Ghazwa

غزوہ تبوک–Ghazwa e Tabook

Spread the love

5/5 - (1 vote)

غزوہ تبوک

تحریر: حافظ وقار احمد سروری قادری۔ لاہور

غزوہ تبوک تاریخِ اسلام میں کئی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ غزوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا آخری غزوہ تھا اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بحیثیت سپہ سالار شرکت فرمائی۔ یہ ایک انوکھا جنگی معرکہ تھا جو بغیر کسی جنگ کے ہی اختتام پذیر ہو گیا۔ مسلمانوں کا مقابلہ اُس وقت کی سُپر پاور (Super Power) روم سے تھا جو تقریباً آدھی دنیا پر حکومت کر رہی تھی۔ قیصرِ روم جنگ کی تیاری ہی کرتا رہ گیا اور مسلمانوں کی فوج ان کے سر پر جا پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن پر اس فوج کا ایسا رعب و دبدبہ بٹھایا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلے۔ بیس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورآپ کی فوج دشمن کا تبوک کے مقام پر انتظار کرتے رہے اوربالآخر بیس دن بعد بغیر کسی لڑائی کے فاتح بن کر مدینہ لوٹے ۔اگرچہ اس معرکے میں کوئی جنگ وقوع پذیر نہیں ہوئی مگر ابتدا سے لیکر اختتام تک ، جنگ کی تیاری ہو یا سفر، امتحان در امتحان تھا۔

تاریخی پسِ منظر

مسلمان سرزمینِ عرب میں آہستہ آہستہ مستحکم ہورہے تھے اور روم کا فرمانروا اسے اپنی ملکی سا لمیت کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہاتھالہٰذا قیصرِ روم نے مدینہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ عرب کا ایک عیسائی خاندان ’غسان‘ قیصرِ روم کے زیرِ اثرملک شام پر حکومت کرتا تھا۔ قیصرِ روم نے غسان کو استعمال کرتے ہوئے شام میں بہت بڑی فوج تیار کر لی۔ملک شام سے جو تاجر تجارت کی غرض سے مدینہ آتے تھے انہوں نے مسلمانوں کو قیصرِ روم کے ناپاک ارادوں سے مطلع کر دیا تھاکہ قیصرِ روم شام میں بہت بڑی فوج تیار کر رہا ہے جس میں نہ صرف رومی بلکہ کچھ عرب قبائل بھی شامل ہیں۔رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسلمانوں کی فوج تیارکرنے کا ارادہ کیا۔ اس سے قبل کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرے مسلمان ان پر چڑھائی کردیں گے۔

حالات و واقعات

تبوک مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے شمال کی جانب تقریباً چھ سو میل یعنی تقریباً ساڑھے نو سو کلومیٹر دور ہے۔ یہ معرکہ سن ۹ ہجری بمطابق 630 ء رجب کے مہینے میں پیش آیا۔ شدید گرمی کا موسم تھا،مدینہ کے طول و عرض میں کھجوروں کے باغات پھلوں سے لدے ہوئے تھے اورفصل پکنے کے قریب تھی۔ گزشتہ برس کے تمام ذخائر ختم ہو چکے تھے اور ایک قحط کا عالم تھا۔ ہر شخص کی نظر کھجور کے باغات پر تھی کیونکہ تمام تر معاشیات کا دارومدار اسی پر تھا۔ پورے سال کی خوراک، گزر بسر اور آمدن کا تعین کھجور کی فصل پر منحصر ہوتا تھا۔ ان حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلانِ عام کر دیا کہ رومیوں سے مقابلہ کے لیے فوج تیار کرنی ہے۔ معذور اور بیمار افراد کو چھوڑ کر ہر شخص جنگ کے لیے نکلے اور جنگ کی تیاری کے لیے اللہ کی راہ میں اپنا مال و زر پیش کرے ۔

صحابہ کرامؓ کا اللہ کی راہ میں عطیات دینا

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دل کھول کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ اگرچہ پہلے ہی قحط سالی کا عالم تھا لیکن اس کے باوجود صحابہ کرامؓ نے بڑھ چڑھ کر اللہ کے رسول کے حکم پر جو بن پڑا وہ قربان کرنے سے دریغ نہ کیا ۔نہ صرف مرد بلکہ خواتین نے بھی اس موقع پر خوب فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اپنی جمع پونجی اور زیورات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیئے۔
حضرت زید بن اسلمؓ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’میں نے عمر بن خطابؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا ۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا‘ اگرمیں ابوبکرصدیقؓ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ میں نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑآئے ہو؟ میں نے عرض کیا: اِتنا ہی مال ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔اتنے میں حضرت ابو بکر صدیقؓ جو کچھ بھی ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لیکر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے استفسار فرمایا: اے ابوبکرؓ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی: میں ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا’’میں ان سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔‘‘ (ترمذی۔ ابوداؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جن شخصوں کا میرے اوپر صحبت اور مال میں سب سے زیادہ احسان ہے ان میں ابوبکرؓ ہیں اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل(ولی دوست)بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ (خلفائے راشدین)
مندرجہ ذیل حدیث تیرہ صحابیوں نے روایت کی ہے اور امام سیوطی نے اس کو متواتر حدیثوں میں شامل فرمایا ہے:
حضرت سرورِعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ دے دیا ہو مگر ابوبکرؓ کہ ان کا جو احسان ہمارے ذمہ ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دے گا اور کبھی کسی کے مال نے مجھے وہ نفع نہیں دیا جو ابو بکرؓ کے مال نے دیا۔ حضرت ابوبکرؓ اس ارشاد مبارک کو سن کر روئے اور کہا: ’’یا رسول اللہ! کیا میرا مال آپ کا مال نہیں ہے۔‘‘
یہ ہیں صحابہ کرامؓ کی عظمتیں جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے تھے کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ یہ دنیاوی مال و دولت تو محض ایک امتحان ہے اصل دولت تو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا ہے جس نے انہیں راضی کر لیا‘ اسے دونوں جہان کی کل نعمتیں مل گئیں۔ اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَیلاo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیجo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓیلاo  اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِِّہِ الْاَعْلٰیجo وَلَسَوْ فَ یَرْضٰیo   (سورۃ الیل۔ 17-21)
ترجمہ: ’’اور وہ متقی آگ سے بچے گا جو اپنا مال خرچ کرتا ہے اور کسی پر اس کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جائے مگر ربِّ اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔ ‘‘
جہاں خلیفہ اوّل سیّدنا ابو بکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیّدنا حضرت عمرفاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں پر نچھاور کر دیا وہاں غنایت کے پیکر خلیفہ سوم سیّدنا حضرت عثمان غنیؓ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ آپؓ نے عرض کیا کہ میں ایک سو اونٹ سامان سے لدے ہوئے دیتا ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ پھر اٹھے اور کہا میں دو سو اونٹ مزید دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ نے کہا میں تین سو اونٹ مزید دیتا ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاد کے لیے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کے لیے دوبارہ ترغیب دی تو مجسم جودوسخا سیّدنا حضرت عثمان غنیؓ نے چوتھی بار کہا کہ میں دو سو اونٹ اور ایک ہزار اشرفیاں مزید دیتا ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی اس بے مثال فیاضی و سخاوت پر اس قدر خوش ہوئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اشرفیوں کو اپنے دستِ مبارک سے الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے ’’ماضر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم‘‘ یعنی آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ’’اے عثمان! اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہو چکے یا قیامت تک ہوں گے۔‘‘
مومنین نے اپنے آقا و مولا صلی اللہ و علیہ وآلہٖ وسلم کی آوازِحق پر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خالصتاً اللہ کی رضا کی خاطر اپنا مال و اسباب پیش کر دیا جس کے ذریعے لشکر کی جنگی ضروریات کا بندوبست کیا گیا۔ایک طالبِ مولیٰ کو بھی اسی طرح مرشد کامل اکمل کی آوازِ حق پر لبیک کہتے ہوئے دل و جان سے اس کے ہر مشن میں ساتھ دینا چاہیے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ چونکہ مرشد کامل اکمل قدمِ محمدی پر ہوتا ہے اس لیے اُس کی اتباع ضروری ہے جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ  (النساء۔ 59 )
ترجمہ: ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اللہ کے رسول کی اور اس کی جو تم میں اولی الامر ہو۔ ‘‘
اولی الامر سے مراد انسانِ کامل ہے یعنی مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں کہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین (مرشد کامل اکمل) کی اتباع کرو گے جو کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم ہیں تو گویا تم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کروگے تو گویا تم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کی۔ (الفتح الربانی مجلس ۔14)
دوسری جانب وہ منافقین اور فاسق لوگ تھے جو بظاہر مومن ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے مگر اندر ہی اندر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ ان جھوٹے اور مکار لوگوں کے لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا جیسے دنیا کا مشکل ترین کام تھا لہٰذا جھوٹے بہانے بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جہاد میں شرکت سے بچنے کی اجازت طلب کرنے لگے ۔اللہ پاک نے ان منافقین کی حقیقت قرآنِ مجید میں واضح کر دی:
اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِا للّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فَیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَo وَلَوْ اَرَادُواالْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃًوَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْامَعَ الْقٰعِدِیْنَo  (التوبہ۔ 45-46)
ترجمہ: ’’تم سے اجازت وہی مانگتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پرایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں۔اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے سامان تیار کرتے لیکن خدا نے ان کااٹھنا (اورنکلنا) پسند نہ کیا تو ان میں کاہلی بھر دی اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں (معذور) بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو۔ ‘‘
نہ صرف یہ کہ انہوں نے خود حیل وحجت سے کام لیا بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں بھی طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے کمزور ایمان والے اور ایسے افراد جو نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ابھی انکی باطنی تربیت نہیں ہوئی تھی ان منافقین کی باتوں میں آکر سستی کرنے لگے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
 یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِط اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَامِنَ الْاٰخِرَۃِج فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَافِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ۔  (سورۃ توبہ۔ 38)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب) زمین پر گر جاتے ہو(یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں)کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابلے بہت ہی کم ہیں۔‘‘
نفس ہر وقت گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے کہ کوئی موقع ملے اور انسان کو صراطِ مستقیم سے گمراہ کرے۔ یہ نفس ہی کی ایک چال تھی جو دلوں میں وسوسے پیدا کرنے لگاکہ اگر اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردو گے تو تمھیں بھوک آ جکڑے گی۔ اتنی گرمی میں جنگ کے لیے نکلو گے تو ہلاک ہو جاؤگے اور تمھارے پھلوں سے لدے باغات تباہ و برباد ہو جائیں گے۔جہاں اتنی بڑی فوج تیار ہو رہی ہے تو پھر تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنی جان وبال میں ڈالو۔ اپنے گھر میں رکے رہو اور کھجوروں کے سایوں تلے زندگی کے مزے اڑاؤ۔یاد رکھیں کہ نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے جو کبھی ڈرا کر اور کبھی خود پسندی اور غرور و تکبر میں مبتلا کر کے بڑی خوبصورتی سے اپنا شکارکرتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* تو نفس کو کیا سمجھتا ہے؟ نفس ایک بہت بڑا دیو ہے جو مسلمانوں پر بھیڑیے کی طرح جھپٹتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* دونوں جہاں میں نفس سے زیادہ بُری اور کمینی چیز اور کوئی نہیں۔ جو آدمی معرفتِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے۔ جو آدمی نفس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو وہ نفس کا قیدی بن کر ہوا و ہوس کی مستی میں غرق ہو جاتا ہے اورہوا و ہوس سے مغلوب ایسے نفس کو ’’سرکش توسن‘‘ (منہ زور جوان گھوڑا) کہتے ہیں جس پر ہر وقت خود پسندی سوار رہتی ہے۔ خلق کی نظر میں تو وہ آدمی ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں وہ خنزیر‘ گدھے‘ کتے اور بندر جیسا حیوان ہوتا ہے ۔ صورت میں انسان لیکن سیرت میں حیوان۔ ایسے حیوان سے بات کرنا مناسب نہیں ۔ یوں کہیے کہ ایسا صاحبِ نفس ہزار شیطانوں سے بَد تر ہے اور اہلِ نفس آدمی سے دوری اختیار کر۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محک الفقر کلاں)
طالبِ مولیٰ کو ہر لمحہ نفس کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان آزمائشوں سے کھرے اورکھوٹے کی پہچان کرادے تاکہ نفس کے قیدی لوگوں کے چہروں سے نقاب اُٹھ جائے عین اسی طرح ایک مرشد کامل اکمل بھی کھرے اور کھوٹے کی پہچان کے لیے طالبانِ مولیٰ کو مختلف آزمائشوں اور امتحانات سے گزارتا ہے۔ پس جو نفس کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو وہ اسی کے قیدی بن کر رہ جاتے ہیں اور جو خلوصِ نیت سے اس ظالم چور کا محاسبہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں وہ ضرور بالضرور کامیاب ہوتے ہیں اس لیے طالبانِ مولیٰ کو بہت محتاط رہنا چاہئے اور ایسی کالی بھیڑوں سے بچنا چاہئے جو نہ صرف خود نفس کی اسیر ہوں بلکہ دوسروں کا ایمان لوٹنے کے بھی درپے ہوں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
*جان لے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی نفس کے خلاف چلنے میں ہے۔ (عین الفقر)
* اپنے نفس کو مارے بغیر کسی نے عشقِ حق نہیں پایا ۔ (عین الفقر)
جہاں نفس گمراہی کا بازار گرم کیے ہوئے تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بار بار حوصلہ افزائی اور راہنمائی فرمائی تاکہ وہ نفس کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنْفِرُوْخِفَافًا وَّثِقَالاًوَّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِِِیْلِ اللّٰہ ط ذٰلِکُم خَیْرُ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(سورۃ توبہ 41 )
ترجمہ: ’’تم سبکبار ہو یا گراں بارنکل آؤ اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں بہترہے اگر تم سمجھو۔‘‘
یعنی تمہارا دل اس طرف مائل ہو یا نہ ہو، تم پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہو یا نہ ہو، ان تمام باتوں کو بالائے طاق رکھ کر بس یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تو پھر ہر حال میں اللہ کے مشن کے لیے نکلو۔
مذکورہ بالا آیت کو اگر عقل کے ترازو میں تولیں تو یہ بات کسی صورت سمجھ نہیں آتی کہ اپنی تمام تر جمع پونجی‘ مال و متاع لٹا کر‘ اپنی تجارت اور کاروبار داؤ پر لگا کر درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں چھوڑ کر جھلسادینے والی دھوپ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا آخر کس لحاظ سے انسان کے حق میں بہترہو سکتا ہے لیکن عشق کہتا ہے کہ جب محبوب نے کوئی مطالبہ کر دیا تو پھر نفع و نقصان کیا دیکھنا۔ محبوب کی رضا ہی سب سے بڑا فائدہ ہے ۔ یہی وہ جذبہ عشقِ حقیقی تھا جو مومنین کو کسی بھی قسم کی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹنے دیتا تھا۔ اصل میں تو یہ پرکھنا تھا کہ کون کون اپنے دعویٰ عشق میں کس حد تک سچاہے ورنہ جنگ کی تیاری کچھ عرصہ بعد بھی ہو سکتی تھی کہ جب گر می کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی اور لوگ کھجور کی تجارت سے خوب منافع کما لیتے اور ان کے پاس اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے قدرے زیادہ مال موجود ہوتا لیکن حقیقتاً اللہ کو نہ تو مال چاہئے تھا اور نہ ہی جنگی ساز و سامان کی ضرورت تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ جنگ تو ہونی ہی نہیں،ان شدید حالات میں جنگ کے لیے اپنے گھروں سے نکلنا ہی اصل معرکہ تھا۔عین اسی طرح مرشد کامل اکمل کے بعض فیصلے بھی ہماری سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں لیکن مرشد پاک کا کوئی بھی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ مرشد پاک کے ہر کام میں طالبانِ مولیٰ کی تربیت کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔ لہٰذا طالب مولیٰ کوصحابہ اکرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی طرح بلا چوں چراں مرشد پاک کے احکامات پر سرِ تسلیم خم کردینا چاہیے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی امر کا اردہ فرما لیتے تو صحابہ کرامؓ کیا ، کیوں اور کیسے کی بحث میں نہیں پڑتے تھے۔ توجنہوں نے آوازِ حق پر لبیک کہا ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اجر ہے:

اَلَّذِیْنِ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْلا اَعْظَمُ دَرَجَۃًعِنْدَاللّٰہِج وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍمِّنْہُ وَرِضْوٰنٍ وَّجَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَانَعِیْمٌ مُّقِیْمٌo خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (سورۃتوبہ۔ 20-22 )
ترجمہ: ’’ جو لوگ ایمان لائے اورہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ ان کا پروردگار ان کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے نعمت ہائے جاودانی ہیں۔ (اوروہ) ان میں ابد الآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خداکے ہاں بڑا صلہ ہے۔‘‘
دوسری طرف ان منافقین کے لیے سخت وعید ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے قدرت دی‘ صحت و تندرستی اور مال و دولت سے نوازا لیکن انہوں نے خود کو اللہ کے لیے پیش نہ کیا الٹا اللہ کے احکامات کومذاق میں اڑا دیا۔ ایسے بد بختوں کے لیے اللہ فرماتا ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَاوَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ (سورۃ توبہ 24 )
ترجمہ: ’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی راہ میں لڑنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

تبوک کو روانگی اور سفری صعوبتیں

منافقین کی سر توڑ کوششوں کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے 30,000 سپاہیوں کا لشکر تیار کر لیا جو گرمی کی شدت، بھوک پیاس، سواری کی کمی اور سفر کی صعوبتوں کے باوجود اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر معرکہ تبوک پر روانہ ہوا۔ دورانِ سفر طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی پانی کی اس قدر قلت ہو گئی کہ اپنی سواری کے اونٹ‘ جو کہ پہلے ہی ناکافی تھے اور ایک اونٹ اٹھارہ اصحابؓ کو باری باری سواری مہیا کر رہا تھا‘ ذبخ کر کے ان کے جسم میں موجود تَری سے پیاس بجھائی گئی تو کبھی خوراک کی قلت کے باعث کانٹے دار درختوں کے پتے کھا کر گزارا کیا گیا۔ اسی وجہ پر اس معرکے کو ’جیش العسرۃ‘ یعنی تنگ دستی کا لشکر بھی کہا جاتا ہے۔ مشکلات اس قدر شدید تھیں کہ کچھ لوگوں نے پلٹ آنے کا ارادہ کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو تقویت بخشی اور وہ جمے رہے۔
لَقَدْتَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْم بَعْدِ مَاکَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْط اِنَّہٗ بِھِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌلاo (سورۃ توبہ۔ 117 )
ترجمہ: ’’بے شک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھِرجانے کو تھے، مشکل گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے پھر خدا نے ان پر مہر بانی فرمائی۔ بے شک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

