حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.9/5 - (161 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات

 Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط نمبر 5                                                                              تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

  حضرت علیؓ کو خلافت پر مجبور کیا گیا

۱۔ جب حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا تو مختلف طبقات کے لوگ حضرت علیؓ کے پاس آتے رہے کہ آپ بامِ خلافت سنبھال لیں لیکن آپؓ مسلسل انکار فرماتے رہے۔ حضرت علیؓ کے پاس صحابہؓ سے پہلے باغی آئے تھے کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے آپؓ کو ڈرایا دھمکایا لیکن آپؓ نے خلافت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ طبری لکھتے ہیں:
جب حضرت عثمانؓ شہید کر دیئے گئے تو قاتلین جمع ہو کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے۔ اس وقت حضرت علیؓ مدینہ کے بازار میں تھے۔ ان لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہا ’’اپنا ہاتھ پھیلائیے، ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔‘‘ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’جلدی نہ کرو کیونکہ حضرت عمرؓ بہت سمجھ دار تھے اور مسلمانوں کے لئے نہایت بابرکت انسان تھے۔ انہوں نے مجلسِ شوریٰ کی وصیت فرما دی تھی۔ تم لوگوں کو کچھ تو مہلت دو کہ وہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کر سکیں۔‘‘ اس طرح یہ لوگ حضرت علیؓ کے پاس سے چلے گئے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 18)

اس طرح باغی بار بار آتے رہے لیکن آپؓ نے کبھی انکار کر دیا تو کبھی حکمت سے ٹال دیا۔

اس سلسلے میں ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے امارت (خلافت) قبول کرنے سے انکار کیا تھا حتیٰ کہ جب لوگوں نے زیادہ اصرار کیا تو آپؓ بنو عمرو بن مبذول کے باغ کی طرف چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 266)

ابنِ کثیر نے مزید لکھا ہے:
اہلِ مصر نے حضرت علیؓ سے بیعت کے بارے میں اصرار کیا لیکن حضرت علیؓ ان سے بچنے کے لیے ایک باغ میں چلے گئے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 227)

۲۔ پھر باغی جید صحابہؓ کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ حضرت علیؓ کو خلافت پر مائل کریں اور ساتھ دھمکی بھی دی کہ اگر دو روز میں کام مکمل نہ کیا تو فلاں فلاں صحابی کو (معاذاللہ) شہید کر دیں گے۔ اس سلسلے میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
جب صحابہؓ میں سے کسی نے بھی منصبِ خلافت قبول نہ کیا تو مفسدین پریشان ہو گئے۔ ان میں سے بے شعور اور شرپسند تویہ چاہتے تھے کہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے جائیں اور مدینہ کو اسی حال میں چھوڑ دیں لیکن جو ذرا عقل و شعور رکھتے تھے وہ دارلخلافت کو فتنہ و فساد کی نذرکر کے واپس نہ جانا چاہتے تھے۔ ان میں اکثریت مصر کے بلوائیوں کی تھی۔ آخرکار انہوں نے اہلِ مدینہ کو جمع کیا اور کہا تم لوگ اہلِ شوریٰ ہو۔ تمہارا حکم تمام امتِ محمدیہ پر نافذ ہوتا ہے۔ اپنے میں سے کسی کو امام مقرر کر لو، ہم اس کی بیعت کر کے واپس چلے جائیں گے اور اگر دو دن میں یہ کام نہ ہوا تو ہم فلاں فلاں اشخاص کو قتل کر کے واپس چلے جائیں گے۔ (خلفائے راشدین، ص 185)

 ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
جب باغیوں کو اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا تو انہوں نے انصار و مہاجرین کی معاونت حاصل کرنے کا سوچا کہ وہ ان تینوں (حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ)میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔  

اس فیصلے کے بعد باغیوں نے صحابہ کرامؓ کے گھروں میں آنا جانا شروع کر دیا اور ان سے استدعا کی کہ وہ اُمتِ مسلمہ کے لئے کسی امیر و امام کو نامزد کریں۔ (سیدّنا حضرت علی المرتضیٰ، ص 143)

صحابہ کرامؓ کے زور دینے پربھی آپؓ نے خلافت کی عنان سنبھالنے سے انکار فرمایا۔ طبری لکھتے ہیں:
صحابہ کرامؓ حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت عثمانؓ شہید کر دیے گئے ہیں اور لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امام کی موجودگی ضروری ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور آج ہم روئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی کو اس کاحقدار نہیں پاتے۔ نہ توآج ایسا کوئی شخص موجود ہے جو اسلام میں آپ پر سبقت رکھتا ہو اور نہ کوئی ایسا فرد موجود ہے جسے آپ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب اور آپ سے زیادہ رشتہ داری حاصل ہو۔ اس لیے یہ بار آپ اپنے کندھوں پر اٹھائیے اور لوگوں کو اس بے چینی اور پریشانی سے نجات دیجیے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 17) 

مولانا مودودی لکھتے ہیں:
چنانچہ تمام معتبر روایتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحابؓ اور دوسرے اہلِ مدینہ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ یہ نظام کسی امیر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ لوگوں کے لئے ایک امام کا وجود ناگزیر ہے اور آج آپ کے سوا ہم کوئی ایسا شخص نہیں پاتے جو اس منصب کے لیے آپ سے زیادہ مستحق ہو، نہ سابق خدمات کے اعتبار سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب کے اعتبار سے۔ انہوں نے انکار کیا اور لوگ اصرار کرتے رہے۔ (خلافت و ملوکیت، ص 121,122)

طبری لکھتے ہیں:
صحابہ کرامؓ نے جمع ہو کر حضرت علیؓ سے بیعت کی درخواست کی لیکن انہوں نے انکار فرمایا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم،حصہ دوم، ص 17) 

۳۔ خلافت کی ذمہ داری آپ کو نہ ملے اس لیے آپ صحابہ سے ملاقات سے بچتے رہے کہ وہ کسی اور کو منتخب کر لیں۔ طبری لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار حضرت علیؓ کی خدمت میں بار بار حاضر ہوتے رہتے اور انہیں خلافت قبول کرنے پر مجبور کرتے رہتے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 18)

۴۔ حضرت طلحہؓ نے آپ کو مجبور کرنا چاہا تو آپؓ نے فرمایا ’’اے طلحہؓ آپ ہاتھ بڑھائیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘ لیکن انہوں نے فرمایا کہ آپ ہی امیر المومنین ہیں۔ طبری لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ حضرت طلحہؓ کے پاس گئے اور فرمایا ’’اے طلحہؓ! اپنا ہاتھ پھیلائیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت طلحہ نے فرمایا
’’اس کے آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں اور آپ ہی امیر المومنین ہیں۔ آپ اپنا ہاتھ پھیلائیے۔ ‘‘(تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 25)

۵۔ جب صحابہؓ نے مجبور کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھے امارت سے زیادہ وزارت پسند ہے۔ اس لیے امیر کسی اور کو مقرر کر لو اور میں اس کا وزیر بن جاؤں گا۔ ابنِ اثیر لکھتے ہیں کہ جب زیادہ مجبور کیا گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’میں امیر ہونے سے زیادہ وزیر ہونا پسند کرتا ہوں۔ تم لوگ جسے منتخب کرو گے میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔‘‘ (ابنِ اثیر) 

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ بن عفان کی شہادت کے بعد حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ حضرت علیؓ ابنِ ابی طالب کے پاس بیعت کرنے کو گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’امیر ہونے سے میں وزیر ہونے کو بہتر سمجھتا ہوں۔ تم جس کو منتخب کرو گے میں بھی اس کو منتخب کروں گا۔‘‘

ان سب نے منت و سماجت سے کہا:
’’ہم آپ سے زیادہ کسی کو امارت کا مستحق نہیں پاتے اور نہ آپ کے سوا اور کسی کو منتخب کر سکتے ہیں۔‘‘ (ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اول، ص 376)

طبری نے بھی یہی لکھا ہے:
حضرت علیؓ نے فرمایا ’’بہتر یہ ہے کہ تم کسی اور کو اپنا امیر بنا لو اور مجھے اس کا وزیر رہنے دو اور بہتر یہی ہے کہ کوئی دوسرا امیر ہو اور میں اس کا وزیر ہوں۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، ص 17) 

۶۔ جب پھر بھی آپؓ کو مجبور کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ پھر مسجد میں عام بیعت ہو گی۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے انکار کیا اور لوگ اصرار کرتے رہے۔ آخرکار انہوں نے کہا ’’میری بیعت گھر بیٹھے خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی، عام مسلمانوں کی رضا کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔‘‘ (خلافت و ملوکیت، ص 122)

مسجد پہنچ کر بھی آپ کی کوشش تھی کہ اگر ابھی بھی کوئی اور خلافت قبول کر لے تو آپ یہ بارِ امانت نہ اٹھائیں۔ اس لئے آپ نے مسجد میں آتے ہی فرمایا ’’کل مجھے مجبور کیا گیا کہ خلافت سنبھال لو اور میں نے انکار کیا تھا۔ کیا آج بھی آپ لوگوں کی وہی رائے ہے یا تبدیل کر چکے ہو؟‘‘ تو سب نے یکجان ہو کر کہا کہ ’’آپؓ ہی ہمارے امیر المومنین ہیں۔ ‘‘

طبری لکھتے ہیں:
جب صحابہ کرامؓ نے حد سے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے بارِ خلافت اٹھانا قبول فرمایا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم،حصہ دوم، ص 17) 

مہاجرین و انصار نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
’’ہم آپ کے علاوہ کسی کو خلیفہ بنانے کے لئے تیار نہیں۔‘‘(تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 18) 

اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ تمام انصار و مہاجرین کے بھرپور اصرار پر خلافت کے لئے راضی ہوئے۔ 

ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
صحابہؓ نے بہ اصرار حضرت علیؓ کو اُمتِ مسلمہ کی امامت کے لئے مائل کیا اور آپ کی بیعت کی۔ ان کا خیال تھا کہ فتنہ سے آپ ہی بچا سکتے ہیں۔ (سیدّنا حضرت علی المرتضیٰ، ص 143)

اس طرح بالآخر آپؓ خلافت پر رضامند ہو گئے۔خلافت سنبھالنے کے پیچھے بھی کیا مصلحت پوشیدہ تھی اس کے متعلق ڈاکٹر طہٰ حسین لکھتے ہیں:
انصار و مہاجرین نے متفقہ طور پر حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ وہ خلافت کا منصب سنبھال لیں۔ حضرت علیؓ اس پیشکش کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے مگر انہیں امتِ مسلمہ کا سفینہ منجدھار میں نظر آ رہا تھا۔ (سیدّنا حضرت علی المرتضیٰ، ص 144)

علامہ ابوبکر احمد علی رقمطراز ہیں:
حضرت علیؓ نے جو اس (خلافت) کے سب سے زیادہ حقدار اور اہلِ تھے، اسے قبول کر لیا تا کہ امت کو خونریزی اور آپس کی پھوٹ سے بچایا جا سکے جس سے دین و ملت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ جانے کا خطرہ تھا۔ (احکام القرآن بحوالہ خلافت و ملوکیت، ص 126) 

ملوکیت کے حامی سازشیوں نے پروپیگنڈا کیا کہ چند جید صحابہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت نہ کی۔ اس طرح حضرت علیؓ کی خلافت کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کیونکہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کی شہادت سے خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی سازش کی وہ تبھی تاریخ میں چھپ سکتے تھے اگر وہ حضرت علیؓ کی خلافت کو متنازع بنا دیتے۔ 

