Abu Bakr Siddique

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph


Rate this post

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ (Abu Bakr Siddique)  کے دور میں اٹھنے والے فتنے

Abu Bakr Siddique-حصہ چہارم                                                                                                        تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

Abu Bakr Siddique۔حضرت ابوبکر صدیقؓ ایک طرف منکرینِ زکوٰۃ سے برسرِپیکار تھے اور دوسری طرف ارتداد کی ہوا تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہاں بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ نبوت کے جھوٹے دعویدار بھی سراٹھانے لگے۔ یہ فتنہ بہت تیزی سے سر اٹھا رہا تھا۔ جو نو مسلم ابھی اسلام کی حقانیت اور تعلیمات سے نا آشنا تھے وہ اس فتنے کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔ علاوہ ازیں ارتداد کی راہ اختیار کرنے والوں کی خاصی تعداد نے ان جھوٹے مدعیانِ نبوت کی ہمنشینی اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ جس چیز سے اس فتنے کو تقویت ملی وہ منکرینِ زکوٰۃ کا ساتھ تھا۔ یہ فتنہ بہت خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ یہ صرف حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ہی زیب دیتا تھا کہ آپؓ نے اس فتنہ کا قلع قمع کر دیا او راسلام کی ریاستی بنیاد رکھی۔

استاذ عمر ابوالنصر لکھتے ہیں:
Abu Bakr Siddique۔سیدّنا ابوبکرؓ کے دور میں پھیلنے والا فتنہ بہت خطرناک تھا۔ فتنے کی آگ کو سب سے زیادہ بھڑکانے والے نبوت کے جھوٹے دعویدار تھے۔ وہ لوگوں کو کہتے تھے کہ ان پر بھی اسی طرح وحی آتی ہے جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آتی تھی۔ یہ لوگ مسلمان تھے لیکن بعد میں خود نبوت کے دعویدار بن گئے۔

Abu Bakr Siddique۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کے درج ذیل دعویدار تھے:
طلیحہ نے بنو اسد میں نبوت کا دعوی کیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس ملعون نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خط لکھا کہ وہ (نعوذ باللہ) آپؐ کی نبوت کا شراکت دار ہے۔

اسود عنسی نے یمن میں دعویٰٔ نبوت کیا۔ اس نے یمن اور گردونواح میں فتنہ برپا کیا۔

سجاح بنتِ حارث ایک خاتون تھی اس نے بھی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اس نے بنو تمیم میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس نے مسیلمہ کذاب سے شادی کر لی۔ اس نے قبائلی تعصب پھیلا کر دشمنانِ دین ِاسلام میں خاصہ اضافہ کیا۔ مسیلمہ کذاب نے جب نکاح کیا تو حق مہر میں سجاح کی دو نمازیں معاف کر دی۔

مسیلمہ کذاب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خط لکھا کہ وہ (نعوذ باللہ) آپؐ کی نبوت میں شریک ہے۔

ذوالتاج لقیط نے عمان میں نبوت کا دعویٰ کیا۔

آنے والی سطور میں بیان کیا جائے گا کس طرح یہ فتنے اسلام کے لیے نہ صرف خطرناک تھے بلکہ اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھے اور کس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) نے اپنے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں ان فتنوں کا تدارک کیا اور اتنے کم عرصہ میں انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تحریر فرماتے ہیں:
 وصالِ نبی کے فوراً بعد ہی عرب میں چند کاذب اور جعلی نبوت کے دعویدار بھی پیدا ہو گئے تھے۔ ان میں اسود، مسیلمہ اور سجاح نے اپنے اپنے طور پر نبوت کا دعوی کر دیا تھا۔ سجاح ایک یمنی عورت تھی اس نے بھی نبوت کا باطل دعویٰ کر دیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے جعلی نبیوں کا یہ فتنہ بڑا مذموم اور مہلک تھا۔ (خلفائے راشدین)

اسودعنسی

اسود عنسی جنوبی یمن کا کاہن تھا جو نہایت چرب زبان اور عیار تھا۔ چرب زبانی اور شاطرانہ سوچ کے باعث اس نے جہلاء کا جم ِغفیر اپنے اردگرد جمع کر لیا۔ پھر اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔

 استاذ عمر ابوالنصر اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یمن میں قتل و خونریزی کا بازار گرم کر دیا۔ یہ فتنہ اس کے قتل تک برپا رہا۔ اسود عنسی کو ذوالحمار (گدھے والا) یا ذوالخمار (نشے میں بدمست رہنے والا) کہا جاتا تھا۔ اس نے طاقت حاصل کر لی اور یمن پر قبضہ کر کے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔

اسود عنسی نے دعویٰ ٔ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی کر دیا تھا۔ جب اس کی خونریزی اور قتل و غارت کی خبر ظاہری طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لشکرِ اسامہ کی تیاری فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے متعلقہ سردارانِ علاقہ کو پیغام بھیجوایا کہ اسودعنسی کے خلاف جہاد جاری رکھیں اور اسامہ کے لشکر کی واپسی پر آپ سب کی طرف فوج روانہ کی جائے گی۔ لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم علیل ہو گئے اور رحلت فرما گئے۔

یہ بات قابلِ غور ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) کی سیاسی تدبیر اورراسخ العقیدہ ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک فتنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری دور سے ہی پھیلنے لگا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا اور یہ خبر تیزی سے پھیلی جس کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے، اتحاد کمزور پڑ گیا، ریاستِ اسلام جس کی بنیاد ابھی مضبوط ہونے کو تھی وہ بھی خطرے میں پڑ گئی، بغاوت زور پکڑنے لگی، منکرین ِ زکوٰۃ ریاست ِ مدینہ کے خلاف بر سرِ پیکار ہو گئے تو ان حالات میں یہ فتنہ کتنی خطرناک شکل اختیار کر گیا ہو گا۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ فتنہ اتنا خطرناک تھا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کس قناعت اور فکر انگیزی کے ساتھ فتنے کا نام و نشان مٹایا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ پکار اٹھے کہ اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) خلیفہ نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ اگر اس فتنے کی شدت کی بات کی جائے کہ اس نہج پر فتنہ کیسے پہنچا تو ہوا کچھ یوں کہ یمن کا عامل بازان تھا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقرر کیا تھا۔ اس سلسلہ میں مشہور واقعہ درج ہے:
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسریٰ کو دعوتِ حق کا پیغام بھیجا تو اس نے غصے میں عاملِ یمن بازان کو حکم دیا کہ وہ (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سر لے کر دربار میں پہنچے۔ بازان نے دو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف روانہ کیے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’میرے اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ کو اس کے بیٹے شرویہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن بیٹھا ہے۔‘‘

 دونوں اشخاص کو پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچ فرما رہے ہیں۔ اس طرح بازان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لے  آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے حاکمِ یمن برقرار رکھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کو صنعا کا حاکم مقرر کر دیا۔ یمن کو مختلف عمال میں تقسیم فرما دیا۔ یہ عمال ا بھی مکمل طور پر انتظام سنبھال ہی نہ پائے تھے کہ اسودعنسی نے یمن پر حملہ کر کے اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس فتنے کی قتل و خونریزی کے بارے میں کتاب ’’سیرت سیدّنا ابوبکر صدیقؓ‘‘ میں لکھا ہے:
یمن، خضرِموت، بحرین، احسا اور عدن تک اسود عنسی قابض تھا۔

تمام ساحلِ عدن اور صنعا سے طائف تک تمام وادیاں اور پہاڑ اس کے قبضے میں آگئے۔

Abu Bakr Siddique۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جس طرح بغیر تلوار اٹھائے اور لشکر روانہ کئے اس فتنے کو ختم کیا وہ آپؓ کی سیاسی بصیرت کی عمدہ مثال ہے۔ اسود عنسی کا طائف تک کی وادیوں پر قبضہ ہر مسلمان کے لیے پریشان کن تھا۔ سب یہی چاہ رہے تھے کہ فوراً مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے اور اس فتنے کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ اس کے تسلط سے گھبرائے نہ مسلمانوں کی پریشانی کے دباؤ میں غلط قدم اٹھایا۔ بلاشبہ آپؓ نے وہی اقدامات اٹھائے جس  کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

آپؓ نے گہری نظر کے ساتھ ابھرتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا تھا۔ آپؓ نے حالات کو تلوار سے بدلنے کی بجائے یمن کے سرداروں اور اسود عنسی کے مشیروں کو اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسودعنسی کی ان کے بارے میں ظالمانہ سوچ سے بھی پردہ اٹھایا۔ آخر کار جنگ کئے بغیر اسود عنسی کو قتل کر دیا گیا۔ 

مزید براں آپؓ نے اس کے قتل سے پہلے ہی ایسے انتظامات کر دیئے کہ اس کے قتل کے بعدتمام علاقوں میں سکون کی فضا برقرار رہی۔

طلیحہ بن خویلد

طلیحہ نے دعویٰٔ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری دور میں کر دیا تھا۔ اس جھوٹے دعویٰ ٔ نبوت کا قصہ کچھ یوں ہے کہ طلیحہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ صحراسے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک جگہ اندازہ لگایا کہ اس جگہ پانی ہے اور وہاں پانی موجود بھی تھا گو کہ اس نے پرندوں کے اڑنے سے اندازہ لگایا تھا لیکن اس کے ہم سفر ساتھیوں کو اس امر سے آگاہی نہ تھی۔ پانی کا دعویٰ سچا ہونے پر اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ جس طرح اس کے پانی ڈھونڈنے پر لوگ بیوقوف بنے رہے بالکل اسی طرح کچھ اس کے دعویٰٔ نبوت پر یقین کر بیٹھے۔

اپنے ماننے والوں کا حلقہ بڑھانے کے لیے اس نے زکوٰۃ کو ختم کر دیا جس سے منکرین ِ زکوٰۃ بھی اس کو ماننے لگے، نماز کو منسوخ کر دیا۔ جس طرح باقی عرب میں فتنوں کو اس وقت ہوا ملی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کی خبر پھیلی بالکل اسی طرح یہ فتنہ بھی اس خبر کے بعد اپنے عروج کو پہنچا۔

سیرتِ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) میں درج ہے:
ان مدعیانِ نبوت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری دور میں نبوت کا دعویٰ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ضرار بن ازورؓ کو بنی اسد کے مسلمان عمال کے پاس یہ ہدایت دے کر بھیجا تھا کہ وہ مرتدین کے خلاف سخت کاروائی کریں۔ اس حکم کے تحت مسلمانوں نے داردات کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور طلیحہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سمیرا کے علاقے میں خیمہ زن ہوا۔ مختلف محاذوں پر اپنی فتح یابی کی خبریں سن کر مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی اور مرتدین کی کم ہوتی جا رہی تھی۔ بالآخر حضرت ضرارؓ نے طلیحہ سے جنگ کے لیے سمیرا کی جانب کوچ کا ارادہ کر لیا۔ مسلمان طلیحہ سے جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا۔ اس خبر کے سبب مسلمانوں میں اضطراب برپا ہو گیا اور ان کی تعداد گھٹنے لگی۔ بعض بدعقیدہ ہو گئے اور طلیحہ سے جاملے۔

طلیحہ کی طاقت کا اندازہ اس امر سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے بلاتامل مدینہ پر حملہ کر دیا جس کا حضرت ابوبکر صدیقؓ(Abu Bakr Siddique) نے بروقت جواب دیا اور وہ پسپا ہو کر بزاخہ میں خیمہ زن ہو گیا۔

اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی فوجی قوت میں تب خاطر خواہ اضافہ ہوا جب منکرینِ زکوٰۃ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ(Abu Bakr Siddique) نے شکست دی۔ جس کے سبب قبیلہ عبس، غطفان، ذیبان اور بنوبکر اس سے جا ملے۔منکرینِ زکوٰۃ کا طلیحہ سے اتحاد دو وجوہ کی بنا پر تھا:
1)ریاستِ مدینہ سے بدلہ لینا
2) چونکہ یہ قبائل زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تھے جبکہ طلیحہ نے جو مذہب متعارف کروایا اس میں زکوٰۃ معاف تھی یا فرض ہی نہیں تھی۔

Abu Bakr Siddique۔اس کے علاوہ اس کی طاقت میں تب بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا جب منافق عینیہ بن حفص اس سے آ ملا۔ عینیہ مسلمانوں اور دینِ اسلام کا وہ دشمن تھا جس نے غزوہ احزاب میں کفار کا ساتھ دیا۔ اس نے مدینہ پر حملہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ سے نکل کر اس کا مقابلہ کیا اور اس کو شکستِ فاش دی۔ اس کو غزوہ ذی قرد کہتے ہیں۔

دینِ اسلام سے ازلی دشمنی کے سبب یہ طلیحہ سے جا ملا، اس طرح طلیحہ مزید طاقتور ہو گیا۔ عرب کے مشرقی قبائل بھی طلیحہ سے آملے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اردگرد سے مسلمان اس کے شر سے بچنے کے لیے مدینہ میں پناہ لینے پر مجبو ر ہو گئے۔ اس نے کھلم کھلا مدینہ کی حاکمیت کا انکار کر دیا۔

اس سلسلے میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
قبائل عبس، غطفان، ذیبان اور بنوبکر اور ان کے معاونین جنہوں نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی، شکست خوردہ ہونے کے بعد طلیحہ سے جا ملے۔ علاوہ ازیں مشرقی علاقہ کے قبائل بنو غطفان مسلم اور بدوی قبائل بھی طلیحہ کے حامی ہو گئے۔ (حضرت ابوبکرؓ)

طلیحہ کے فتنے کو نیست و نابود کرنے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چنا گیا۔ چونکہ مسلمان اس وقت متعدد محاذوں پر جنگوں میں مصروف تھے اس لیے لشکر کی تعداد بہت کم تھی جب کہ طلیحہ کی تعداد مسلمانوں کے لشکر سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ جانتے تھے کہ طلیحہ کی تعداد کو کم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے جو اقدام اٹھائے وہ سیاسی تدبر کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ اس دوران آپؓ کے پاس بنو طے کے سردار عدی بن حاتم زکوٰۃ کا مال لے کر آئے۔ مدینہ والے عدی بن حاتم کو دیکھ کر غم و غصہ کی حالت میں تھے کیونکہ بنوطے کے کافی لوگ طلیحہ کے لشکر کا حصہ تھے اور باقی لوگ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ طلیحہ کی پکار پر مسلمانوں سے جنگ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کے تحت عدی بن حاتم کے ذریعے جنگی منظر نامہ ہی بدل ڈالا۔ آپؓ نے اس سلسلہ میں درج ذیل حکمتِ عملی اپنائی:
عدی بن حاتم کی آمد پر اہلِ مدینہ پریشان ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا ’’پریشان نہ ہو یہ شخص باعثِ برکت ہے۔‘‘

آپؓ نے عدی بن حاتم کو سمجھایا کہ اپنے قبیلے کو سمجھاؤ اور ڈراؤ کہ اگر وہ طلیحہ کی حمایت سے باز نہ آئے تو طلیحہ سے پہلے بنوطے کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ اگر وہ مان جائیں تو پھر وہ 500 افراد جو طلیحہ کے لشکر میں شامل ہیں انہیں یہ بتاکر واپس بلا لینا کہ مسلمان بنوطے پر حملہ کرنے والے ہیں اور واپس آنے پر سارا قبیلہ انہیں بتادے اور اسلام کی دعوت دے۔

آپؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے فرمایا کہ جب بنوطے تمہارے لشکر میں مل جائیں تو قبیلہ جدیلہ کا رخ کرنا وہاں بھی اللہ برکت ڈالے گا۔

عدی بن حاتم اپنے قبیلہ کی طرف لوٹ گئے اور اپنے قبیلہ کو سمجھایا کہ مسلمان لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں روانہ ہو چکا ہے اور اگر تم لوگ باز نہ آئے تو پہلے ادھر آئے گا۔ ہم لوگوں کے بھائی، رشتہ دار طلیحہ کے لشکر میں ہیں ان کو بھی بلا لیا جائے کیونکہ مسلمان سخت جنگجو ہیں اور وہ پہلے بھی جنگجو قبیلوں کو مدینہ سے باہر شکست دے چکے ہیں۔ عدی بن حاتم سے لمبی گفتگو کے بعد سب قبیلے والے قائل ہو گئے۔ حالانکہ مسلمان صرف مٹھی بھر تھے اور منکرینِ زکوٰۃ پانچ قبیلوں پر مشتمل تھے اور ابھی بھی روم جیسی بڑی طاقت سے برسرِ پیکار تھے۔

عدی بن حاتم کی یہ بات ان کے دل کو لگی اور انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اہلِ مدینہ کے لشکر کے آگے ابھی کوئی ٹھہر نہیں پا رہا اس لیے بہتر ہے اپنے بھائیوں اور عزیزو اقارب کو واپس بلالیا جائے۔

انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ ان کو حکمت سے بلایا جائے کیونکہ اگر سیدھی بات کی گئی تو طلیحہ ان کو قتل کر دے گا اس لیے انہوں نے کچھ افراد کو بزاخہ بھیجا جدھر طلیحہ کا لشکر تھا ۔ 

انہوں نے بنوطے کے افراد کو پیغام بھیجا کہ مسلمان بنوطے پر حملہ کرنے والے ہیں اس لیے ادھر آ جاؤ تا کہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ طلیحہ نے خوشی خوشی بنو طے کے افراد کو واپس بھیج دیا کہ اس طرح مسلمان مجھ سے جنگ کرنے سے پہلے مزید کمزور ہو جائیں گے۔ طلیحہ کا نکتہ نظر یہ تھا:
1) اگر تو بنوطے جیت گئے تو مسلمان میری طرف آ ہی نہیں سکیں گے اور میں مدینہ پر جا کر حملہ کر دوں گا۔
2) اگر مسلمان جیت گئے تو ان کا کافی نقصان ہو چکا ہو گا تو میں فوراً ان پر حملہ کر دوں گا۔

ان دونوں صورتوں میں طلیحہ کو کامیابی نظر آئی اس لیے بخوشی بنوطے کے افراد کو اپنے سے الگ کر کے واپس قبیلے میں بھیج دیا۔ جب وہ واپس پہنچے تو قبیلے کے بزرگ حضرات اور عدی بن حاتم نے انہیں قائل کر لیا کہ مسلمان کے ساتھ ملنا جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

عدی بن حاتم 500 افراد کا لشکر لے کر حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں خوش آمدید کہا اور بنوطے کو اگلا پلان بتایا کہ اب طلیحہ سے پہلے قبیلہ جدیلہ پر حملہ کرنا ہے۔ بنوطے کے افراد نے کہا کہ قبیلہ جدیلہ بھی ہمارے قبیلہ کی شاخ ہے، ہمیں کچھ دن مہلت دیں کہ ہم ان سے بات کر لیں۔ عدی بن حاتم اپنے قبیلہ کے افراد کے ہمراہ ان کے پاس گئے اور انہیں قائل کر لیا اس طرح قبیلہ جدیلہ بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اس سلسلے میں سیرت سیدّنا ابوبکر صدیقؓ میں درج ہے:
اب سیدّنا خالد بن ولیدؓ نے مقام انسر کا قصد کیا تاکہ قبیلہ جدیلہ سے جنگ کریں اور ان کے فتنے کو برباد کریں۔ جناب عدی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ جدیلہ قبیلہ بھی قبیلہ طے کا ایک پر ہے لہٰذا مجھے اجازت دیں کہ میں جا کر انہیں سمجھا بجا کر دوبارہ قبولِ اسلام پر راضی کروں۔ انہوں نے اجازت دے دی اور یوں جناب عدی قبیلہ جدیلہ کو بھی توبہ کروانے میں کامیاب ہو گئے اور قبیلہ جدیلہ کے ایک ہزار افراد بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کی مدد کے لیے ساتھ لے آئے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ نے حالات کے متعلق حضرت ابوبکرصدیقؓ  کو آگاہ کرنے کے لیے ایلچی بھیجا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ  (Abu Bakr Siddique)نے واپس پیغام بھیجا کہ اب طلیحہ کا قصد کریں اور اگر بنو طے صرف بنو قیس سے لڑنا چاہے تو کوئی مزائقہ نہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ ( Abu Bakr Siddique)کے پیغام کے پیچھے حکمت یہ تھی:
1) بنوطے اور بنو اسد خلیف ہیں ان کی آپس میں رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے ممکن تھا کہ وہ لشکر کا حصہ ہی نہ بنتے۔
2)لیکن اگر حصہ بنے بھی رہے تو وہ دل و جان سے جنگ کر ہی نہ سکتے۔

جب لشکر طلیحہ کی طرف روانہ ہونے لگا تو بنو طے نے کہا کہ ہم صرف بنو قیس سے لڑنا چاہتے ہیں کیونکہ بنو قیس ہمارا خلیف ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کی اجازت دے دی۔ اس طرح بنو طے خوش ہوئے اور پوری قوت کے ساتھ بنو قیس کے خلاف لڑے۔ گو کہ عدی بن حاتم نے اس موقع پر بنوطے کو غیرت دلائی کہ وہ ہمارا خلیف کیسے ہو سکتا ہے جو دین ِ اسلام کا مخالف ہے لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں روک دیا کہ اپنے قبیلے کی مخالفت نہ کرو کہ بنو قیس کے خلاف لڑنا بھی جہاد ہے۔

گھمسان کا رن پڑا اور طلیحہ کو شکست فاش ہوئی اور میدانِ جنگ سے فرار ہو گیا اس کے بعد اس فتنے نے سر نہیں اٹھایا۔

طلیحہ کے فرار ہونے کا واقعہ محمد حسین ہیکل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
اب بزاخہ کے مقام پر جنگ کا آغاز ہو تا ہے، مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ میں ہے اور طلیحہ کی طرف سے جنگ کا سپہ سالار عینیہ بن حصن ہے۔ طلیحہ خیمہ میں کمبل اوڑھے بیٹھا وحی کا انتظار کر رہا ہے۔ جب لڑائی کا بازار گرم ہوا اور عینیہ کو مسلمانوں کی طاقت کا پتا چلا اور خالد بن ولیدؓ کے حربی کمالات اس کے سامنے آئے تو وہ دوڑ کر طلیحہ کے پاس آیا اور پوچھا ’’کیا اللہ کی طرف سے آپ کے پاس جبریل کوئی وحی لے کر آئے؟‘‘

جواب دیا ’’ابھی نہیں۔‘‘

یہ سن کر واپس میدانِ جنگ میں چلا گیا اور مسلمانوں سے لڑنے لگا۔ لڑائی میں پہلے سے زیادہ شدت آئی اور مرتدین پر مسلمان کا دباؤ مزید بڑھنے لگا تو وہ پھر طلیحہ کے خیمہ میں آیا اور سوال کیا’’جبریل کوئی وحی لائے یا نہیں؟‘‘
طلیحہ نے اب بھی وہی جواب دیا ابھی نہیں آئے۔
عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا کہ آخر وحی کب تک آئے گی؟
طلیحہ نے کہا ’’میری عرض کی رسائی تو ملائے اعلیٰ تک ہو چکی ہے، اب دیکھنا ہے کہ وہاں سے کیا کوئی جواب ملتا ہے۔‘‘

یہ سن کر وہ پھر میدانِ جنگ میں چلا گیا اور لڑنے میں مشغول ہو گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ خالدؓ نے ہر طرف سے اس کے لشکر کو گھیرے میں لے لیا ہے، آدمی دھڑا دھر مر رہے ہیں، گھیرا لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور شکست سامنے صاف نظر آرہی ہے تو وہ گھبرایا ہوا پھر طلیحہ کے پاس آیا اور پوچھا ’’اب بھی کوئی وحی نازل ہوئی یا نہیں؟‘‘
طلیحہ نے جواب دیا ’’ہاں نازل ہوئی ہے۔‘‘

عینیہ نے پوچھا’’کیا؟‘‘
 طلیحہ نے جواب دیا’’سنو! یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ   ان لک رحا کرحاہ وحدیثا لاتنساہ   (تیرے پاس بھی ایسی ہی چکی ہے جیسی ان کے یعنی مسلمان کے پاس ہے تیری باتیں وہ ہیں جنہیں تو کبھی نہ بھولے گا۔‘‘

وحی کے یہ الفاظ سن کر عینیہ خاموش نہ رہ سکا اور پکار اٹھا ’’قد علم اللّٰہ ان سیکون حدیثا لاتنساہ(یقینا اللہ جانتا ہے کہ بہت جلد ایسے واقعات رونما ہوں گے جنہیں تو کبھی نہ بھولے گا)۔‘‘

عرب جنگ کو چکی سے تعبیر کرتے تھے۔ طلیحہ کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں بھی ایسی سخت جنگیں در پیش ہیں جیسی مسلمانوں کو، اور اس جنگ میں جو کچھ بیت رہی ہے اسے تم کبھی نہ بھولو گے۔
اس کے بعدعینیہ اپنی قوم کو طرف متوجہ ہوا اور بآوازِ بلند کہنے لگا
’’اے بنوفرازہ! طلیحہ کذاب ہے، اس کا ساتھ چھوڑ دو اور بھاگ کر جانیں بچانے کی کوشش کرو۔‘‘
عینیہ کی آواز سن کر بنو فرازہ تو بھاگ کھڑے ہوئے اور باقی لشکر طلیحہ کے گرد جمع ہو گیا اور پوچھا ’’اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟‘‘

طلیحہ نے اپنے لیے پہلے سے ایک گھوڑے کا اور اپنی بیوی نوار کے لیے ایک اونٹ کا انتظام کر رکھا تھا۔ اس نے لوگوں کو سخت پریشانی کی حالت میں دیکھا تو اچھل کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور بیوی کو بھی سوار کر لیا پھر یہ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا جو شخص میری طرح اپنے اہل و عیال کو لے کر بھاگ سکتا ہے بھاگ جائے۔‘‘ (حضرت ابوبکر صدیقؓ) 

سجاح بنتِ حارث

یہ خاتون تھی اور اس نے بھی جھوٹی نبوت کا اعلان کیا۔ اس کا تعلق بنوتمیم کی شاخ بنو یریوع کے قبیلے سے تھا۔ اس کی شادی بنو تغلب میں ہوئی۔ اس کو تقریر اور گفتگو میں ملکہ حاصل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد جب ارتداد اور بغاوت کی لہر اٹھی تو اس نے عرب کے مختلف قبائل کے دورے شروع کر دیے اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ اس نے ان قبائل کے خصوصی دورے کیے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے خلاف تھے۔ 

بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سجاح بنت ِ حارث اصل میں ایرانی سازش کا حصہ تھی کہ مسلمانوں کو کمزور کر دیا جائے اور مدینہ پر حملہ کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
بعض مورخین کہتے ہیں کہ سجاح درحقیقت عراق کے ایرانی حکمرانوں کے کہنے پر ان قبائل کے دورے کر رہی تھی تاکہ مدینہ کی اسلامی حکومت کے خلاف فساد و بغاوت کے دائرے کو وسیع کر کے ایرانی حکومت اپنے اقتدار کو مستحکم کر سکے جو روز بروز زوال پذیر ہو رہا تھا۔ عربوں نے یمن پر ان کے مقرر کردہ حاکم بازان کو مسلمان بنا کر یمن پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ اپنی حدودِ حکمرانی کو ایران کی سرحدوں تک پھیلا دیا تھا۔ (حضرت ابوبکرؓ)Abu Bakr Siddique

قطع نظر اس کے کہ یہ ایرانی سازش تھی یا نہیں اس نے اتحادِ امت کو نقصان پہنچانے کی بھر پور کوششیں کی اور نو مسلموں کو ارتداد کی راہ پر گامزن کیا۔ جب اس کے لشکر نے شان و شوکت کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) کے تیار کردہ لشکر نے اوس بن خزیمہ کی سرکردگی میں اس کو شکست سے دوچار کیا اور اس طرح اس فتنے کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا۔

 

مسیلمہ کذاب

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ میں مسیلمہ کذاب کے لشکرِملعون کے بارے میں لکھتے ہیں
’’تمام کاذب نبیوں میں سے سب سے زیادہ طاقتور مسیلمہ کذاب تھا۔‘‘ (خلفائے راشدین)

محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
مسیلمہ کی فوج کی تعداد ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار تھی اور ایک روایت کے مطابق ستر ہزار تھی اور یہ اس زمانے کے عرب میں بہت بڑی تعداد تھی۔ (حضرت ابوبکرؓ)

کتاب سیر تِ سیدّنا ابوبکر صدیقؓ میں درج ہے:
مسیلمہ کذاب باطل مد عیانِ نبوت میں سب سے زیادہ طاقتور تھا۔ اس کے ساتھ تقریباً چالیس ہزار کا لشکرِجرار تھا۔ ایسے بڑے لشکروں کا ذکر عربوں نے اس سے قبل کم ہی سنا تھا۔‘‘

مسیلمہ کذاب کی طاقت کا اندازہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو لشکر روانہ کیے اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپؓ نے اتنی زیادہ تیاری پہلے کسی لشکر کے لیے نہیں کی۔ محمد حسین ہیکل اپنی تصنیف میں اس کے متعلق رقمطراز ہیں:
مرتدین سے لڑنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گیارہ لشکر تیار کیے اور ہر لشکر کو الگ الگ مرتد قبائل کی طرف روانہ کیا تھا لیکن مسیلمہ سے مقابلے کے لیے انہوں نے ایک لشکر کو کافی نہ سمجھا۔‘‘ (حضرت ابوبکر صدیقؓ)

مسیلمہ کذاب سے جنگ کی جو تیاری حضرت ابوبکر صدیق نے کی وہ یہ ہے:
1) حضرت عکرمہؓ کے لشکر کو روانہ کیا۔
2) حضرت شرجیلؓ کے لشکر کو بھیجا۔
3) اہلِ بدر کی جنگِ یمامہ میں شرکت، حالانکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اہلِ بدر کو تمام معرکوں سے روک کر مدینہ میں رکھا کہ ان سے مختلف معاملات پر مشاورت کی جائے لیکن مسیلمہ کذاب کے خلاف ان کو بھی بھیجا۔
4)حفاظِ قرآن کی شرکت۔
5)حضرت خالد بن ولیدؓ کا لشکر
6)انصار کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا جس کی کمان ثابت بن قیسؓ اور براد بن مالکؓ کے پاس تھی۔
7)مہاجرین کا لشکر جس کی کمان ابوخذیفہ بن عتبہؓ اور زید بن خطابؓ کے پاس تھی۔
8)جنگجو قبائل کے مختلف لشکر تیار کئے گئے جن میں ہر قبیلے کا سردار ان کا کما نڈر تھا۔

ان تیاریوں سے عیاں ہوتا ہے کہ مسیلمہ کذاب خطرناک حد تک طاقتور ہو چکا تھا او راسلام کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔

اگر اس کی طاقت کی وجوہ پر غور کیاجائے تو چند ایک عناصر سامنے آتے ہیں:
اس کا جھوٹا دعویٰٔ نبوت باقی جھوٹے نبیوں سے علیحدہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت میں شریک ٹھہرایا۔ 

محمد حسین ہیکل اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
مسیلمہ اسلام قبول کرنے کے لیے اپنے قبیلے کے افراد کے ہمراہ مدینہ منورہ آیا تھا۔ اسے اس کے ساتھیوں نے اونٹوں اور مال و اسباب کی نگرانی کرنے کے لیے پیچھے چھوڑ دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے قبیلے کے افراد کو تحائف دیئے تو انہوں نے اپنے ساتھی مسیلمہ کا ذکر بھی کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تحائف کے متعلق فرمایا اس میں نگرانی کرنے والے کا بھی حصہ برابر ہے۔ اس بات کو مسیلمہ کذاب نے اپنی مرضی کے معانی پہنا کر تاویل کر لی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس ارشاد کامطلب یہ ہے کہ (نعوذ باللہ) مسیلمہ بھی نبوت میں شریک ہے۔ (حضرت ابوبکرؓ)

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہاتھ میں کھجور کی پرانی ٹہنی پکڑی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر مسیلمہ میرے ہاتھ میں موجود کھجور کی پرانی شاخ بھی مانگے تو میں نہ دوں گا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کی خبر سے مسیلمہ کو تقویت ملی کہ اس نے مشہور کر دیا کہ سچا نبی فوت نہیں ہو سکتا۔ اس کے پیروکاروں کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے مسیلمہ 150 سال کا ہو کر بھی زندہ ہے۔

نہرالرجال نامی ایک آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسیلمہ کذاب کے علاقے میں بھیجا اور تبلیغ کا حکم دیا کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دو تا کہ مسیلمہ کے فتنے سے لوگ بچ سکیں۔ وہ منافق وہاں جا کر دنیاوی نعمتوں کے بدلے مسیلمہ کے ساتھ مل گیا اور لوگوں سے کہا کہ مدینے سے مجھے بھیجا گیا ہے کہ لوگوں کو بتاؤں کہ مسیلمہ سچا ہے۔

باقی جتنے بھی جھوٹے نبی تھے ان کے پیروکاروں میں خاصی تعداد ان قبائل کی تھی جو دوسرے قبائل کے تعصب کے سبب ان جھوٹے نبیوں سے جا ملے تھے اس طرح ان میں اتفاق کم تھا۔ جبکہ مسیلمہ کے پیروکار اتحاد و اتفاق سے اکٹھے تھے، ان میں قبائلی تعصب نہ تھا۔

مسیلمہ کے طاقتور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے پیرو کار نظریاتی تھے۔

باقی جھوٹے مدعیانِ نبوت نے اپنے ساتھ منکرینِ زکوٰۃ کو ملایا تھا۔ منکرینِ زکوٰۃ تو نظریاتی لوگ نہ تھے بلکہ مال و دولت کی محبت نے انہیں اس عمل پر ابھارا تھا۔ جبکہ مسیلمہ کے پیروکار یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں تاکہ نبوت کا آدھا حصہ حاصل کر سکیں۔

اس وقت عرب میں عیسائی، یہودی، نصرانی اور مشرک بھی تھے۔ اس مذہبی انتشار نے بھی اس کی طاقت کو تقویت دی۔ شراب اور زنا حلال کرنے سے تمام نفس پرست اس کے پیروکار بن گئے۔

مسیلمہ کذاب کے لشکر کے حوصلے تب بھی بہت بلند ہوئے جب حضرت عکرمہؓ کے لشکر کو مسیلمہ نے شکست دی۔ اس طرح حضرت شرجیلؓ کے لشکر کو بھی پیچھے دھکیل دیا جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ مسلمانوں کی اس شکست کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ جو ابھی تک مسیلمہ سے نہیں ملے تھے وہ بھی مل گئے کہ مسیلمہ نے مسلمانوں کو دوبار شکست دے دی ہے اور اب وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔

مسیلمہ کے قبیلے کے کافی لوگ یہ جانتے تھے کہ مسیلمہ جھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود مسیلمہ کا ساتھ دیا۔ اس سلسلے میں سیرتِ سیدّنا صدیق اکبرؓ میں واقعہ درج ہے :
’’کئی لوگ تو اس کو کذاب مانتے ہوئے بھی اس کی اطاعت کرتے تھے کیونکہ وہ ان کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ طلیحہ نمری یمامہ آیا اور لوگوں سے پوچھا’’مسیلمہ کہاں ہے؟‘‘

لوگوں نے پوچھا ’’تم اس کا نام بے ادبی سے کیوں لیتے ہو جبکہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘
طلیحہ نے کہا ’’میں جب تک اس سے مل نہ لوں تب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
چنانچہ اسے مسیلمہ کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کہا ’’اے مسیلمہ تمہارے پاس وحی کون لاتا ہے؟‘‘
مسیلمہ نے جواب دیا:’’ رحمان۔‘‘
اس نے پوچھا ’’روشنی میں یا اندھیرے میں؟‘‘
مسیلمہ نے کہا ’’اندھیرے میں۔‘‘
طلیحہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم کذاب ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنا کذب دوسروں کے سچے پیغمبر سے زیادہ محبوب ہے۔
چنانچہ اس نے مسیلمہ کی اطاعت کر لی اور اس کے ہمراہ لڑتا ہوا مارا گیا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique)  کی تیاری اور مسیلمہ کی طاقت کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسیلمہ کذاب کس قدر بڑا فتنہ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ (Abu Bakr Siddique) نے جو لشکر ترتیب دیئے ان کو مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ فرمایا۔ مسیلمہ کذاب کو شکست فاش ہوئی اور مسیلمہ کذاب کا فتنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

ذوالتاج لقیط

ذوالتاج لقیط کا تعلق قبیلہ ازد سے تھا جو کہ عمان میں سکونت پذیر تھا۔ اس نے عمان میں وصالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا اور وہاں کے مسلمان حکمران کو عمان سے نکال دیا۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں یہاں ایران کا تسلط تھا اور یہاں کے حکمران کا نام جیفر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو دعوتِ اسلام بھجوائی۔ کچھ سوالات کے جوا بات جاننے کے بعد اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال مبارک کی خبر پھیلی تو لقیط نے دعویٰ ٔنبوت کیا۔ جس نے بھی اس کا انکار کیا اسے عمان سے نکال دیا گیا۔ جیفر کو بھی نکلنا پڑا اور وہ قریبی پہاڑی سلسلے میں جا کر روپوش ہو گیا۔ مسیلمہ کذاب کے فتنے کو جڑ سے اکھاڑنے کے بعد جھوٹے نبی کے فتنے کو ختم کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت حذیفہؓ بن محصن حلقانی اور عرفجہ بن ہر ثمہ البارقیؓ کو عمان روانہ کیا۔ وہاں ان سے پہلے عکرمہؓ پہنچ چکے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت حذیفہ اور عرفجہ کو روانہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ کچھ کرنے سے پہلے عکرمہؓ سے مشورہ کرنا۔ جب حضرت عکرمہؓ سے مشورہ کیا گیا تو آپؓ نے کہا کہ حملے سے پہلے جیفر اور اس کے ساتھیوں کو واپس بلایا جائے اور اپنے لشکر میں شامل کر لیا جائے۔

لقیط نے دبا کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ یہاں گھمسان کا رن پڑا۔ شروع جنگ میں مسلمانوں کی شکست واضح نظر آنے لگی لیکن پھر اللہ کی مدد آن پہنچی اور بنو عبد القیس اور بحرین کے بعض قبیلے مسلمانوں کی مدد کے لیے آن پہنچے۔ شکست فتح میں بدل گئی۔ لقیط بھی مارا گیا اور اس کے پیروکاروں میں سے دس ہزار لوگ مارے گئے۔ باقی سب فرار ہو گئے۔ کافی ساروں نے دوبارہ کلمہ پڑھ کر دل سے اسلام قبول کر لیا۔ 

(جاری ہے)

Abu Bakr Siddique

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اٹھنے والے فتنے‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں

 
 

42 تبصرے “حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph

  1. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
    حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔❤

  2. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان کے لئے کافی ہے کہ میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ہیں

  3. اس مضمون میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کے فتنوں کی ہر تفصیل بہترین انداز میں بیان کی گئی ہے

  4. آقا پاک نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں

  5. تحریر میں بہت پختگی ہے اور بہتطریسرچ کے ساتھ مواد اکٹھا کیا گیا ہے

  6. سیّدنا ابوبکرؓ کے دور میں پھیلنے والا فتنہ بہت خطرناک تھا۔ فتنے کی آگ کو سب سے زیادہ بھڑکانے والے نبوت کے جھوٹے دعویدار تھے۔

  7. الصلاۃ واسلام علیک یا رسول
    الصلاۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ

    تاجدار ختم نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ باد

  8. حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت نے اسلام کو تقویت عطا کی۔ آپؓ بے مثال سیاسی بصارت کے بھی مالک تھے

  9. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل البشر بعد از انبیا ہیں

  10. سیّدنا ابوبکرؓ کے دور میں پھیلنے والا فتنہ بہت خطرناک تھا۔ فتنے کی آگ کو سب سے زیادہ بھڑکانے والے نبوت کے جھوٹے دعویدار تھے۔

  11. بہت خوب تحریر ہے۔ انتہائی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ بہترین تحقیق ہے۔ شکریہ

  12. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال حکمت سے فتنوں کا خاتمہ فرمایا

اپنا تبصرہ بھیجیں