شکر گزاری Shukar Guzaari


4.9/5 - (36 votes)

شکر گزاری   (Shukar Guzaari )

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری

بے حد و بے شمار حمد و ثنا ہے اللہ ربّ العزت کے لیے جو کائنات کا خالق و مالک اور سردار ہے اور وہ اپنے بندے کو جب عطا کرتا ہے تو جتلاتا نہیں اور عطا کرنے سے روک دے تو اس میں بھی حکمت و بھلائی ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس لیے بندے پر فرضِ عین ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ پاک نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے اسے نعمتِ الٰہی تصور کرتے ہوئے اس پر اخلاص سے شکر بجا لائے، سوائے ان چیزوں کے جو باطنی بصیرت کے اندھے پن کا باعث بنیں کیونکہ اللہ پاک کا ہر فیصلہ بندے کے لیے نعمت ہی ہے خواہ بندے کو جلد سمجھ آئے یا بدیر۔ اور چاہے ظاہری طور پر کتنا ہی تکلیف دہ ہو لیکن انجام کار نعمت ہی ثابت ہوگا۔ پس انسان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ ہی اس کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہے، جب انسان یہ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کی بھلائی اور مفاد کو بہتر جانتا ہے تو سمجھ لو کہ انسان نے شکر کا حق ادا کر دیا۔

شکر کیا ہے؟

لغت میں شکر گزاری سے مراد کسی نعمت، احسان یا بھلائی کے جواب میں دل، زبان اور عمل سے قدر دانی کا اظہار ہے۔ عربی زبان میں شکر کا مطلب تعریف کرنا، نعمت کا اعتراف کرنا اور اس کا حق ادا کرنا ہے۔ اردو اور فارسی میں بھی یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
 شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کیا جائے۔ (نہج البلاغہ)

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
شکر دل کے یقین، زبان کی حمد اور عمل کی اطاعت کا مجموعہ ہے۔ (احیاء العلوم الدین)

حضرت شاہ سیدّ محمد ذوقیؒؒؒ فرماتے ہیں:
شکرِحقیقی ایک کیفیتِ خاص ہے جو نعمت کو منعم سے منسوب کرنے اور اس نعمت کو منعم کی مرضی کے مطابق صرف کرنے سے سالک کے قلب میں لذت و سرور کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ (سرِّدلبراں)

ایک صاحبِ نظر نے شکر کا مفہوم یہ بیان کیا ہے:
شکر یہ ہے کہ نعمت عطا کرنے والے (منعم) کو دیکھ کر ہر نعمت نظر سے اوجھل ہو جائے۔ (عوارف المعارف)

ارشادِ رباّنی ہے:
پس جوحلال اور پاکیزہ رزق تمہیں اللہ نے بخشاہے،تم اس میں سے کھایا کرواور اللہ کی نعمت کا شکربجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (سورۃ النحل۔ 114)

شکر گزاری اسلام کی بنیادی اخلاقی تعلیمات کا اہم جز ہے۔یہ انسان کو نہ صرف معبودِ برحق کی بندگی سکھاتی ہے بلکہ معاشرے میں بھی اعتدال، ہمدردی اور باہمی اخوت کو پروان چڑھاتی ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب)صلہ دیں گے۔ (سورۃ آل عمران۔145)

سیدّہ حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپؐ کے قدم یا (یہ کہا کہ) پنڈلیوں پر ورم آ جاتا، جب آپؐ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے ’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 1130)

شکر گزاری اللہ کی اطاعت و بندگی کا اظہار اور انبیا و اولیا کا وصف ہے جو بندے کو اللہ کی قربت عطا کرتی ہے۔ شکر گزاری بندۂ مومن کو مایوسی، بے چینی اور بے قراری سے نکال کر راحت و فرحت، مسرت و شادمانی اور قرب ومعرفتِ الٰہی کی راہ پر چلاتی ہے جہاں منشائے الٰہی ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہتی ہے۔ حضرت خواجہ معین الدّین چشتیؒ فرماتے ہیں:
شکر گزاری انسان کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے اور اس کی روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔(دلیل العارفین۔خواجہ معین الدّین کے اقوال)

