محبوبِ حقیقی کی رضا کی خاطر وہ ہر تنگی و ترشی برداشت کرتے ہیں خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی۔ اولیا اللہ اور فقرا کی حیاتِ طیبات اس کی گواہ ہیں کہ ان کی ظاہری زندگی بھی مسائل اور تکلیفوں سے پرُ تھی جس قدر تنگی وہ ظاہری زندگی میں برداشت کرتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ صبر آزما ان کے باطنی حالات ہوتے ہیں جن سے گزرنے کے بعد ان کے لیے ظاہری زندگی کی تنگیاں اور پریشانیاں سہنا کچھ خاص مشکل نہیں رہتا ہے۔ یوں بھی سخت باطنی احوال سے گزر کر نہ صرف ان کی ہمت و حوصلہ کو بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے اور انہیں صبر کی بہت زیادہ توفیق مل جاتی ہے بلکہ انہیں تسلیم و رضا کے اس مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ ہر حال میں اللہ سے راضی رہتے ہیں۔ لہٰذا سخت سے سخت حالات میں بھی وہ پرُسکون رہتے ہیں۔ 

اس کے برعکس جو لوگ باطن میں اللہ کے قرب کے سفر پر گامزن نہیں ہوتے ان کی ظاہری زندگی میں خواہ زیادہ مصائب ہوں یا کم لیکن قربِ الٰہی کی کمی کی وجہ سے نہ انہیں صبر کی زیادہ توفیق حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی تسلیم و رضا حاصل کرنے کی۔ لہٰذا چھوٹی چھوٹی مشکلات برداشت کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ خود ایسی باتوں کو بھی اپنے لیے مسئلہ بنا لیتے ہیں جو بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہوتیں۔ ظاہری زندگی کی آسائشوں اور ذاتی خوشیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ان کی عمر گزر جاتی ہے، اپنی انا اپنی عزت کی پرستش میں وہ بہت سے قیمتی رشتوں اور چیزوں کو گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک خواہش کی تکمیل کے بعد دوسری خواہش، ایک مسئلے کے حل کے بعد دوسرا مسئلہ ان کی توجہ ساری زندگی اللہ کی راہ پر چلنے، اس کا قرب، دیدار اور رضا پانے کی طرف ہونے ہی نہیں دیتا۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ یہ جان ہی نہیں پاتے کہ ان کی تمام عمر کی جدوجہد بے کار گئی۔ انہوں نے ان چیزوں کے پیچھے بھاگنے میں وقت گنوایا جو یا تو ان کی تقدیر میں پہلے ہی لکھی تھیں لہٰذا کم کوشش اور بغیر فکر کے بھی مل جانی تھیں یا ان کی تقدیر میں لکھی ہی نہیں تھیں لہٰذا ہر ممکن کوشش اور فکر کے بعد بھی نہ ملنی تھیںسو نہ ملیں۔ اگر اتنی ہی جدوجہد انہوں نے اللہ کو راضی کرنے اور اس کی محبت کے حصول کے لیے کی ہوتی تو ان کی موت ان کے لیے ایک خوفناک اختتام نہیں بلکہ محبوب سے وصل کی خوشی کا پیغام لاتی۔ پس باطنی سفر سے محرومی نے ان کی دنیاوی زندگی کی پریشانیوں کو بھی برداشت کرنا مشکل بنا دیا اور آخرت کی زندگی میں بھی انہیں قربِ الٰہی کی نعمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا۔ باطنی سفر کی آزمائشیں اور تنگیاں بالآخر سکون اور نفسِ مطمئنہ کی طرف لے جاتی ہیں اور اس سفر سے محرومی ہمیشہ کے لیے مصائب میں مبتلا کر دیتی ہے۔

عوام الناس کو دعوت دی جاتی ہے کہ دنیا و عقبیٰ کی طلب کو چھوڑ کر محض اللہ ربّ العزت کی رضا و خوشنودی کے حصول کی خاطر اپنی زندگی گزارنے کا عملی نمونہ دیکھنے کے لیے مرشد کامل اکمل امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں تشریف لائیں۔ آپ کا دل اس بات کی گواہی دے گا کہ آپ ایک ولیٔ کامل کی پاک بارگاہ میں تشریف فرما ہیں اور دل کووہ اطمینان و سکون نصیب ہو گا جو آج تک لاکھ کوششوں اور نیک اعمال کے بعد بھی کبھی نصیب نہیں ہوا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہرجمعہ، ہفتہ اور اتوارکے روز خانقاہ سلطان العاشقین بمقام رنگیل پور شریف براستہ سندر اڈا ملتان روڈ لاہور میں ہر خاص و عام سے ملاقات فرماتے اور باطنی ترقی کے ذریعے قرب و وصالِ الٰہی کی منازل کے حصول کے لیے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات (اسمِ اعظم) عطا فرماتے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ اپنی اپنی لگن اور تڑپ کے مطابق بیعت یا بغیر بیعت کے اسمِ اعظم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری بدن کی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ بھی عطا کی جاتی ہے تاکہ طالب کاظاہر و باطن دونوں پاک صاف ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت کے جھمیلوں سے نکال کر خالصتاً اپنی رضا کی خاطر عبادت و ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 
 

28 تبصرے “سفر ِباطن SAFAR-E-BATIN

    1. عوام الناس کو دعوت دی جاتی ہے کہ دنیا و عقبیٰ کی طلب کو چھوڑ کر محض اللہ ربّ العزت کی رضا و خوشنودی کے حصول کی خاطر اپنی زندگی گزارنے کا عملی نمونہ دیکھنے کے لیے مرشد کامل اکمل امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں تشریف لائیں

  1. (سورۃ البقرہ۔207)
    ترجمہ: اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔

  2. اللہ پاک حبّ دنیا اور طلب دنیا سےقلب کو پاک فرمادے۔۔۔

  3. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت کے جھمیلوں سے نکال کر خالصتاً اپنی رضا کی خاطر عبادت و ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

  4. حقیقی کامیابی یہی ہے کہ انسان خدا کی رضا پر راضی رہے

  5. فقر کا سفر جس کی انتہا دیدار و وِصالِ الٰہی ہے،ا ختیار کرنے کا آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ بندہ حقیقی طور پر ’’بندہ‘‘ یعنی اللہ کا غلام بن جائے۔ اس کا ہر عمل کھانا، پینا، سونا، بات کرنا صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہو اور وہ ہر لمحے اپنے ربّ کو حاضر ناظر جان کر اس کے حضور سر جھکائے حاضر رہے، اس کی یاد میں محو رہے اور اس کے ایک بھی حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے خوف کھائے۔اپنے اختیار، ارادے، مرضی اور خواہش کو اللہ کے اختیار اور رضا کے سامنے بالکل ختم کر دے

  6. ہمیں ہر وقت اللہ کی طلب کرنی چاہئیے اور اس کی رضا میں راضی رہنا چاہئیے۔

  7. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت کے جھمیلوں سے نکال کر خالصتاً اپنی رضا کی خاطر عبادت و ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں