بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen (Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen)
قسط نمبر 7 مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
ظاہر اور باطن علیحدہ علیحدہ ہو گئے
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے فرمایا: خلافتِ راشدہ میں بیعتِ خلافت، بیعتِ اسلام، بیعتِ توبہ وتقویٰ اور بیعتِ جہاد اکٹھی تھیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ پانچویں خلیفہ راشد تھے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ نے دنیا کی حکومت چھوڑ دی تو بیعتِ توبہ و تقویٰ اور بیعتِ خلافت جو بادشاہ بننے کے لیے لیتے تھے، دونوں علیحدہ ہو گئیں۔ یعنی باطن اور ظاہر علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو ایک وصیت کی تھی ’’اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارے خاندان میں نبوت اور خلافت کو کبھی اکٹھا نہیں کرے گا۔‘‘ نبوت سے کیا مراد ہے؟ یہ باطن میں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ہے یا صحیح دین یا دینِ حق۔ ’’خلافت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ سیاسی حکومت یا بادشاہت۔
خواتین کی بیعت
بات چل نکلی کیا خواتین کو بیعت کے لیے خاوند کی اجازت کی ضرورت ہے؟
فرمایا: اسلام میں چلنے کے لیے بیوی کو خاوند کی اجازت نہیں چاہیے۔ اللہ پہلے ہے نکاح بعد میں۔ کیونکہ نکاح جو ہوتا ہے وہ اللہ کے نام پر ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن میں مردوں سے کہا ہے کہ تم نے میرے نام پر ان کو اپنے لیے حلال کیا یعنی اللہ کے نام پر خواتین حلال ہوتی ہیں۔ پہلا تعلق اللہ سے ہوا، پھر خاوند اور دیگر رشتہ داروں سے ہوا۔
خواتین کی بیعت کا اللہ پاک نے قرآن میں ذکر کر دیا اور بیعت کے متعلق یہ آیت اُتار دی:
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَ اَرْجُلِہِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَ اسْتَغْفِرْلَہُنَّ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃ الممتحنہ ۔12)
ترجمہ: اے نبی! جب مومن عورتیں تمہارے پاس اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لگائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان میں گھڑیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
اب قرآن میں خواتین کی بیعت کا ذکر بھی آگیا۔ اس آیت میں یہ نہیں کہ جو اسلام قبول کرنے آئیں تو بیعت کریں بلکہ بات ہی مومن عورتوں کی ہو رہی ہے۔
خواتین کو بیعت کرنے کا طریقہ
کسی نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خواتین کو بیعت کیسے کرتے تھے؟
فرمایا: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھال میں پانی رکھ لیتے تھے۔ ایک طرف عورتیں پانی میں ہاتھ ڈالتیں جبکہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہاتھ ڈالتے اور بیعت فرماتے۔ دوسرا اس طریقے سے بھی بیعت فرمایا کہ ایک طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کپڑا پکڑتے جبکہ دوسری طرف سے کپڑا خواتین کو پکڑایا جاتا۔
وسیلہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (سورۃ المائدہ۔35)
ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔
اس وسیلہ سے مراد ایمان نہیں ہے کیونکہ اللہ تو خطاب ہی ایمان والوں سے فرما رہا ہے چونکہ تم ایمان لے آئے تو یہ دو کام کرو،اللہ سے ڈرو اور وسیلہ تلاش کرو۔ یہاں وسیلہ تلاش کرنے اور ڈھونڈنے کا کہا گیا ہے۔ وسیلہ کا اگر لغوی معنی دیکھیں تو’’لسان العرب ‘‘ جو کہ عربی کی سب سے مشہور اور مستند لغت ہے، اس میں وسیلہ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کے ذریعے کسی دوسری چیز کا قرب حاصل کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں۔( جلد 11۔ صفحہ 725)
کہتے ہیں عربی کی جتنی بھی لغات ہیں اس میں سے نکلی ہیں۔ شرعی اصطلاح میں وسیلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو اور جس نے راہ ِسلوک طے کیا ہو اور اس راستہ کے نشیب و فراز سے واقف ہو۔
بات یہ ہے کہ جو آدمی پہلے کسی چیز میں ماہر ہو اسی سے وہ چیز حاصل کی جاتی ہے۔ مدرسوں میں چلے جائیں، جو فقہ کا ماہر ہوگا وہی فقہ پڑھائے گا، تفسیر کاماہر ہی تفسیر پڑھائے گا، جو حدیث کا ماہر ہوگا وہی حدیث پڑھائے گا۔ اگر ہم دنیا کی طرف چلے جائیں توکالجوں میں جو مضمون بھی پڑھائے جاتے ہیں کیمسٹری ہو، بیالوجی ہو ،اردو ہو، سوشل سائنسز ہوں یاکوئی بھی مضمون ہو اس میں کم از کم جو ماسٹر ہو یا ایم اے ہو وہی وہ مضمون کلاس میں پڑھائے گا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ فزکس کا استاد کیمسٹری پڑھانا شروع کر دے۔ اِسی طرح آپ یونیورسٹی میں چلے جائیں تو پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک پروفیسر فزکس میں پی ایچ ڈی ہے اور فزکس کے شعبہ کا انچارج ہے تو وہ شعبہ کیمسٹری میںپڑھانا شروع ہو جائے یا شعبہ بیالوجی میںپڑھاناشروع ہو جائے یاشعبہ فلسفہ میں پڑھانا شروع ہو جائے۔ جیسے دنیاوی علوم کے لحاظ سے یہ ممکن نہیں اسی طرح مذکورہ بالاآیت میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جو پہلے کامل اور مکمل ہو چکا ہو اور قرب حاصل کر کے فنا فی اللہ بقا باللہ فنا فی ھو ہو چکا ہو اسی کو وسیلہ بنائیں۔
عالم کا اصل کام
فرمایا: جو عالم ہوتے ہیں ان کا کام یہ ہے کہ معاشرے میں طالبعلموں کو یا لوگوں کو شریعت کا علم سکھائیں اور قرآن و حدیث اور فقہ کے جو ظاہری علوم ہیں وہ پڑھائیں اور انہیں احکامِ خداوندی کے متعلق بتائیں اور جن سے منع کیا گیا ہے وہ بھی لوگوں کو بتائیں۔ لوگوں کو لڑائیں مت۔ مہربانی کریں صرف ان کو راستہ بتائیں۔ آجکل کچھ عالم بھی بیعت کرتے ہیں جبکہ یہ سرا سر غلط ہے۔ یہ ان کا کام نہیں۔
عامل کا فتنہ
دوسرا فتنہ جو آجکل بہت عام ہے وہ ’’عامل‘‘ ہیں۔ ان عاملوں میں بھی دو اقسام ہیں۔ ایک کالے علم کے عامل ہوتے ہیں جو کالے جادو (Black Magic) کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسرے نوری عامل بھی پیدا ہوئے ہیں جو مؤکل وغیرہ قابو کر لیتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ ان میں اب خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں۔ بڑے بڑے بیوقوف اور جاہل جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ ان کے پاس جاتے ہیں۔ یہ سب چلہ کر کے مؤکلات کو قابو کر لیتے ہیں۔ اہل ِدنیا ہی ان کے پاس جاتے ہیں اپنا کام نکالنے کے لیے جیسے لاٹری کا نمبر لے لیا۔۔۔ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں وہ کام کرنے کا جو ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہ وہ طریقہ اپناتے ہیں جو ہندو کیا کرتے ہیں۔ ان میں آجکل دوسرا طبقہ پامسٹ اور نجومی یا اسٹرالوجسٹ کا شامل ہوا ہے۔ میں ایسے اچھے اسٹرالوجسٹ کو جانتا ہوں جو صرف اپنے کام تک اپنے علم تک محدود رہتے ہیں۔ لیکن اب ایسے بھی آگئے ہیں جو کسی کا ہاتھ دیکھیں گے اور کہیں گے آپ کو یہ تکلیف آنے والی ہے، میں اس کے حل کے لیے چلہ کروں گا تو یہ حل ہو جائے گی۔ یہ بھی اب ’’پیر‘‘ بن گئے ہیں۔ توآپ ان لوگوں کو پیر نہ مانیں۔ پیر تو بہت دور کی بات ہے ان کو مسلمان بھی نہ مانیں۔ یہ لوگ وہ طریقے اختیار کرتے ہیں جو مشرک کرتے ہیں۔ ان کے پاس جانا بھی حرام ہے اور ان کے پاس بیٹھنا بھی حرام ہے۔ ہم اہلِ تصوف انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ پاک کی وحدانیت کو چیلنج کرتے ہیں اور یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ ہم اللہ پاک کو اس بات پر منا لیں گے جبکہ علمِ غیب اللہ کے رسولوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سورۃالجن میں ہے:
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا۔لا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (سورۃ الجن۔26-27)
ترجمہ: (وہ) غیب کا جاننے والا ہے۔ پس وہ علمِ غیب کسی کو عطا نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اللہ پاک علمِ غیب کسی کو عطا نہیں کرتا جبکہ یہ عامل علمِ غیب کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے دور ہی رہیں تو بہترہے۔ انہوں نے ہی مرشد کامل اکمل کو بدنام کیا ہے۔
فتنہ عظیم
عورتیں بھی مرشد بن بیٹھی ہیں۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ مرد بھی ان عورتوں کے مرید ہو رہے ہیں۔ اب یہ دیکھیں فقر تو بہت دور کی بات ہے تصوف میں بھی عورت تلقین و ارشاد نہیں کر سکتی جیسے شریعت میں امامت نہیں کر سکتی۔ تو مرد اب خواتین کے مرید ہو رہے ہیں۔ یہ اسلام میں ایسا فتنہ داخل کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
مرشد کامل کون ہے؟