دراصل مؤرخوں نے ہر طرح کی روایات کو بیان کیا جو ان تک پہنچیں۔ لیکن منطق بھی کوئی چیز ہے، پڑھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ روایات کو عقلی معیار پر بھی تولیں۔ یہاں یہی سوال جنم لیتا ہے:
تمام جید صحابہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اور مال و اولاد غرض ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے قربان کر دی، وہ صحابہ کرامؓ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو پورا کرتے تھے، کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت علیؓ کے فضائل تمام سے بڑھ کر بیان کریں اور صحابہؓ جانتے ہوئے ان کی بیعت سے انکار کر دیں؟

نہیں بالکل نہیں۔ یہ حضرت علیؓ پر ایک تہمت لگانے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ سازشیوں کو کوئی برا نہ کہے اور لوگ اسی سوچ میں متفکر رہیں کہ حضرت علیؓ کی بیعت صحابہؓ نے کیوں نہ کی۔ 

اس ضمن میں لوگ چند ایک اعتراضات یہ کرتے ہیں:
۱۔ حضرت علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کے کہنے پر خلافت سنبھالی۔
۲۔ صحابہ کرامؓ حضرت علیؓ کی بیعت پر متفق نہ تھے۔ 
۳۔ حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت مجبوری میں کی یا کی ہی نہیں۔
۴۔ انصار میں سے کئی جید صحابہ ؓنے بیعت نہ کی۔
۵۔ مہاجرین میں سے بھی کئی جید صحابہ نے بیعت نہ کی۔

اس سلسلے میں چند مستند روایات بیان کی جا رہی ہیں:

قاتلینِ عثمانؓ اور خلافتِ حضرت علیؓ:

حضرت علیؓ پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؓ نے قاتلین عثمانؓ کے کہنے پر خلافت سنبھالی جبکہ صحابہ کرامؓ آپ کی بیعت پر متفق نہ تھے (معاذاللہ)۔ یہ سراسر غلط بات ہے۔ جو روایات پہلے بیان کی گئی ہیں ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے کن حالات میں خلافت قبول فرمائی۔ اس لئے یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔

پیام شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت علیؓ کی بیعت پر مدینہ کے صحابہؓ اور انصار و مہاجرین کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ انہیں صرف مفسدوں نے خلیفہ بنایا تھا ان مفسدوں نے جو شہادتِ عثمانؓ میں شریک تھے۔ لیکن مستند تاریخیں اور معتبر روایات اس خیال کی مخالفت کرتی ہیں۔ (علیؓ اور ان کی خلافت، ص 92)

  حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی بیعت:

جہاں تک حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ کی بیعت کا تعلق ہے، ابنِ خلدون مسجد میں جب حضرت علیؓ کی بیعت کی گئی اس کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ کے بعد حاضرینِ مجلس نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کی بیعت کی۔ (ابن خلدون، حصہ اول، ص 376)
اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ نے تو حضرت علیؓ کی سب سے پہلے بیعت کی تھی۔ 

اس ضمن میں طبری لکھتے ہیں:
ابوبشیر العابدی کا بیان ہے کہ جب حضرت عثمانؓ شہید کیے گئے تو میں مدینہ میں موجود تھا۔ مہاجرین و انصار جمع ہو کر جن میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے حضرت علیؓ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا:
’’اے ابوالحسن! اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔ ‘‘

حضرت علیؓ نے جواب دیا ’’مجھے خلافت کی کوئی حاجت نہیں۔ تم جسے بھی خلیفہ بنانا چاہو میں اس سے خوش ہوں اور اس معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘

مہاجرین و انصار نے جواب دیا ’’ہم آپ کے علاوہ کسی کو خلیفہ بنانے کے لئے تیار نہیں۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، ص 18)

ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ بھی حضرت علیؓ کی بیعت کے پرزور حامی تھے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں تاریخ طبری جلد سوم کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت علیؓ نے حضرت طلحہؓ سے فرمایا کہ آپ ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں، تو حضرت طلحہؓ نے فرمایا ’’آپ مجھ سے زیادہ اس کے حقدار ہیں اور آپ ہی امیر المومنین ہیں آپ اپنا ہاتھ پھیلائیے۔‘‘ 

حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی بیعت کے متعلق ابنِ سعد لکھتے ہیں:
مدینہ میں حضرت علیؓ کی بیعت کر لی گئی تو ان میں حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، سعد ؓبن ابی وقاص، سعیدؓ بن زید بن عمرو بن نفیل، عمارؓ بن یاسر، اسامہؓ بن زید، سہل ؓبن خنیف، ابوایوبؓ انصاری، محمدؓ بن مسلمہ، زید ؓبن ثابت، خزیمہؓ بن ثابت اور تمام اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو مدینہ میں تھے بیعت کر لی۔ (طبقات ابن سعد، جلد دوم، حصہ سوم، ص 175)

یعقوبی لکھتے ہیں:
سب سے پہلے آپؓ کی بیعت کرنے والے اور آپؓ کے ہاتھ پر ہاتھ مارنے والے (یعنی ہاتھ پر ہاتھ رکھنے والے) حضرت طلحہؓ تھے۔ (تاریخ یعقوبی، جلد دوم، ص 288) 

 تمام انصار نے حضرت علیؓ کی بیعت کی:

طبری لکھتے ہیں:
انصار میں سے کسی نے حضرت علیؓ کی بیعت سے انکار نہیں کیا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 22)

 مہاجرین اور بیعت علیؓ:

حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اہلِ علم کی اکثریت کا بیان ہے کہ مدینہ کے تمام انصار و مہاجرین نے حضرت علیؓ کی بیعت کر لی تھی۔ (ازالتہ الخفابحوالہ علی اور ان کی خلافت، ص 93) 

یعقوبی لکھتے ہیں:
حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور انصار و مہاجرین نے آپؓ کی بیعت کی۔ (تاریخ یعقوبی، جلد دوم، ص 288) 
پس ثابت ہوا کہ جس ذہنیت کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اس میں سچائی کا عنصر غائب ہے۔

استفادہ کتب:
۱۔خلافت و ملوکیت، مصنف: سید ابوالاعلی مودودی، اشاعت چھبیسویں، ادارہ ترجمان القرآن (پرائیویٹ لمیٹڈ، اردو بازار لاہور)
۲۔ طبقات ابن سعد، جلد دوم
۳۔ تاریخ یعقوبی، جلد دوم
۴۔ ازالتہ الخفابحوالہ علی اور ان کی خلافت
۵۔ سیدّنا حضرت علی المرتضیٰ
۶۔ ابنِ خلدون، جلد دوم

 


18 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. حضرت علیؓ حضرت طلحہؓ کے پاس گئے اور فرمایا ’’اے طلحہؓ! اپنا ہاتھ پھیلائیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت طلحہ نے فرمایا
    ’’اس کے آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں اور آپ ہی امیر المومنین ہیں۔ آپ اپنا ہاتھ پھیلائیے۔ ‘‘(تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 25)

  2. حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
    اہلِ علم کی اکثریت کا بیان ہے کہ مدینہ کے تمام انصار و مہاجرین نے حضرت علیؓ کی بیعت کر لی تھی۔ (ازالتہ الخفابحوالہ علی اور ان کی خلافت، ص 93)

  3. پس ثابت ہوا کہ جس ذہنیت کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اس میں سچائی کا عنصر غائب ہے۔

  4. بےشک جس ذہنیت کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اس میں سچائی کا عنصر غائب ہے۔

  5. Behtreen article hai ye … تاریخ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے

  6. ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
    حضرت عثمانؓ بن عفان کی شہادت کے بعد حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ حضرت علیؓ ابنِ ابی طالب کے پاس بیعت کرنے کو گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’امیر ہونے سے میں وزیر ہونے کو بہتر سمجھتا ہوں۔ تم جس کو منتخب کرو گے میں بھی اس کو منتخب کروں گا۔‘‘

    ان سب نے منت و سماجت سے کہا:
    ’’ہم آپ سے زیادہ کسی کو امارت کا مستحق نہیں پاتے اور نہ آپ کے سوا اور کسی کو منتخب کر سکتے ہیں۔‘‘ (ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اول، ص 376)

اپنا تبصرہ بھیجیں