شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم SHARAH Bismillah Al-Rahman Al-Rahim


4.5/5 - (32 votes)

شرح  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
( SHARAH Bismillah Al-Rahman Al-Rahim)

مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

حضرت امام حسینؓ اپنی تصنیف ’’مرآۃ العارفین ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ جو کچھ تمام کتاب (قرآن) میں تفصیلاً بیان کیا ہے اس کو سورۃ فاتحہ میں درج اور پوشیدہ کیا اور جو فاتحہ میں (تفصیلاً) ہے وہ بِسْمِ اللّٰہ میں (پوشیدہ) ہے اور جو بِسْمِ اللّٰہ میں (تفصیلاً) ہے وہ اس کی باء میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ باء میں ہے اسے (باء کے) نقطہ میں پوشیدہ اور مبہم کیا۔ ‘‘
مندرجہ بالا عبارت کے ظاہری معنی سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کی تمام تفصیل کو سورۃ فاتحہ میں درج کر دیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کوقرآنِ کریم کا خلاصہ یا مرکزی خیال بھی کہا جا سکتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے  حضرت ابو سعید بن معلیؓ سے فرمایا:
کیا میں تمہیں ایسی سورت نہ بتاؤں جو قرآنِ کریم کی تمام سورتوں کی سردار ہے ؟وہ الحمد شریف ہے ۔ یہی سبع ثانی (سات آیتوں والی ) اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے عطا فرمائی گئی۔ (بخاری 4703)

سورۃ فاتحہ کا آغاز ’’اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘ یعنی تمام تعریفیں ربّ العالمین کی ہیں ‘‘سے شروع ہوتاہے اور یہ اللہ کی جامع اور کامل تعریف ہے۔ اللہ ہی ہے جو تمام تعریفوں کے لائق ہے اور قیامت کے دن کا مالک ہے۔ ہر ایک کی جزا اور سزا کے فیصلہ کا حق اسے ہی حاصل ہے ۔ سورۃ فاتحہ کی آیت’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘  (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں )اللہ اور بندے کے مابین تعلق جوڑنے کا وسیلہ ہے اور ربّ تعالیٰ کے رُوبروبندگی کا اظہار ہے ۔ تمام قرآنِ کریم کا مقصد بھی اللہ کی ربوبیت کا اظہار ہے اور بندے کو عبودیت کا سبق سکھانا ہے ۔ قرآنِ کریم کی محض اس ایک آیت میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ یہ فریضہ سرانجام دے دیا گیا ہے۔قرآنِ کریم ہمیں سکھاتا ہے کونسی راہ اختیار کر کے ہم دین و دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور سورۃ فاتحہ میں اس رازِ روشن کو بیان کیا گیا ہے کہ ’’صراط مستقیم‘‘ اپنانے والوں کی راہ پرچل کر کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصودپر پہنچا جا سکتا ہے۔ انہی کو انعام یافتہ گروہ کہا گیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی آخری آیات درحقیقت بندے کو اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ِ حیات بتاتی ہیں اور تمام قرآنِ کریم کی تعلیمات کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ بندے کو اس دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد سے آگاہ کیا جائے۔

سورۃ فاتحہ میں جو کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ بِسْمِ اللّٰہ میں پوشیدہ ہے ۔ بِسْمِ اللّٰہ  یعنی اسم ’’اللہ ‘‘ وہ پاک ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بہترین حمد و ثنا ہے۔ اسم ’’اللہ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پسندیدہ نام ہے ، اسمِ اللہ ہی تمام اسما کا جامع ہے، تمام صفاتِ الٰہیہ اسی میں منعکس ہیں۔ دنیا کی ہر شے چرند، پرند، حیوانات، نباتات سب اسمِ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اللہ پاک خود قرآنِ کریم میں انسان کو حکم دیتا ہے کہ میری تعریف اورمیری تسبیح میرے اسم’’ اللہ ‘‘سے کرو ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فسبح باسم ربک العظیم  (سورۃحاقتہ ۔52،سورۃواقعہ۔ 74،96)
ترجمہ :پس اپنے ربّ عظیم کے نام (اسم اللہ ) کی تسبیح بیان کرو ۔
اسم اللہ تمام عالموں میں موجود اللہ کی تمام نشانیوں کا جامع ہے ۔ قرآن میں موجود ہدایت کا خزانہ اسمِ اللہ ذات سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

ب بسم اللہ اسم اللہ دا، اے وی گہناں بھارا ھوُ

یعنی بسم اللہ میں اسمِ اللہ پوشیدہ ہے اور یہ ہی بھاری امانت ہے (یعنی ذاتِ حق تعالیٰ) جس کو اٹھانے سے تمام مخلوقات نے انکار کر دیا تھا سوائے انسان کے۔

 

آپؒ مزید فرماتے ہیں :
سن چاروں کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآنِ مجید اسمِ اللہ ذات کی شرح و تفسیر ہیں۔ تمام پیغمبروں نے پیغمبری اسمِ اللہ ذات کی برکت سے پائی ہے۔ اسم اللہ ذات عین ذات پاک ہے۔ (عین الفقر)
اسمِ اللہ کے ذکر سے نفس و قلب پاک ہوتے ہیں۔ آپؐ نے اسمِ اللہ کے ذکر کو نفوس کو پاک کرنے کی صیقل قرار دیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
ہر چیز کے لیے صیقل (صفائی کرنے والی چیز )ہے اور قلب کی صیقل اسم ِ اللہ کا ذکر ہے ۔
 اسمِ اللہ کے ذکر کی بدولت حاصل ہونے والی نورانیت اور شفافیت  سے بندے کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق اور نعمت حاصل ہوتی ہے اور اسی ذکر کے ذریعہ بندے کا تعلق اللہ کے ساتھ مستحکم ہوتا ہے ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فاذکرونی اذکرکم  (سورۃ البقرہ ۔152)
ترجمہ: تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔

الغرض تمام فیضِ الٰہی اور رازِ الٰہی جو سورۃ فاتحہ میں موجود ہے وہ سب  ’’بِسْمِ اللّٰہ ‘‘ میں  پوشیدہ ہے ۔تمام  بِسْمِ اللّٰہ پوشیدہ ہے  بِسْمِ اللّٰہ  کی باء میں ۔ باء سے مراد نورِ محمدی ؐہے۔ باء حروفِ تہجی کا دوسرا حرف ہے اور الف اللہ کے بعد ظاہر ہونے والا وجود نورِ محمدیؐ ہے۔ آپ ؐ کا وجود نورِ الٰہی کا اظہار ہے جن میں تمام قرآن، تمام سورۃ فاتحہ، تمام اسم اللہ کا نور جلوہ گرہے۔ انسانوں کو خیر و بھلائی کا راستہ دکھانے والے، صراطِ مستقیم پر چلانے والے آپؐ ہیں۔ آپؐ کی ذات ہی وسیلہ ہے بندے اور اللہ کے درمیان تعلق استوار کرنے کا۔ آپؐ ہی راہِ ہدایت دکھانے والے عظیم رہنما ہیں۔ جوسبق قرآنِ کریم ہمیں سکھاتا ہے آپؐ نے اس کا اظہار اپنے قول، فعل اور کردار کے ذریعہ ادا کر کے دکھایا۔ الغرض آپؐ کا ہر عمل ہی قرآن ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’آپؐ کا خلق قرآن ہے ۔‘‘ 

حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں کہ جو کچھ باء میں ہے وہ اس کے نقطہ میں پوشیدہ ہے۔ باء کے نقطہ سے مراد ’’انسانِ کامل‘‘ ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ انا نقطہ باء بِسْمِ اللّٰہ  یعنی ’’میں بِسْمِ اللّٰہ  کی باء کا نقطہ ہوں۔ ‘‘ 

انسانِ کامل کی ذات تمام اسرارِ الٰہی ‘ حقائقِ قرآن و حدیث، سورۃ فاتحہ، نورِ اسمِ اللہ، نورِ محمد کا مرکز ہوتی ہے۔ باء کے نقطہ سے مراد حقیقتِ محمدیہ ہے۔ حقیقتِ محمدیہ ہر زمانے میں اس زمانے کے ’’انسانِ کامل‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت شیخ موید الدین جندی قدس سرہٗ فرماتے ہیں :
اسمِ اعظم جس کا ذکر مشہور ہو چکا ہے اور جس کی خبر چار سو پھیل چکی ہے وہ حقیقتاً و معناً عالمِ حقائق و معنی سے ہے اور سورۃً و لفظاً عالمِ صورت و الفاظ سے ہے ۔ جمیع حقائقِ کمالیہ سب کی سب احادیث کا نام حقیقت ہے اور اس کے معنی وہ انسانِ کامل ہے جو ہر زمانے میں ہوتا ہے یعنی قطب الاقطاب اور امانتِ الٰہیہ کا حامل اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے اور ’’اسمِ اعظم ‘‘ کی صورت اس ولیٔ کامل کی ظاہری صورت کا نام ہے ۔(تفسیر روح البیان )