پیچھے رہ جانے والے 3اصحابؓ

مفسرین لکھتے ہیں کہ تقریباً اَسّی (80) افراد غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر میں شامل نہ ہوئے جن میں اکثریت منافقوں کی تھی۔ اور ان منافقین کے نہ نکلنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی۔ قرآنِ مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے:
لَوْخَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّازَادُوْکُمْ اِلَّاخَبَالًاوَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج۔وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ ط۔وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَo (سورۃ توبہ۔ 47 )
اگر تمہارے ساتھ (میدانِ جہاد کی طرف) نکل پڑتے تو اضطراب اور شک و تردد کے سوا تمہارے لیے کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور بہت جلدی تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کرتے اور تمہارے درمیان (سست اور کمزور) افراد ہیں جو ان کی بات زیادہ قبول کرنے والے ہیں۔ اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘
کچھ لوگ ضعیف العمری، معذوری اور سواری کی عدم دستیابی کی وجہ سے ساتھ چلنے سے روک دیئے گئے تھے مگر تین اصحابؓ ایسے تھے کہ جنہیں کوئی عذر لاحق نہیں تھا۔ وہ محض سستی اور کاہلی کی وجہ سے لشکر میں شرکت نہ کر سکے؛ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارۃ بن ربیع رضی اللہ علیہم اجمعین۔ان کا واقعہ طالبانِ مولیٰ کے لیے بہت سے ہدایت کے موتی سمیٹے ہوئے ہے۔

حضرت کعب بن مالکؓ کا رقت آمیز واقعہ

حضرت کعبؓ بن مالک اپنا قصہ خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں تبوک کے وقت بھرپور جوان تھا ۔ سوائے سستی اور کاہلی کے اور کوئی عذر لاحق نہیں تھا۔ میں روز ارادہ کرتا کہ آج جنگ کی تیاری کا سامان خریدوں گا لیکن شام کو خالی ہاتھ واپس آ جاتا کیونکہ دل میں پختہ ارادہ جو نہیں تھا۔ آج کل کر تے کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے لشکر کو لیکر مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ اگر لشکر نکل بھی گیا ہے تو میں اپنی تیز رفتار سواری کی وجہ سے جلد ہی ان سے جا ملوں گا۔ ایک ایک کر کے دن گزرتے گئے لیکن میں نہ نکل سکا۔ پھردل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہر محاذ میں شرکت کی ہے اگر ایک جنگ میں نہ بھی شریک ہوا تو کوئی بات نہیں۔یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قافلہ میدانِ تبوک میں بیس دن گزار کر واپس مدینہ پہنچ گیااور میں ان ہی شک و شبہات میں الجھا رہا۔پیچھے رہ جانے والے افراد ملاقات کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ منافقین ‘جو محض اپنی خود سری اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ساتھ نہیں گئے تھے‘ اس بات کا یقین کیے بیٹھے تھے کہ جن شدید حالات میں قافلہ جنگ کے لیے نکلا ہے یہ کبھی واپس نہیں لوٹنے والے۔ اگر سفر کی سختی سے بچ بھی گئے تو اتنے طاقتور دشمن کے سامنے پنپ نہ پائیں گے اور ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ جب لشکر کو واپس مدینہ میں دیکھا تو جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی۔لگے جھوٹے بہانے بنانے ، قسمیں اٹھا کر کہنے لگے اگر ہمیں فلاں عذر لاحق نہ ہوتا تو بخدا ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے۔
سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ ط فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ ط اِنَّھُمْ رِجْسٌز وَّمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُج جَزَآئًم بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (سورۃ توبہ 95 )
ترجمہ: ’’جب تم ان کے پاس لوٹ کرجاؤ گے تو تمہارے روبرو خدا کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو، سو اِن کی طرف خیال میں نہ پڑو۔ یہ ناپاک ہیں جو کام یہ کرتے رہے ہیں اس کے بدلے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘
چونکہ اس غزوہ میں منافقین کو بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اسی بنا پر اس غزوہ کا ایک نام ’غزوہ فاضحہ‘ یعنی رسوا کرنے والا غزوہ بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منافقین کے ظاہر کو قبول کیا ۔ جب میری باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کہا کہ تم کیوں رکے رہے؟ کیا تم نے جنگ میں شریک ہونے کے لیے خریداری نہیں کی تھی؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں اس وقت کوئی جھوٹا بہانہ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو راضی کر بھی لوں تو اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سچ سے آگاہ کردے گا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میرے پاس جنگ میں شریک نہ ہونے کا کوئی معقول عذر نہیں تھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ تم جاؤ اور انتظار کرو کہ اللہ تمہارے معاملے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ میرے علاوہ حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارۃ بن ربیعؓ نے بھی سچ کہا اور ان کے لیے بھی یہی حکم تھا۔رسول اکرم نے اعلان کر دیا کہ ان تینوں سے سماجی طور پر لاتعلقی کر دو۔ باقی دونوں تو عمر رسیدہ تھے ، شرمندگی کے باعث اپنے اپنے گھر کے کونہ میں گوشہ نشینی اختیار کر کے بیٹھ گئے اور ہر وقت اللہ کے حضور رو رو کر معافی مانگتے رہتے۔ میں جوان تھا، گلیوں بازاروں میں گھومتا تھا۔ لوگوں سے بات کرتا تھا لیکن کوئی جواب نہ دیتا تھا۔مسجدِ نبوی میں باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سلام کرتا اور بغور آپ کے لب مبارک کی طرف دیکھتا رہتا کہ سلام کے جواب میں ہونٹ ہلے یا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔ جب میں نماز پڑھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے دیکھتے تھے لیکن جونہی میری نظر پڑتی تو نظریں پھیر لیتے۔ دوست احباب رشتہ دار یہاں تک کہ بیوی بچے بھی ترکِ تعلق پر پوری طرح کار بند تھے۔
ایک دن ایک نصرانی میرے پاس قبیلہ غسان کا ایک خط لایا جس میں لکھا تھا ’’تمہارے آقا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے تم پر سختی کی تم ہمارے پاس آ جاؤ ہم تمہیں خوب نوازیں گے۔‘‘ یہ پڑھ کر میں نے خط جلا دیا۔ اپنی حالت پر ترس آیا کہ یا اللہ ! میرامعاملہ اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ اب کفار مجھے اپنے ساتھ ملنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ آزمائش دن بدن زیادہ سخت ہو تی چلی گئی۔ چالیس روز گزر گئے نہ کوئی بات چیت کرتا نہ میل جول یہاں تک کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا کہ اب اپنی بیویوں کو بھی الگ کر دو۔ زمین اپنی کشادگی کے باوجود ہم پر تنگ پڑ گئی۔چلنا پھرنا بوجھ محسوس ہوتا تھا۔بائیکاٹ کو پچاس دن گزر گئے۔ میں اپنے گھر کی چھت پر نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد اللہ کے حضور گڑ گڑا رہا تھا کہ اب تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اتنے میں اللہ پاک نے ہماری معافی کے متعلق وحی نازل فرما دی:
وَعَلَی الثَّلٰثَۃِالَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰی اِذَاضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّامَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِط ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لَیَتُوْبُوْاط اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (سورۃ التوبہ۔ 116-118)
ترجمہ: ’’اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی کے ان پرتنگ ہو گئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہو گئیں اور انہوں نے جان لیا کہ خدا (کے ہاتھ) سے خود اس کے سوا کوئی پنا ہ نہیں۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔‘‘
جب میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو مارے خوشی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ انور چاند کی مانند دمک رہا تھا۔ جیسے اصحابؓ کو اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میں توبہ کی مقبولیت کا انتظار تھا اسی طرح آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اپنے سچے عاشقوں کے منتظر تھے۔
حضرت کعبؓ کے اس پورے واقعے میں نفس نے قدم قدم پر جال بچھایا اورصراطِ مستقیم سے بھٹکانے کی پوری کوشش کی ۔ اصل مقصد کیا تھا کہ اصحابؓ کو اتباعِ خداوندی اور اتباعِ رسول سے روکے رکھے۔ اس ایک نکتے کے خاطر نفس نے کیا کیا حربے استعمال کیے سب سے پہلے تو سستی اور کاہلی کے ذریعے مصمم ارادہ کرنے سے باز رکھا۔ آج کل کرتے کرتے وقت ہاتھ سے نکل گیا۔اس کے بعداگلی چال یہ تھی کہ آپؓ کے دل میں تیز رفتار سواری کے متعلق گمان پیدا کر دیااور آپؓ دل ہی دل میں اپنی سواری کی تیزرفتاری پر خود پسندی کے جال میں پھنس گئے۔ جب نفس اس میں بھی کامیاب ہو گیا تو سرکشی کا وار کر دیا، ساری زندگی تو اتباع کرتے رہے ،ہر معرکہ میں شریک ہوئے اگرایک حکم رہ بھی گیا تو کیا ہوا۔۔۔یہاں تک کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حق کہنے کا موقع آیا تب بھی دل میں وسوسے ڈالنا شروع کردئیے کہ منافقین کی طرح تم بھی کوئی جھوٹا بہانہ بنادو یعنی نفس تو چاہتا ہی یہی تھا کہ جھوٹا بہانہ بنا کر آپؓ بھی (نعوذ باللہ) منافقین کی صف میں شامل ہو جاتے۔ ذرا غور فرمائیں کہ نفس کس حد تک ہمارا دشمن ہو سکتا ہے۔ طالبانِ مولیٰ کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے خاص کر وہ جوراہِ فقر کی کسی نہ کسی ذمہ داری سے وابستہ ہیں۔ نفس تو چاہتاہی ہے کہ طالبِ مولیٰ اللہ کے کاموں میں سستی کریں۔
مذکورہ بالا واقعہ میں ایک اور بہت اہم نکتہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سوشل بائیکاٹ کا حکم دیا امتحان طویل اورکڑا سے کڑا ہوتا چلا گیا۔جہاں نفس اپنی چالیں چل رہا تھا وہیں اللہ پاک نے بھی آزمائش میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قبیلہ غسان کا خط اور ان سے جا ملنے کی دعوت اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہی تو تھی کہ جس وقت ایک شخص واقعی ایسی صورت حال سے دوچارتھا کہ سب لوگ ترکِ تعلق کیے ہوئے تھے، بات کا جواب تک نہ دیتے تھے ، ایسے میں عین ممکن ہے کہ انسان بہک جائے۔اسے اپنی تذلیل کا احساس دِلا کر نفس کفر کی حد تک گِراسکتا ہے لیکن قربان جائیں اس استاد پر جن کو یقین تھا کہ ان کا تربیت یافتہ شاگرد نفس کی چال میں نہیں آئے گا۔
؂ میں بہک سکوں یہ مجال کیا
میرا راہنما کوئی اور ہے
جس طرح حضرت کعب بن مالکؓ نے نفس کی ہر سازش کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ٹھیک اسی طرح طالبانِ مولیٰ کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ اوّل تو غلطی ہونے نہ پائے اگر بتقاضائے بشریت کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً نادم ہو کر معافی اور توبہ کے طلبگار ہوں ورنہ نفس تو گھات لگائے بیٹھا ہے اور ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہے کہ ادھر طالبانِ مولیٰ سے غلطی ہو اُدھر اس کے ذہن میں خناس بھرنا شروع کردے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* طالب مولیٰ کو چاہیے کہ ہر دم اور ہر گھڑی رات دن نفس کی مخالفت کرتا رہے کسی وقت بھی اس سے غافل نہ ہو کیونکہ نفس کافر ہے۔ (عین الفقر)
کامیاب طالب وہی ہے جو ہر حال میں اپنے مرشد کو راضی کرنے میں مصروفِ عمل رہتا ہے اور نفس کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وفاداری اور استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا۔ اللہ پاک ہمیں نفس، دنیا اور شیطان مردود کے شر اور مکروفریب سے اپنی امان میں رکھے اور استقامت و وفاداری سے راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
شمس الفقرا
خلفائے راشدین


Spread the love

غزوہ تبوک–Ghazwa e Tabook” ایک تبصرہ

  1. بہت زبردست جزاک اللہ خیر
    اللہ ہمیں سبق حاصل کرکے عمل کی توفیق عطا فرمایں ! امین

اپنا تبصرہ بھیجیں