حضرت امام غزالیؒ اپنی تصنیف ’’مکاشفتہ القلوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
نبی کریمؐ نے فرمایا حمد رحمن کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو وحی فرمائی کہ میں طویل کلام کے بدلے اپنے اولیا سے شکر پر راضی ہو گیاہوں۔ شکر سب سے بہترین کلام ہے شکر پر انہیں زیادہ عطا کروں گا اور ان کی مدتِ دیدار کو اور زیادہ کروں گا۔ (مکاشفتہ القلوب)

حقیقی شکر گزاری یہی ہے کہ جب نعمت ملے تو اسے خوش دلی سے مالکِ حقیقی کی منشا و رضا کے لیے استعمال کیا جائے اور اگر نعمت نہ ملے یا چھن جائے تو مالکِ حقیقی کے لیے دل میں کسی قسم کی تنگی اور ملال کو آنے نہ دے بلکہ مزید محبت سے اطاعت میں مشغول ہو جائے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
 شکر گزار بندہ وہ ہے جو مصیبت میں بھی اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھے اور صبر کے ساتھ اس کا شکر ادا کرے۔ (کشف المحجوب)

شکر کی اقسام 

شکر گزاری بندے کا اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ میرے مرشد کریم مجددِدین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کریں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس نے آپ کو کون سی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اور وہ کیا کیا آپ سے واپس لے سکتا ہے اگر وہ آپ کو سب کچھ دے دے اور صرف سکونِ قلبی ہی واپس لے لے تو آپ کیا کریں گے؟

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں’’شکر نصف ایمان ہے۔‘‘ (کیمیائے سعادت)

شکر کی تین اقسام ہیں:
 ۱) شکر الجوارح
۲) شکر باللسان
۳) شکر بالقلب 

شکر الجوارح:

شکر الجوارح یعنی اعضا(آنکھ،ناک،کان الغرض مکمل وجود) کے ساتھ شکر اداکرنا۔ 

اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اسے علم،عقل و شعور، فہم و فراست سے نوازا اور اسے مکمل اعضا اور جوارح عطا کیے تاکہ وہ تمام عطا کردہ نعمتوں کو اس وحدہٗ لاشریک ذات کی عبادت و قرب کے حصول کے لیے استعمال کرے۔ اگر انسان غور کرے تو اپنی ایک آنکھ کی بناوٹ پر بھی اللہ پاک کے شکر کا حق ادا نہ کر پائے گا۔ تو کیا کبھی سوچا ہے کہ اگر اللہ پاک دنیا جہاں کی ہر نعمت دے دے اور سننے، دیکھنے یا چلنے کی صلاحیت ہی نہ دے تو پھر کیا ہوگا؟ انسان کے اعضا کا اس پر حق ہے جس کی اسے فکر کرنی چاہیے کیونکہ روزِقیامت اس کے اعضا اس کے حق میں گواہی دیں گے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان (کے جسموں) کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گے ان اعمال پر جو وہ کرتے تھے۔ (سورۃ حٰمٓ السجدۃ۔20)

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ اس بندے سے راضی ہو جاتا ہے جو کھانے کے بعد اللہ کی حمد بیان کرے یا پینے کے بعد اس کی حمد کرے۔( صحیح مسلم6932)
جس کے ساتھ بھلائی کی جائے اور وہ کرنے والے کو کہے ’’جزاک اللہ خیراً‘‘ تو اس نے اپنی طرف سے بہترین شکر ادا کیا۔ (سنن ترمذی 2035)

 شکر باللسان:

زبان کی شکر گزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا بہتراستعمال کیا جائے،اسے کسی کی دل آزاری کرنے، تہمت لگانے،غیبت کرنے، چغلی کھانے،جھوٹ بولنے اور ناشکری کے کلمات وغیرہ سے روکا جائے کہ بلا شبہ یہ کبیرہ گناہ ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (سورۃ ابراہیم۔7)

شکر بالقلب: 

شکربالقلب سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے قلب اور باطن میں اس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر بجا لانا۔ انسانی قلب،روح یا باطن اس کی حقیقت ہے۔امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ پاک کی ذات کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے اور کائنات سے بالاتر بھی ہے۔ لیکن انسان کا دل (قلب، باطن) ایک ایسی جگہ ہے جو زمین و آسمان کے چودہ طبقات سے وسیع تر مقام ہے۔ اس لیے اللہ پاک کی ذات مومن کے دل میں سما جاتی ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

یاد رکھیں اعضا و زبان سے شکر ادا کرنااس وقت تک فائدہ مند نہ ہوگا جب تک کہ بندۂ مومن کا قلب اللہ کی نعمتوں کا اعتراف نہ کر لے۔ کیونکہ قلب ہی ہے جو حقیقی اطاعت کرنے والا،حقیقی عبادت کرنے والااور حقیقی شکر گزاری کرنے والا ہے۔ آفتابِ فقر، نورِھوُ، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
لوگ تمہارے کارنامے دیکھتے ہیں اور ربّ تمہاری نیتیں (باطن) دیکھتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

پس شکر بالقلب یہ ہے کہ نعمتوں کے مل جانے پر انسان اللہ کی خوب حمد و ثنا کرے اور اگر نعمت چھن جائے تو حرفِ شکایت ہرگز زبان پر نہ لائے اور ناشکری سے بچے اوراسے منشائے الٰہی سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کر دے اور یہ کہ ہر نعمت کے ملنے پر صرف اللہ ہی کو موجود جانے اور مخلوق کو اس معاملے میں معدوم سمجھے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تو اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ (سورۃ النحل۔53)

شکر بالقلب راضی برضا رہنے کا نام ہے اور یہ شکر کی سب سے اعلیٰ صورت ہے۔ 

حضرت داؤدؑ نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کی ’’اے پروردگار! میں تیرا شکر کیسے ادا کر سکتا ہوں حالانکہ میرا شکر ادا کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے جس پر شکریہ واجب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے داؤد(علیہ السلام)! اب تو نے میرا شکر ادا کیا ہے۔‘‘ (تصوف کے روشن حقائق)

شکر کرنے والوں کے مراتب

صوفیا کرام کے نزدیک شکر ادا کرنے والوں کے تین مراتب ہیںجو ان کے اندازِ شکر، اخلاص اور اللہ پاک سے قلبی تعلق کی بنا پر ہیں۔  

۱) عوام کی شکرگزاری
۲) خواص کی شکرگزاری
۳) خواص الخواص کی شکرگزاری

عوام کی شکرگزاری: 

یہ شکرگزاری کا ابتدائی درجہ ہے جس میں انسان ضروریات ِزندگی کے پورا ہو جانے پر محض زبان سے ’’الحمدللہ‘‘ کے کلمات ادا کرتا ہے۔ اس شکرگزاری کا تعلق انسان کی اپنی ذات تک ہی محدود ہوتا ہے۔

خواص کی شکرگزاری: 

خواص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے شکر بجا لاتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو رضائے الٰہی کے مطابق استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اپنے تمام احوال میں اللہ کے فضل و کرم کا مشاہدہ کرتے ہوے اس کی خوب حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کے لیے ان لوگوں کو بلایا جائے گا جو تنگی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرتے ہوں۔ (المستدرک1851)

خاص الخواص کی شکرگزاری: 

یہ گروہ انبیا و مقربین کا ہے۔یہ اللہ کی ذات میں اس قدر فنا ہو چکے ہوتے ہیں کہ آزمائش اور نعمت کا خیال ہی نہیں رہتا جیسا کہ حضرت شبلیؒ فرماتے ہیں:
شکر، منعم (نعمت دینے والا/اللہ تعالیٰ) کا خیال کرنا ہے نہ کہ نعمت کا۔ (تصوف کے روشن حقائق)