سورہ فاتحہ میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اگر اللہ کی جامع تعریف ہے تو انسانِ کامل کی ذات تمام اسمائے الٰہی، علمِ حق و خلق کا اظہار ہے۔ شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابنِ عربیؒ اپنی تصانیف ’’فتوحاتِ مکیہ اور ’’فصوص الحکم‘‘ میں انسانِ کامل کے متعلق فرماتے ہیں:
عالم میں موجود ہر شے حق تعالیٰ کے کسی نہ کسی اسم کی مظہر ہے اور وہی اسم اس کا ربّ ہے اور انسانِ کامل حق تعالیٰ کے اسمِ جامع اسم اللہ کا مظہر ہے جو سب اسمائے الٰہی کا ربّ ہے پس ربّ الارباب ہے پس ربّ العالمین ہے ۔

سورۃ فاتحہ دعوت دیتی ہے صراطِ مستقیم اپنانے اور انعام یافتہ گروہ میں شامل ہو جانے کی۔ جبکہ انسانِ کامل ہی وہ انعام یافتہ انسان ہے جس کا راستہ صراطِ مستقیم ہوتا ہے۔ طالبانِ مولیٰ کی ظاہری و باطنی تربیت فرما کر انہیں بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔ انسانِ کامل اللہ کی نیابت اور رسول اللہؐ کی خلافت کا حق ادا کرتے ہوئے مومنوں کو نفسانی حجابوں کے اندھیرے سے نکال کر قربِ الٰہی کے روشن نور میں لے آتا ہے ۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات کا مقصد بھی مومنوں کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی جانب لے کر آنا ہے۔ جس طرح سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات ربّ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہیں اور آخری آیات عبودیت کا اظہار ہیں اسی طرح انسانِ کامل ربوبیت اور عبودیت دونوں صفات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شیخ ِاکبر حضرت محی الدین ابنِ عربی اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں :
انسانِ کامل ربوبیت اور عبودیت کا جامع ہے ۔ اگر اللہ واحد ہے تو اس کا خلیفہ (انسانِ کامل ) بھی ( دنیا میں)واحد ہے ۔(فتوحاتِ مکیہ ، فصوص الحکم)

اسی مقام کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’رسالہ روحی شریف ‘‘ میں فرماتے ہیں :

گاہی قطرہ در بحر و گاہی بحر در قطرہ 

ترجمہ: کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطر ہ میں۔ 

سورۃ فاتحہ کی آیت ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘ اللہ اور بندے کے درمیان تعلق جوڑنے کا وسیلہ ہے ،برزخ ہے اسی طرح انسانِ کامل کا وجود بھی بندے اور ربّ کے درمیان تعلق استوار کرنے کا وسیلہ، رابطہ، ذریعہ اور برزخ ہے۔ اسی کے وسیلہ سے بندہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا ہوااپنی حقیقی منزل تک پہنچ جاتا ہے ۔ قرآنِ کریم میں ایسے کامل وسیلہ کوتلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے :
 اے ایمان والو !تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔ (سورۃ المائدہ ۔35)
حدیثِ مبارکہ ہے :
پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو ۔ 

بسم اللہ کے باء کے نقطہ سے مراد انسانِ کامل کا قلب بھی ہے ۔قرآن کا تمام علم انسانِ کامل کے ’قلب ‘ میں مجتمع ہے اسی کے متعلق حدیثِ قدسی ہے :
 نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔   
انسانِ کامل کا قلب کائنات کا وہ مقام ہے جہاں ذاتِ حق تعالیٰ کی سمائی ہے۔ انسانِ کامل کا قلب ہی وہ نقطہ ہے جہاں اللہ اور اس کا تمام علم مرکوز ہے۔ قرآن کا علم ہو یا دوسری الہامی کتب کا، خلق کا علم ہو یا خالق کا، دنیا کا علم ہو یا آخرت کا، سب اس کے قلب کے نقطہ میں جمع ہے۔ تمام علم کا مرکز بھی وہی ہے اور دنیا میں تمام علم اسی ایک نقطہ سے پھیلا ہے۔ انسانِ کامل کا قلب وہ جگہ ہے جہاں انوارِ ذات نازل ہوتے ہیں اور اس کی وسعت کا بیان و اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ حدیثِ نبویؐ ہے :
مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور ہر چیز کو جمع کر رکھا ہے ہم نے امامِ مبین میں ۔(سورۃ یٰسین ۔ 12)

سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا ‘‘ میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں’ امامِ مبین ‘ سے مراد انسانِ کامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر امر، حکم اور اپنی پیدا کردہ کل کائنات کو ایک لوحِ محفوظ جو کہ انسانِ کامل کا قلب ہے ، میں محفوظ کر رکھا ہے ۔ (شمس الفقرا)

 حضرت امام حسینؓ اپنی تصنیف ’’مرآۃ العارفین ‘‘ میں  بسم اللّٰہ  کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
پس با ء کے نقطہ سے مراد وجود کا نقطہ ہے اور بسم اللّٰہ  کی باء سے مراد دوسری اُمّ الکتاب ہے اور وہ قلم ہے اور بے شک وہ( یعنی قلم) نقطہ وجودیہ میں مندرج ہے (درج کی گئی ہے ، داخل ہے )اور بسم اللّٰہ  سے مراد تیسری امّ الکتاب ہے اور وہ عرش ہے اور بے شک عرش اس عقل میں مندرج ہے جس کو قلم کہتے ہیں ۔ 

حضرت امام حسینؓ نے اس قول میں باء کے نقطہ کو’’وجود کا نقطہ‘‘ قرار دیا ہے۔ تمام وجود کی ابتدا نورِ الٰہی کے نقطہ سے ہوئی ۔ اس لحاظ سے پہلی اُمّ الکتاب ‘ یعنی وجود کا نقطہ ’’نورِ الٰہی ہے ۔ نورِ الٰہی سے نورِ محمد یا قلم یا عقل کا ظہور ہوا۔ اسی نسبت سے نورِ محمد کو دوسری اُمّ الکتاب کہا گیا ہے۔ نورِ محمد اپنے ظہور سے قبل نورِ الٰہی میں پوشیدہ تھا۔ لہٰذا حضرت امام حسینؓ کے اس قول کی وضاحت ہو گئی کہ باء اپنے نقطہ میں پوشیدہ تھی۔ جب نورِ محمد اپنی ذات میں فراخ ہوا تو اس سے ظہور ہوا روحِ قدسی کا۔ روحِ قدسی جس سے تمام ارواح کا مادہ بنا، آغاز ہے موجوداتِ عالم کا۔ اس لحاظ سے یہ بسم اللّٰہ  ہے جس سے ہر کام کی ابتدا ہوئی۔ اس لحاظ بسم اللّٰہ  تیسری ام الکتاب ہے۔ روحِ قدسی کا نورِ محمد میں پوشیدہ ہونا اس قول کی وضاحت کرتا ہے کہ بسم اللّٰہ  ’’باء‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ دراصل جو شے جہاں سے ظاہر ہو ئی ، ظہور سے قبل اسی میں پوشیدہ تھی جیسے بچہ اپنے ظہور سے قبل ماں میں پوشیدہوتا ہے اور درخت بیج میں۔ روحِ قدسی اگر بسم اللّٰہ  ہے تو تمام ارواح سورۃ فاتحہ ہیں اور یہاں اس قول کی وضاحت ہو گئی کہ سورۃ فاتحہ بسم اللّٰہ  میں پوشیدہ ہے یعنی تمام ارواح روحِ قدسی میں پوشیدہ ہیں۔ اس انتہائی باریک نقطہ کو یوں سمجھا جا سکتا ہے تمام ارواح روحِ قدسی ( جسے عرش کے مشابہہ کہا گیا ہے اور تیسری ام الکتاب ہے) میں پوشیدہ ہیں، روحِ قدسی نورِ محمد ( جسے قلم یا عقل کے مشابہہ کہا گیا ہے جو دوسری ام الکتاب ہے) میں پوشیدہ ہے ، نورِ محمد نورِ الٰہی (جسے وجود کا نقطہ کہا گیا) میں پوشیدہ ہے ۔ اور اسی ترتیب کے لحاظ سے تمام سورتیں سورۃ فاتحہ میں پوشیدہ ہیں، سورۃ فاتحہ  بسم اللّٰہ  میں ، بسم اللّٰہ  باء میں ، اور باء اپنے نقطہ میں پوشیدہ ہے ۔  

حضرت امام حسینؓ مرآۃ العارفین میں بسم اللّٰہ  کی شرح کے متعلق فرماتے ہیں :
’’بسم اللّٰہ  جس کو اُمّ الاُم کہتے ہیں ، دو قسم پر منقسم ہے جس میں سے ایک قسم ذات کے متعلق ہے اور وہ ’بسم ‘ ہے اور دوسری قسم صفات کے متعلق ہے اور وہ الرحمن الرحیم ہے اور( ایک قسم) جو ان دو کے درمیان ہے وہ ان دو قسموں کی جامع اور ان دونوں کے مقابل ہے اور یہ دونوں قسمیں اس کے بیچ جامع ہیں اور وہ اللہ ہے۔ ‘‘ 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم  کی شرح کو سمجھانے کے لیے حضرت امام حسینؓ نے بسم اللّٰہ  کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے اور ان دو قسموں کو جوڑنے والی ایک برزخ ان دونوں کے درمیان ہے۔ پہلے حصہ میں ’’بسم‘‘ (یعنی اللہ کے اسما) کو رکھا ہے۔ دوسرے حصہ میں ’’الرحمن الرحیم‘‘ کو رکھا ہے جن سے اشارہ تمام صفاتِ الٰہیہ کی طرف ہے۔ یہ اسما و صفات جمع ہو گئے مقامِ برزخ یعنی انسانِ کامل میں۔ اس حصہ کو ’’اللہ‘‘ کے نام اور ذات سے موسوم کیا ہے جیسا کہ علامہ ابنِ عربیؒ فصوص الحکم میں فرماتے ہیں :
پس کامل اکمل اور مکمل وہ شخص ہے جو عالمِ اجسام سے ترقی کر کے مرتبہ احدیت میں پہنچ جائے اور تمام صفاتِ الٰہیہ سے متصف اور موصوف ہو جائے جیسا کہ حدیث ہے کہ  تخلقوا باخلاق اللّٰہ  (ترجمہ: اللہ کے اخلاق (صفات) سے متصف ہو جاؤ)۔ صفاتِ الٰہیہ بعض جلالیہ ہیں اور بعض جمالیہ ہیں۔ عارف کامل دونوں کا مظہر ہے مگر درحقیقت یہ کمال اس ذات کو حاصل ہے جس کا نام اللہ ہے ۔ یہ ذات کا وہ اسم ہے جو جمیع صفات اسما و صفات کا جامع ہے۔ مخلوقات میں اسم اللہ کا اطلاق صرف اور صرف جناب سرورِ کونین ؐ پر صادق آتا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے لیے مرآتِ تامہ (مکمل آئینہ) اور مجلیٔ اعظم ہیں ۔ (فصوص الحکم والا یقان) 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم  ’بسم ‘ یعنی اسمائے الٰہیہ ، الرحمن الرحیم،  یعنی صفاتِ الٰہیہ اور دونوں کے درمیان ’’اللہ‘‘ یعنی ذاتِ حق کا احاطہ کرتی ہے ، ذات ، صفات و اسما کا احاطہ کرنے کی بنا پر بسم اللہ کو ام الام کہا گیا ہے ۔  

تصنیف ’’مرآۃ العارفین (ترجمہ و شرح )‘‘ میں مترجم و شارح مسز عنبرین مغیث سروری قادری نے حضرت امام حسین ؓ کے بیان کیے گئے قول کی شرح بیان کی ہے کہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم  مخلوقات کے تین حصوں کو بھی ظاہر کرتی ہے ۔ پہلے حصہ (بسم) میں مخلوق کے وہ لوگ شامل ہیں جو اللہ کو صرف اس کے اسم سے جانتے ہیں۔ یعنی ان کا علم اللہ کے متعلق صرف اتنا ہے کہ کوئی ذات ہے جس کا اسم اللہ ہے جو اس کائنات کو پیدا کرنے والی اور چلانے والی ہے۔ دوسرے حصہ میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اللہ کو اسکی صفات سے پہچانتے ہیں اور کائنات کی ہر شے میں اس کی صفات کو جاری و ساری دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں حصہ جس مقام پر جڑتے ہیں یعنی مقامِ برزخ جسے ’اللہ‘ سے ظاہر کیا گیا ہے ، بندوں میں سے ان خاص الخاص لوگوں کو ظاہر کرتی ہے جو حق تعالیٰ کو جانتے پہچانتے ہیں اور جو اس ہستی کی معرفت حاصل کر چکے ہیں جن پر اسم اللہ کا اطلاق ہوتا ہے۔

شرح اسمِ رحمن

رحمن اور رحیم دونوں کا اشتقاق رحمت سے ہے۔ مگر ہر دو اسما میں خصوصیت جدا گانہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اسمِ رحمن اللہ کے دیگر اسما پر غالب و محیط ہے۔ نظریہ وحدت الوجود کے مطابق ہر شے، ہر موجود میں اللہ ہی اصل وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسی اسمِ رحمن کی بدولت ہر شے میں موجود ہے۔ اسی کے تحت وہ ہر شے کو وجود عطا کرتا ہے۔ ہر ذی روح کے رزق کا ضامن ہے، ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے، دعاؤں اور التجاؤں کو سنتا ہے۔ دنیا میں موجود ہر شے کا تعلق اسی صفتِ رحمانی کی بدولت اللہ سے جڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم رحمن سے جاری’ رحمتِ عامہ‘ وسیلہ ہے یا برزخ ہے اللہ اور کل موجودات میں تعلق جوڑنے کا۔ حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں:
پس اللہ کی ذات رحمتِ عامہ ہے جو (ہر خاص و عام  پر)احسان کرنے والی ہے ۔یہ (رحمتِ عامہ) اسم رحمن کے ساتھ مخصوص ہے اور (وہ رحمت) وجودیہ خاصہ اسم رحیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ (مرآۃ العارفین ) 

اللہ کا اسم رحمن اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا یہ نام اور کسی کا نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے ’رحمن‘ کے سواکسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے۔ (سورۃ الزخرف۔45)

سید عبد الکریم بن ابراہیم الجیلیؒ فرماتے ہیں :
صفاتِ الٰہیہ میں اصل وصف اس کا اسم رحمن ہے اس لیے کہ وہ شمولیت و احاطہ میں اسم اللہ کے مقابل ہے اور فرق ان دونوں کے درمیان یہ ہے کہ ’رحمن ‘اپنی جامعیت اور عمومیت کے اعتبار سے ذاتِ حق تعالیٰ کی وصفیت کا مظہر ہے اور مظہر ہے اسمیت کا۔ جان لے رحمن وجود کی بلند رتبہ ذات کے لیے اسمِ علم ہے۔ (انسانِ کامل) 

 شرح اسمِ رحیم 

اللہ تعالیٰ کے اسمِ رحمن سے جاری رحمت میں تمام موجودات شامل ہوتی ہیں جبکہ اسمِ رحیم سے جاری رحمت میں صرف مومنین شامل ہوتے ہیں۔ اس اسم کی تجلیات سے دیگر اسما و صفات کے آثار بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس اسم کے ذریعہ اللہ پاک اپنے بندگانِ خواص کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے ۔ حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں :
اسم رحیم سے جاری رحمت ‘ رحمتِ وجودیہ ہے جو اعمالِ صالح سے متعلق ہے پس (رحمتِ رحیمیہ کے لیے) مرحوم صرف مومن ہیں جو اعمالِ صالح کرتے ہیں۔ (مرآۃ العارفین ) 

سیدّ عبد الکریم بن ابراہیم الجیلی ؒ اسمِ رحمن اور اسمِ رحیم سے جاری رحمتِ الٰہیہ کے فرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جان لو کہ رحیم اور رحمن دو اسم ہیں جو رحمت سے مشتق ہیں لیکن رحمن اعم (عام) اور رحیم (خاص) و اُتمّ ہے۔ رحمن کا عموم اس جہت سے ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس رحمت کے لحاظ سے ہے جو جمیع موجودات کو شامل ہے اور رحیم کا خصوص اس جہت سے کہ اس کا نام رحیم اس رحمت کے لحاظ سے جو صرف اہل سعادت کے لیے مخصوص ہے۔ (انسانِ کامل)

استفادہ کتب
۱۔شمس الفقرا۔ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۲۔مرآۃ العارفین ۔ تصنیفِ لطیف سید الشہدا حضرت امام حسین ؓ ۔ مترجم و شارح عنبرین مغیث سروری قادری
۳۔ رسالہ روحی شریف ۔  سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ عین الفقر ۔  ایضاً
۵۔ شرح فصوص الحکم والایقان ۔شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ ۔ ترجمہ و شرح محمد ریاض قادری
۶۔ انسانِ کامل۔ سید عبد الکریم بن ابراہیم الجیلیؒ  


22 تبصرے “شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم SHARAH Bismillah Al-Rahman Al-Rahim

  1. حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں :
    اسم رحیم سے جاری رحمت ‘ رحمتِ وجودیہ ہے جو اعمالِ صالح سے متعلق ہے پس (رحمتِ رحیمیہ کے لیے) مرحوم صرف مومن ہیں جو اعمالِ صالح کرتے ہیں۔ (مرآۃ العارفین )

  2. بسم اللہ میں اسمِ اللہ پوشیدہ ہے اور یہ ہی بھاری امانت ہے (یعنی ذاتِ حق تعالیٰ) جس کو اٹھانے سے تمام مخلوقات نے انکار کر دیا تھا سوائے انسان کے۔

  3. سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا ‘‘ میں فرماتے ہیں :
    اس آیت میں’ امامِ مبین ‘ سے مراد انسانِ کامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر امر، حکم اور اپنی پیدا کردہ کل کائنات کو ایک لوحِ محفوظ جو کہ انسانِ کامل کا قلب ہے ، میں محفوظ کر رکھا ہے ۔ (شمس الفقرا)

  4. جوسبق قرآنِ کریم ہمیں سکھاتا ہے آپؐ نے اس کا اظہار اپنے قول، فعل اور کردار کے ذریعہ ادا کر کے دکھایا۔

  5. جان لو کہ رحیم اور رحمن دو اسم ہیں جو رحمت سے مشتق ہیں لیکن رحمن اعم (عام) اور رحیم (خاص) و اُتمّ ہے۔ رحمن کا عموم اس جہت سے ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس رحمت کے لحاظ سے ہے جو جمیع موجودات کو شامل ہے اور رحیم کا خصوص اس جہت سے کہ اس کا نام رحیم اس رحمت کے لحاظ سے جو صرف اہل سعادت کے لیے مخصوص ہے۔ (انسانِ کامل)

  6. حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں :
    اسم رحیم سے جاری رحمت ‘ رحمتِ وجودیہ ہے جو اعمالِ صالح سے متعلق ہے پس (رحمتِ رحیمیہ کے لیے) مرحوم صرف مومن ہیں جو اعمالِ صالح کرتے ہیں۔ (مرآۃ العارفین )

  7. حضرت امام حسینؓ اپنی تصنیف ’’مرآۃ العارفین ‘‘ میں فرماتے ہیں :
    ’’ جو کچھ تمام کتاب (قرآن) میں تفصیلاً بیان کیا ہے اس کو سورۃ فاتحہ میں درج اور پوشیدہ کیا اور جو فاتحہ میں (تفصیلاً) ہے وہ بِسْمِ اللّٰہ میں (پوشیدہ) ہے اور جو بِسْمِ اللّٰہ میں (تفصیلاً) ہے وہ اس کی باء میں پوشیدہ ہے اور جو کچھ باء میں ہے اسے (باء کے) نقطہ میں پوشیدہ اور مبہم کیا۔ ‘‘

  8. حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں; بسم اللہ میں اسمِ اللہ پوشیدہ ہے اور یہ ہی بھاری امانت ہے (یعنی ذاتِ حق تعالیٰ) جس کو اٹھانے سے تمام مخلوقات نے انکار کر دیا تھا سوائے انسان کے۔

  9. ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
    فاذکرونی اذکرکم (سورۃ البقرہ ۔152)
    ترجمہ: تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔

  10. بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ’بسم ‘ یعنی اسمائے الٰہیہ ، الرحمن الرحیم، یعنی صفاتِ الٰہیہ اور دونوں کے درمیان ’’اللہ‘‘ یعنی ذاتِ حق کا احاطہ کرتی ہے ، ذات ، صفات و اسما کا احاطہ کرنے کی بنا پر بسم اللہ کو ام الام کہا گیا ہے

  11. انسانِ کامل ربوبیت اور عبودیت کا جامع ہے ۔ اگر اللہ واحد ہے تو اس کا خلیفہ (انسانِ کامل ) بھی ( دنیا میں)واحد ہے ۔(فتوحاتِ مکیہ ، فصوص الحکم)

اپنا تبصرہ بھیجیں