مرشد کامل اکمل وہ ہے جو اس راستے سے گزر کر اپنے مرشد کے وصال کے بعد تلقین و ارشاد کی ڈیوٹی شروع کرتا ہے۔ مرشد کی حیات میں وہ کبھی بھی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کا ادب ہی اتنا ہوتا ہے کہ وہ کر ہی نہیں سکتاجب تک مرشد اسے کسی دوسرے علاقے میں جا کر کام کرنے کا حکم نہ دے۔
اگر کوئی شعیبؑ آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر جاناپڑا تو وہ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آئے۔ حضرت شعیبؑ نے ان کی تربیت کی، اپنی بیٹی سے شادی کی اور بکریاں چرانے کا حکم دیا۔ شبانی کہتے ہیں بکریاں چرانے کو۔ پھر جب وہ مکمل ہو گئے تو ان کو واپس مصر جانے کا کہا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں شبانی یعنی بکریاں چرانے سے کلیمی یعنی اللہ سے کلام دو قدم کے فاصلے پر ہے بشرطیکہ کوئی شعیب مل جائے یعنی اگر کوئی مرشد مل جائے۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
پیر را بگزیں کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پرُ آفت و خوف و خطر
ترجمہ: پیر کی تلاش کرو اس لئے کہ پیر کے بغیر (راہِ حق کا) سفر بڑا خوف اور بڑے خطر والا ہے۔
اگر اس خوفناک اور خطرے والے سفر سے بچنا چاہتا ہے تو کسی اللہ والے کا مریدہو جا۔
نظرِمرشد
فرمایا: جس طرح بری نظر ہوتی ہے جیسے حاسد کی، اُسی طرح اچھی نظر بھی ہوتی ہے۔ جس طرح بری نظر اونٹ کو دیگ میں پہنچا دیتی ہے اور تقدیر بدل دیتی ہے اِسی طرح مرشد کامل کی نظر بھی تقدیر بدل دیتی ہے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
تقویٰ کے لغوی اور اصطلاحی معنی
ایک ہوتے ہیں لغوی معنی اور ایک ہوتے ہیں اصطلاحی معنی۔ جیسے صلوٰۃ کے لغوی معنی’’دعا‘‘کے ہیں جبکہ اصطلاحی وہ ہیں جو ہم دن میں پانچ مرتبہ مخصوص طریقے سے شریعت کے مطابق ادا کرتے ہیں۔ اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جسے آپ نماز کہتے ہیں۔
اسی طرح صوم کے لغوی معنی ہیں ٹھہر جانا، رُک جانا۔ لیکن اصطلاحی معنی صبح سے شام تک کھانے پینے اور جماع سے رُک جانے کو صوم کہتے ہیں۔ یا شریعت نے جن باتوں سے منع کیا ان سے رُک جانے کو صوم کہتے ہیں۔ جسے آپ روزہ کہتے ہیں۔ اس ماہ کو ماہِ صیام کہتے ہیں۔ اسی طرح حج کے لغوی معنی ہیں زیارت کرنا۔ لیکن اصطلاحی معنی ہیں کہ ذی الحج کے مخصوص دنوں میں منٰی، عرفات، مزدلفہ اور خانہ کعبہ یا بیت اللہ میں جو عبادت کی جاتی ہے اس کو حج کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تقویٰ کے لغوی معنی پرہیزگار کے ہیں۔ لیکن اس کے اصطلاحی معنی ہیں اللہ کا قرب۔ جو بندہ اللہ کے جتنا زیادہ قریب ہو گا وہ اتنا ہی متقی ہو گا۔
مرشد کی صحبت
فرمایا: جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ فتح کیا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے تو صحابہ کرامؓ مکہ میں رکے نہیں کہ اِدھر بیت اللہ ہے۔ بلکہ وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت ہی سب کچھ ہے۔
زبانی ذکر سے نفس موٹا ہوتا ہے
فرمایا: زبانی ذکر سے تو نفس مزید موٹا ہوتا ہے۔ اصل ذکر تو یہ ہے کہ روح ذکرکرے۔ روح کا ذکر ہی روح کی غذا ہے۔ روح کو غذا ملے گی تو ہی اللہ کو پہچانے گی۔ جو امانت اللہ نے انسان کو دی ہے اس کے متعلق ارشاد فرمایا:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلاً (سورۃ الاحزاب۔ 72)
ترجمہ: بیشک ہم نے امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو اُنہوں نے اس کے اُٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اُٹھالی۔بیشک وہ ظالم اور جاہل ہے۔
اس امانت کو سلامتی کے ساتھ واپس کرنا ہی آخرت میں کامیابی ہے۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ۔لا اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (سورۃ الشعرا ۔88-89)
ترجمہ: اس دن نہ مال نفع دے گا اور نہ اولاد مگر وہ جو سلامتی والا قلب لے کر آئے۔
اس لیے امانت کو سلامتی کے ساتھ لوٹانا ہی کامیابی ہے۔
سخت دل
فرمایا: جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چھوڑ کر سیدھا اللہ کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں ان کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ دل کی نرمی اللہ کے جمال سے ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمالِ الٰہی ہیں۔اب جو جمال کا انکار کر دے اس کا دل کیسے نرم ہو سکتا ہے؟
(جاری ہے)