’’تفسیر ابنِ کثیر‘‘ میں درج ہے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
شکر گزاری نعمتوں کی حفاظت اور ان میں اضافے کا ذریعہ ہے جبکہ ناشکری نعمتوں کے ختم ہونے کا سبب بنتی ہے۔

بندۂ مومن کا یہ وصف ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بجائے آہ و زاری کے اللہ پاک کی زیادہ حمد و ثنا اور شکر گزاری کرتا ہے اور ناشکری سے بچتا ہے۔ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
شکر کرنے والے کو دعا نہیں مانگنی پڑتی کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے وہ اس کی نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے، یعنی شکر کرنے سے بِن مانگے ہی نعمتیں بڑھ جاتی ہیں جبکہ ناشکرے شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی۔(تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

ناشکرا انسان تکبر،اَنا اور ہٹ دَھرمی اختیار کرتے ہوئے اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ ہدایت سے دور ہو کر نافرمانوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ حضرت ابنِ عطا اللہ سکندریؒ فرماتے ہیں:
جس نے نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ اس کے زوال سے دوچار ہوا اور جس نے شکر ادا کیا اس نے اس کو اسی کے ساتھ مقید کر لیا۔ (تصوف کے روشن حقائق)

ناشکری کے عوامل

قرب و معرفتِ الٰہی کے لیے یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ کن عوامل سے انسان ناشکری کا مرتکب بنتا ہے تاکہ ان سے بچا جا سکے۔
 اہلِ دنیا کی قربت اور اہلِ حق سے دوری ایمان کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ ایمان کی کمزوری ہی ناشکری کی بنیادی وجہ ہے۔
 اللہ پاک کی نعمتیں و رحمتیں ہمہ وقت انسان پر برستی رہتی ہیں مگر انسان ان کا شعور نہیں رکھتا اور لاپرواہی اور ناشکری کرتا رہتا ہے مثلاً انسانی زندگی، جسمانی تندرستی اور رزق وغیرہ۔
 کسی سے حرص و حسد کی بنا پر موجودہ نعمتوں کو فراموش کر دینا اور ہمہ وقت ناشکری کرتے رہنا۔ 

اس کی وضاحت امام الوقت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے نہایت ہی خوبصورت الفاظ میں یوں بیان فرمائی ہے ’’کسی نے ایک فقیر سے پوچھا دنیا میں سب دکھی کیوں ہیں؟ فقیر نے ہنس کر جواب دیا: خوشیاں سب کے پاس ہیں بس ایک کی خوشی دوسرے کا دَرد بن جاتی ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

 انسان فطرتاً بڑا ہی جلد باز اور بے صبرا ہے اور یہی بے صبری اسے نعمتِ الٰہی کی ناشکری کی طرف مائل کر دیتی ہے یعنی جب اسے کوئی مصیبت یا مالی نقصان پہنچے توگھبرا جاتا ہے اور کفرانِ نعمت کی روش اختیار کر لیتا ہے۔

اہلِ دنیا کی صحبت ایسا ماحول ہے جہاں منفی رویے، کفرانِ نعمت اور مایوسی عام ہوتی ہے۔ ایسی صحبت اختیار کرنے والا انسان بھی ہمیشہ ناشکری کا مرتکب رہتا ہے۔ 

جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کی حیثیت سے خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنا اور شکوہ کرنا یہ بھی ناشکری ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین تخلیق فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا۔ (سورۃ التین۔ 4)

پس شکر گزاری بندۂ مومن کا ایسا وصف ہے جو اسے ہمیشہ حضوری عطا کرتاہے۔ حضوری، مقامِ عبودیت اور ربوبیت تک لے جاتی ہے جو کہ معرفتِ الٰہی کا مقام ہے۔ تاہم بندہ از خود اس مقام کو ہرگز نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے وسیلہ، رہبر اور رہنماکی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔ (سورۃ المائدہ۔35)
پس اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ (سورۃ الانبیا۔7)
وہ رحمٰن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے۔ (سورہ الفرقان۔59)

