دعا کی اہمیتDua ki Ahmiyat


4.8/5 - (33 votes)

دعا کی اہمیتDua ki Ahmiyat

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری

دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجا اور پکار، عبادت کرنا، مدد طلب کرنا اور سوال کرنا کے ہیں لیکن اصطلاحی مفہوم میں اس سے مراد اللہ سے (عموماً دورانِ عبادت) کوئی فریاد کرنے یاکچھ طلب کرنے کے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ  (سورۃالمومن۔60)
ترجمہ:اور تمہارے ربّ نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔

 آیت میں لفظ’’ اَدْعُوْنِیْ‘‘ سے مراد ’’دعا‘‘ ہے۔ یعنی اے لوگو! مجھ سے دعا کرو، میں اسے قبول کروں گا۔
دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیث ِطیبہ وارد ہوئی ہیں۔ دعا کی عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اس کی شانِ الوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کااظہار اور اُس کی ذات پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔ دعا اپنے دامن میں اس قدر  رحمتیں، برکتیں، خوبیاں اور فوائد سمیٹے ہوئے ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ایسا ہو جس نے دعا کی ترغیب نہ دی ہو۔ دعا مانگنا بارگاہِ الٰہیہ میں اپنی عبودیت و مسکنت، عجز و نیاز، فقر و احتیاج کا اظہار اور اس امر کا اعلان ہے کہ دعا مانگنے والا اپنے آپ کو اللہ پاک کے فضل و کرم کا محتاج سمجھتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے دعا کی تلقین و ترغیب فرمائی ہے اور اسے قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ( اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہ (مراد) پا جائیں۔  (سورۃالبقرہ۔186)

بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔  (سورۃ النمل ۔62)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ کوئی چیز محترم و مکرم نہیں ہے۔  (جامع ترمذی۔3370)

حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’دعا عبادت ہے۔‘‘ (جامع ترمذی۔ 3247)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے اور افضل عبادت یہ ہے کہ( اس دعا کے اثر سے) کشادگی (خوش حالی) کا انتظار کیا جائے۔ (جامع ترمذی۔3571) 

حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی نہیں بدل سکتا اور عمر میں نیکی کے علاوہ کوئی چیز اضافہ نہیں کر سکتی۔ (جامع ترمذی۔2139)

دعا کا مفہوم واضح کرتے ہوئے امام ابنِ حجر عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں علامہ طیبیؒ کا قول نقل کرتے ہیں :
اللہ کی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع، محتاجی اور عاجزی و انکساری کا اظہار کرنا دعا کہلاتا ہے۔

الرسالۃ القشیریہ میں درج ہے کہ صوفیا کرام کے نزدیک دعا سے مراد:
  حیا کی زبان کے ساتھ اللہ پاک کے سامنے آنے کا نام ہے۔
   دعا گناہوں کو ترک کر دینے کا نام ہے۔
   دعا محبوب سے ملاقات کے لئے اشتیاق کی ترجمانی ہے۔
   دعا محبوبِ حقیقی سے ایک قسم کی باہمی پیغام رسانی ہے۔جب تک یہ سلسلہ قائم رہے تب تک معاملہ ٹھیک رہتا ہے۔(دعا اور آدابِ دعا)

امام قشیری، حضرت سہل بن عبداللہؓ کا فرمان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے فرمایا: مجھ سے باتیں کرو۔ اگر یہ نہ کر سکو تو میری طرف دیکھو۔اگر یہ بھی نہ کر سکو تو میری بات کو سنو۔ اگر یہ بھی نہ کر سکو تو میرے دروازے پر رہو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو میرے پاس اپنی ضرورتوں کو لاؤ۔( الرسالۃ القشیریہ)

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ’’فتوح الغیب‘‘ میں فرماتے ہیں :
اے بندۂ مومن! یہ نہ کہہ کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کروں گا کیونکہ جو میری قسمت میں ہے چاہے مانگوں یا نہ مانگوں، وہ مجھے مل جائے گا۔بلکہ اے بندے! دنیا و آخرت کی ہر وہ چیز جس کی تجھے حاجت ہے بشرطیکہ وہ حرام یا فساد کا سبب نہ ہو اللہ تعالیٰ سے طلب کر۔ یہ نہ کہو کہ میں اس سے سوال کرتا ہوں اور سوال شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرتا۔اس لیے میں اس سے سوال نہیں کرتا۔اے بندہ ٔخدا! ہمیشہ تو اپنے ربّ سے مانگتا رہ۔ وہ چیز جس کا تو سوال کرتا ہے، اگر تیری قسمت میں ہے تو تیری دعا کے بعد تجھے عطا کر دی جائے گی۔ اس وقت یہ عطا تیری توحید میں استقامت پیدا کرے گی اور مخلوق سے بے نیازی، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اسی کی ذات پاک تمام حاجات کی روائی کا باعث بن کر ایمان و یقین میں اضافہ کرے گی۔اگر وہ چیز تیری قسمت میں نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تجھے بے نیازی اور حالتِ فقر میں رضامندی کی عظیم دولت عطا کرے گا۔اگر محتاجی اور بیماری ہے تو تجھے اس میں راضی کرے گا اور اگر مقروض ہے تو قرض خواہ کو سختی سے نرمی اختیار کرنے یا تیری سہولت تک تاخیر کرنے یا معاف کرنے یا کم کردینے پر مائل کر دے گا۔ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ قرض دنیا میں نہ دیا تو آخرت میں عظیم ثواب عطا فرمائے گا۔ کیونکہ اللہ کریم ہے، بے نیاز اور رحیم ہے اپنے بندہ سائل کو ناامید نہیں کرتا۔ اس کا فائدہ انسان کو ضرور پہنچتا ہے، دنیا میں ملے چاہے آخرت میں۔(فتوح الغیب)

امام مبارکپوریؒ فرماتے ہیں :
 دعا سے مراد یہ ہے کہ ادنیٰ مخلوق کا اعلیٰ ذات سے قول کے ذریعے عاجزی و ذلت کے انداز میں کوئی چیز مانگنا۔

دعا عبودیت کی علامت ہے۔ اس کے وسیلے سے بندہ اللہ کی توجہ طلب کرتا اور اس سے مدد اور رحمت حاصل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی حاجت کی درخواست اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ غیر اللہ کی طاقت و قوت سے برأت کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآنِ مجید کے آغاز میں بھی دعا ملے گی اور اختتام میں بھی۔ سورۃ فاتحہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ اس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔ اسی طرح معوذتین میں بھی وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے۔

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب بھی دعا مانگی ہمیشہ اپنی امت کے لیے ہی دعا مانگی، کبھی اپنے لیے کچھ نہیں مانگا،ہر لمحہ اپنی امت کی فکر ہی رہی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں ہمیشہ اپنے اصحابؓ اور اپنی امت کے لیے دعا گو رہے۔

دعا دنیوی اور اخروی حاجات و ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔دعا غموں اور مصیبتوں کے خاتمے کا عظیم ترین ذریعہ ہے۔ دعا عبدیت اور عبودیت کی تکمیل کا وسیلہ اور اللہ پاک سے بندے کے تعلقات کو استوار کرتی ہے۔ دعا اخلاصِ عمل کی رغبت اور خواہش کو بڑھاتی ہے۔ دعا ربّ کی قدرت کا اور بندے کو عاجزی کا احساس دلاتی ہے۔ دعا خالق و مخلوق کے درمیان وہ پل ہے جو مخلوق کو سیدھا خالق کے ساتھ جوڑتا ہے۔ دعا ربِّ کائنات کو محبوب ہے۔ کوئی بھی شخص خوشی کے لمحات میں خدائے عظیم کے حضور تشکر بجا لائے یا نہ لائے لیکن دکھ، تکلیف، پریشانی اور غم کے عالم میں وہ اپنے پروردگار کو نہیں بھولتا۔ اس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے صدائے فریاد نکلتی ہے اور اس کے ہاتھ بے ساختہ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں اور عجز و نیاز کے ساتھ خشوع وخضوع سے اپنے مالک کے آگے سجدے میں جھک جاتا ہے۔ اضطرار و بے اختیاری کے عالم میں اس کے ہونٹ ہلنے لگتے ہیں اور وہ گڑگڑا کر عاجزی وبے چارگی کی حالت میں اپنے پروردگار کو پکارنے لگتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو اپنے مالک سے اس درجہ قریب محسوس کرتا ہے کہ بار بار مانگنا اس کو گراں نہیں گزرتا بلکہ اس کی لذت و حلاوت دوچند ہو جاتی ہے۔ایک سچے مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنگی اور آسانی ہر حال میں اپنے پروردگار کے حضور دستِ دعا دراز کرے۔دعا انسان کی تڑپ کا اظہار ہے۔دعا یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے لیے بے پناہ خواہش مند ہو ، وہ اپنا پورا وجود اس کے لئے لگائے ہوئے ہو اور پھر اسی کو اپنے ربّ سے بھی مانگے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف مصیبت اور پریشانی میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں لیکن جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو دعا کا دامن چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ عمل اللہ کو ناپسند ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میںجو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی )پکارا ہی نہیں تھا۔اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے تھے۔ (سورۃ یونس۔12)

سورۃالزمر میں انسان کی اس بری خصلت کو یوں بیان فرمایا گیا:
 اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے ربّ کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتاہے، پھر جب( اللہ) اسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اس(تکلیف )کو بھول جاتا ہے جس کے لئے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا۔  (سورۃالزمر۔8)

دعا میں انسان اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے، جو دلوں کا بھید جانتا ہے، اپنی مشکلات کا ذکر کرتا ہے اور اس عمل سے اسے ذہنی آسودگی ملتی ہے اور دل سے بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تلقین فرمائی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی حاجت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اپنی ضروریات میں سے جو بھی مانگنا چاہتے ہو اللہ سے مانگو یہاں تک کہ اپنے جوتے کا تسمہ بھی اسی سے مانگو کیونکہ اگر اس کی (عطا کرنے میں) رضا نہ ہو تو وہ (جوتے کا تسمہ) بھی میسر نہ ہو۔ (بیہقی، شعب الایمان)

دعا بخشش و مغفرت کا ذریعہ ہے۔دعا لمحہ بہ لمحہ زندگی میں ہمارا سہارا بنتی ہے بلکہ عالمِ برزخ میں بھی ہماری ترقی کا سبب بنے گی۔

حضرت امام مسلمؒ حضرت اویس قرنیؓ کی دعائے مغفرت کے متعلق اسیر بن جابرؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس جب اہلِ یمن میں سے کوئی وفد آتا تو وہ ان سے سوال کرتے:کیا تم میں کوئی اویس بن عامر ہے؟ حتیٰ کہ ایک دن حضرت اویس قرنیؓ ان کے پاس گئے، حضرت عمرؓنے کہا کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! فرمایا: کیا آپ قبیلہ مراد سے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! آپؓ نے کہا کیا آپ قرن سے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! آپؓ نے کہا کیا آپ کو برص کی بیماری تھی؟ اور ایک درہم کے برابر داغ رہ گیا ہے اور باقی داغ ختم ہو گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! حضرت عمرؓ نے کہا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ سنا ہے کہ اہلِ یمن کی امداد کے ساتھ تمہارے پاس قبیلہ مراد سے قرن کا ایک شخص آئے گا جن کا نام اویس بن عامر ہو گا، ان کو برص کی بیماری تھی اور ایک درہم کی مقدار کے علاوہ باقی ٹھیک ہو چکی ہو گی۔قرن میں ان کی والدہ ہیں جن کے ساتھ وہ نیکی کرتے ہیں، اگر وہ کسی چیز پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور پورا کرے گا۔اگر تم سے ہو سکے تو تم ان سے مغفرت کی دعا کروانا، سو اب آپؓ میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ حضرت اویس قرنیؓ نے حضرت عمرؓ کے لیے استغفار کیا۔ (صحیح مسلم۔ 6492)

شرائطِ دعا

اولاًدعا مانگنے میں اخلاص ہو:

ایمانِ کامل اور اخلاص کے ساتھ دستِ دعا دراز کرنا قبولیتِ دعا کی اوّلین شرط ہے۔جس طرح دیگر عبادات میں اخلاص ضروری ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کا انحصار بھی اخلاص پر ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے۔(سورۃالبینہ۔5)

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔(جامع ترمذی۔ 3479)

رزقِ حلال:

قبولیتِ دعا کے لئے رزقِ حلال شرط ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس مقام پر میرا غضب واجب ہو گیا سو وہ واقعی ہلاک ہو گیا۔  (سورۃ طہٰ۔81)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے پیغمبرانِ کرام! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو ، جو عمل تم کرتے ہو، میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں۔‘‘ اور فرمایا ’’ اے مومنو ! جو پاک رزق ہم نے تمہیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ۔‘‘ پھر آپؐ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے ، بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہے ، ( دعا کے لیے ) آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے : اے میرے ربّ! اے میرے ربّ ! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ، اس کا پینا حرام کا ہے ، اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے ، تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو گی !‘‘ (صحیح مسلم۔2346)

حدیثِ نبویؐ سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جب تک انسان کا کھانا پینا پاکیزہ اور حلال نہ ہو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

گناہوں سے توبہ:

اکثر دعاکے رَد ہونے کا سبب دل کی غفلت اور گناہوں کی ظلمت ہے۔ دعا مانگنے سے پہلے بارگاہِ الٰہیہ میں معافی مانگنا، گناہوں کا اقرار کرنا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا قبولیتِ دعا کے لئے لازمی شرط ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور دوسرے وہ لوگ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے اور انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو ملا جلا دیا ہے ،قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورۃالتوبہ۔102)

جب ان شرائط پر عمل پیرا ہوکر دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دعا کے قبول ہونے کا اصل معنی بندے کی پکار پر اللہ پاک کا اسے’’لَبَّیْکَ عَبْدِیْ‘‘ فرمانا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ مانگنے پر کچھ ملنے کا ظہور دوسری صورتوں میں بھی ہو سکتا ہے مثلاً اس دعا کے مطابق گناہ معاف کر دیے جائیں یا آخرت میں اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے یا اصل مانگی ہوئی شے کی جگہ اس سے بہتر چیز عطا کر دی جائے یا اس دعا میں مانگی ہوئی چیز بندے کی زیادہ ضرورت کے وقت تک کے لیے مؤخر کر دی جائے۔ دعا مانگ کر نتیجہ اللہ پاک کے ذمہ کرم پر چھوڑ دینا چاہیے کہ رحمن و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو ہمارے حق میں بہتر ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں کہ دعا کی چار قسمیں ہیں:
 اوّل:دعائے فرض، مثلاً نبی کو حکم ہو ا کہ اپنی قوم کے لیے ہلاکت کی دعا کرے،پس اسے یہ دعا کرنا فرض ہے۔
دوم: دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت۔
 سوم: دعائے سنت،جیسے بعد ِ تشہد اور ادعیہ ماثورہ۔
 چہارم: دعائے عبادت، جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، کیونکہ دعا میں تذلل (عجز وانکساری کا اظہار ) ہے اور تذلل حق تعالیٰ کو محبوب ہے۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ ’’مہمّات الدعاء ‘‘میں رقمطراز ہیں :
دعا میں جب تک کہ پورے طور پر قلب کو حاضر نہ کرے گا اور عاجزی اور فروتنی کے آثار اس پر نمایاں نہ ہوں گے، ایسی دعا،دعا نہیں خیال کی جا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ توقلب کی حالت کو دیکھتا ہے۔ (مہمّات الدعائ)

قلب کی حالت صرف اور صرف مرشد کامل اکمل کی صحبت اور فیض سے ہی بدلتی ہے۔ عصرِ حاضر میں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی روحانی و نورانی صحبت سے ہی حضورِ قلب حاصل ہوتا ہے جو دعا کی قبولیت کا باعث بنتا ہے۔آپ مدظلہ الاقدس نے کبھی اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں مانگا اور ہمیشہ اپنے طالبوں کے لیے بھی یہی دعا فرماتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں پکا اور سچا مسلمان بنائے۔  اللہ پاک ہمیں دعا کی اہمیت کو جاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے ربّ سے بار بار اور خوب مانگنے والے بن جائیں۔آمین 

استفادہ کتب:
۱۔فتوح الغیب:  تصنیفِ لطیف سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔الرسالۃ القشیریہ :  تصنیف ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن
۳۔دعا اور آدابِ دعا:  تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری

 

اپنا تبصرہ بھیجیں