مندرجہ بالا آیات اور متعددقرآنی آیات وسیلۂ مرشد کی طرف دلالت کرتی ہیں مگر قرآن میں ہدایت صرف ان کے لیے ہے جو سمجھنا اور ماننا چاہتے ہیںاور ان خوش نصیبوں کے لیے نورِہدایت کی راہیں واضح ہیں وگرنہ حق بے نیاز ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو شخص (راہِ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتاہے،بیشک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ (سورۃ العنکبوت۔6)

 بعد از انبیا و رُسل ،اولیااللہ فقرائے کاملین اورمرشدانِ کامل اکمل ہی بنی نوع انسان کے لیے ہدایت و رہنمائی کے سر چشمے ہیں جن سے سیراب ہو کر ہی دینِ محمدیؐ کی کنہ کو پایا جاسکتا ہے یعنی قرب و معرفت الٰہی سے ہمکنار ہونا۔ امام الوقت، صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل، رہبرِانسانیت،آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات و صفات کی خوبیوں اور اعلیٰ ترین روحانی مراتب اور شانِ فقر و ولایت کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ پس بینا کے لیے ایک شرارہ ہی کافی ہے اور نابینا کے لیے سورج کی روشنی بھی مانند اندھیرا ہی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس عشقِ الٰہی کا وہ سمندر ہیں جس کی ایک بوند بھی طالبِ صادق کے قلب پر پڑ جائے تو وہ اسم ِاعظم سے فنا فی اللہ بقاللہ کی منازل یک لمحہ طے کر لیتا ہے۔ اللہ پاک سے التجا ہے کہ وہ آقا پاکؐ اور اہلِ بیتِؓ اطہارکے وسیلہ سے ہمیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل سے ہمیشہ بہرہ ور فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۲۔مکاشفتہ القلوب: امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
۳۔احیاء العلوم: ایضاً
۴۔تصوف کے روشن حقائق: حضرت شیخ عبدالقادرعیسیٰ الشازلی رحمتہ اللہ علیہ

 

20 تبصرے “شکر گزاری Shukar Guzaari

  1. لغت میں شکر گزاری سے مراد کسی نعمت، احسان یا بھلائی کے جواب میں دل، زبان اور عمل سے قدر دانی کا اظہار ہے۔ عربی زبان میں شکر کا مطلب تعریف کرنا، نعمت کا اعتراف کرنا اور اس کا حق ادا کرنا ہے۔ اردو اور فارسی میں بھی یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔

  2. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کیا جائے۔ (نہج البلاغہ)

  3. جب انسان یہ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کی بھلائی اور مفاد کو بہتر جانتا ہے تو سمجھ لو کہ انسان نے شکر کا حق ادا کر دیا۔

  4. حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
    شکر دل کے یقین، زبان کی حمد اور عمل کی اطاعت کا مجموعہ ہے۔ (احیاء العلوم الدین)

  5. شکر گزاری بندۂ مومن کا ایسا وصف ہے جو اسے ہمیشہ حضوری عطا کرتاہے

  6. اللہ پاک سے التجا ہے کہ وہ آقا پاکؐ اور اہلِ بیتِؓ اطہارکے وسیلہ سے ہمیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل سے ہمیشہ بہرہ ور فرمائے۔ آمین🌹❤️

  7. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کیا جائے۔ (نہج البلاغہ)

  8. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عشقِ الٰہی کا وہ سمندر ہیں جس کی ایک بوند بھی طالبِ صادق کے قلب پر پڑ جائے تو وہ اسم ِاعظم سے فنا فی اللہ بقاللہ کی منازل یک لمحہ طے کر لیتا ہے۔

  9. حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    شکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کیا جائے۔ (نہج البلاغہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں