حقیقت ِ اعمالHaqeeqat-e-Amaal


4.7/5 - (30 votes)

حقیقتِ اعمالHaqeeqat-e-Amaal

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس میں ہر انسان ایک مقررہ وقت کے لیے بھیجا جاتا ہے اور مقررہ مدت کے ختم ہو جانے پر انسان نے واپس لوٹ جاناہے۔لیکن بہت سے لوگ موت کی حقیقت سے نظریں چرائے اللہ کی ذات سے غافل اپنی موج مستیوں میں گم رہتے ہیں تاوقتیکہ موت انہیں آن دبوچے۔ فلاح اور کامیابی کا دارو مدار ایمان کی مضبوطی، نیک اعمال کی کثرت و پاکیزگی اور اس کے نتیجے میں قرب و معرفتِ الٰہی کے حصول پر ہے۔ لہٰذا فلاح اور کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو اس مہلت کو غنیمت جانتے ہیں اور اپنی زندگی اس طرح گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کا رسولؐ چاہتے ہیں۔ 

اللہ پاک نے قرآن میں جابجا نیک اعمال کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس کے نتیجے میں انعام کے طور پر جنت اور اس کی نعمتوں کے حصول کو یقینی قرار دیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ  (سورۃ البقرہ۔25)
ترجمہ: (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے (بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (سورۃ البقرہ۔82)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور (انہوں نے) نیک عمل کیے تو وہی لوگ جنتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا وَعْدَ اللّٰہِ حَقًا وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلً (سورۃ النسائ۔122)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہم انہیں عنقریب بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہو سکتا ہے۔

وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا (سورۃ النسائ۔124)
ترجمہ: اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت،وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی تِل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔

اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورۃ السجدہ۔19)
ترجمہ: چنانچہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان لوگوں کے لیے جنت ِ ماویٰ ہے (اللہ کی طرف سے) ان اعمال کے بدلے میں جو وہ کرتے رہے۔

نیک اعمال سے آخر کیا مراد ہے؟ یعنی ایسے کون سے اعمال ہیں جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہیں جن کی انجام دہی پر اللہ تعالیٰ اپنے قرب اور جنت اور اس کی نعمتوں سے نواز رہا ہے اور اللہ پاک کی رضا اور خوشنودی کا علم کیسے ممکن ہے؟ یہ سوالات ہر مومن کے دل و دماغ میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب تک معلوم ہی نہ ہوگا کہ اللہ عزّوجل کن اعمال کے باعث خوش ہوتا ہے تو وہ ان اعمال کو کیسے سرانجام دے گا۔ لہٰذا یہ تو واضح ہو گیا کہ ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر خلوصِ نیت سے کیا جائے وہی نیک عمل ہے۔ اب دوسرے سوال کا جواب کہ آخر اللہ کی رضا کا علم کیونکر ہو سکے گا؟ اس کے لیے اللہ پاک کی معرفت کا حاصل ہونا ازحد ضروری ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو پیدا ہی اپنے عرفان کے لیے کیا ہے تو جب خالق و مخلوق یعنی اللہ اور بندے کا ایک قلبی تعلق معرفت کے بعد قائم ہو جائے گا تب ہی انسان اللہ کی رضا اور خوشنودی کو سمجھ پائے گا۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قیامت کی نشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اعمال کی کثرت ہوگی لیکن دل ایمان سے خالی ہوں گے۔‘‘ آج ہمارے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ دن رات ایک کیا ہوا ہے تو صرف اور صرف وجود کی بے جا ضرورتوں کے لیے۔ نفس پرستی کے لیے۔ کیا آج کے دور میں کوئی ایسا بھی ہے جو نیک اعمال انجام دینے کا نہ صرف اہتمام کرتا ہو بلکہ اس کی قبولیت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑاتا بھی ہو۔ جو نہ صرف عبادات اللہ کی خاطر کرتا ہو بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اتباع میں ان کے دین کی سربلندی کے لیے بھی کوشاں اور فکر مند رہتا ہو۔ جو تقویٰ حاصل کرنا چاہتا ہو نہ کہ نیک نامی کا لیبل لگوانا چاہتا ہو۔

اعمال کی درستی اور پاکیزگی کی بنیاد ظاہر و باطن کی اصلاح اور درستی پر ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ عقائد کی درستی اور کردار کی مضبوطی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ہم ظاہری طور پر پاکیزہ ہوں لیکن قلب و باطن پر نفسانیت کا غلبہ ہو تواعمال کی پاکیزگی مشتبہ ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر باطن ٹھیک ہو لیکن ظاہر کی پاکیزگی سے نظر چرا لی جائے اور یہ نظریہ رکھا جائے کہ جب میرا باطن صاف ہے تو ظاہر کی کیا اہمیت، یہ نظریہ بالکل باطل ہے۔ باطن کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ظاہر کی اصلاح اور پاکیزگی بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

ہر انسان مختلف صلاحیتوں، خوبیوں اور اوصاف کا حامل ہوتاہے جو اللہ کی طرف سے عطاکردہ ہوتی ہیں اور ان خوبیوں اور اوصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی انسان نے اس دنیا فانی میں نیک اور اچھے اعمال انجام دینے ہوتے ہیں جن میںفرض عبادات اور ارکانِ اسلام کی ٹھیک ٹھیک پیروی بھی شامل ہے۔ بروزِقیامت فلاح اور کامیابی و کامرانی کے لیے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہونا ازحد ضروری ہوگا لہٰذا ہم سب نیک اعمال کے ضرورت مند ہیں۔

 جو انسان جتنا زیادہ اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو بروئے کار لاتا ہے اتنا ہی ظاہری اور روحانی ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے کہ اعمال کی بہترین انجام دہی کا انحصار غور و فکر، قلب و باطن کی پاکیزگی پر ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ  (صحیح بخاری۔1)
ترجمہ: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ 

مثال کے طور پر اگر نماز کی ادائیگی کے وقت نیت درست نہ ہو لیکن نماز ادا کر لی جائے تو نماز کی ادائیگی مشکوک ہو گی اگرچہ نماز مکمل قواعد و ضوابط کے ساتھ پڑھی گئی لیکن نیت کے درست نہ ہونے کی بنا پر وہ اعمال خالص اللہ کی ذات کے لیے نہ رہے۔ نماز کی فرضیت کا مقصد اللہ پاک کے ساتھ تعلق اور رابطہ برقرار رکھنا ہے لیکن ہم اس چیز سے بے خبر اور حضوریٔ قلب سے غافل صرف مخصوص حرکات کو ہی نماز سمجھتے ہیں لیکن اگر اللہ سے رابطہ قائم نہ ہوا تو مقصد فوت ہو گیا۔ اِسی طرح اگر صدقہ دیتے وقت سوچ اور نیت دکھاوے اور نمود و نمائش کی ہو تو وہ صدقہ و خیرات رائیگاں جائے گا اور وہ عمل خالص اللہ کی ذات کے لیے نہ رہے گا۔ 

روزہ کی فرضیت کا مقصد نفس کی خواہشات سے کنارہ کرتے ہوئے تقویٰ اور قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ اگر روزہ رکھنے کے باوجود ہم اپنی نفسانی خواہشات سے پرہیز نہیں کرتے تو ہمیں روزے سے سوائے بھوک، پیاس اور فاقہ کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔اسی طرح بہت سے لوگ اعمال اور عبادات کی کثرت میں مشغول تو رہتے ہیں لیکن ان کے بہترین معیار اور کو برقرار رکھنے کی جانب توجہ کم ہی مبذول ہوتی ہے۔ 

اسی طرح نفلی نمازوں اور ورد و وظائف کی کثرت اگر ہمیں اللہ کی جانب متوجہ نہیں کرتی، ہماری روح کا رشتہ ہماری اصل یعنی نورِ الٰہی سے نہیں جوڑتی تو کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہ اعمال ویسے پاکیزہ نہیں ہیں جیسے ہونے چاہئیں۔

اعمال کی حقیقت سے لاعلمی اور ان کے پاکیزہ نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچوں اور خیالات پر غیر اللہ کا پہرہ ہے، ہمارے دل و دماغ میں غیر شرعی آرزوئوں اور خواہشات کی بھرمار ہے اور ان کے پیچھے ہم پاگل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ان اعمال کی پاکیزگی کی طرف دھیان دینا تو دور، ان اعمال کی انجام دہی سے ہی گریز کیا جائے گا۔ جس کا جینا مرنا ہی اپنے نفس کی تسکین کی خاطر ہو وہ ان اعمال کو اگر انجام بھی دے گا تو بہ امر ِ مجبوری،نہ کہ اللہ کے قرب اور رضا کے حصول کی نیت سے۔

تمام نیک اعمال کے نتیجے میں اللہ عزّوجل سے اس کی رضا اور اس کے قرب کی دولت مانگنی چاہیے نہ کہ دنیا کی خواہشات اور مسائل کے حل کے لیے نیک اعمال کیے جائیں۔ اللہ عزّوجل فرماتا ہے: 
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِھَا وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۔  اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔  اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ (سورۃ یونس7-9)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ کے دیدار کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہو گئے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، انہی لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ان کے اعمال کا بدلہ جو وہ کماتے رہے۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ان کا ربّ ان کے ایمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔جنتِ نعیم میں۔

وَعْدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اَسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (سورۃ النور۔55)
ترجمہ: اور اللہ نے ایسے ہی لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (امانتِ حق تعالیٰ) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بخشا تھا۔

جس نے اس دنیا کی امتحان گاہ میں اپنی آخرت کے نتائج کی پرواہ نہ کی تو کیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت اس کا مقدر بن پائے گی؟ جس نے اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اللہ کی ذات کو فراموش کر دیا ہو گا اور جس کے اعمال خالص اللہ کی ذات کے لیے نہ ہوں گے تو کیا اللہ عزّوجل میدانِ حشر میں اس کی پرواہ کرے گا؟ ایسے ہی لوگوں کو اللہ عزّوجل نے ظالم اور نادان کہا ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ آلِ عمران۔57)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو (اللہ) انہیں ان کا بھرپور اجر دے گا اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

حاصلِ تحریر یہ کہ اعمال کی کثرت کی بجائے اعمال کی پاکیزگی کی طرف توجہ دی جائے۔ اپنے نظریات اور عقائد کو بہتر بنایا جائے ورنہ ظاہری عبادت توشیطان نے بھی بہت کی لیکن وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار نہ بن سکا اور غرور و تکبر میں مبتلا ہو کر نافرمانی کا مرتکب ہو گیا اور تاابد ملعون قرار پایا۔ لہٰذا جو لوگ نیک اعمال کی جانب توجہ نہیں دیتے یا شیطان کی طرح تکبر کرتے ہیں ان کے لیے قرآن میں جابجا وعید بھی فرما دی گئی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْھَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزِی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورۃ القصص۔84)
ترجمہ: جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو بُرے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھے۔

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدُھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْکَفُوْا وَ اسْتَکْبَرُوْا فَیُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا (سورۃ النسائ۔173)
ترجمہ: پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ انہیں پورے پورے اجر عطا فرمائے گا اور (پھر) اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے گا اور وہ لوگ جنہوں نے (اللہ کی عبادت سے) عار محسوس کی اور تکبر کیا تو وہ انہیں دردناک عذاب دے گا ۔

حاصلِ تحریر:

محض ظاہری عبادات اور ورد وظائف سے نفس کا تزکیہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ راہِ فقر ہی واحد طریقہ ہے جس پر مرشد کامل اکمل کی رہنمائی میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمدؐ سے انسان اپنے نفس کو نفسانی غلاظتوں، روحانی بیماریوں، دل و دماغ کو شیطانی وسوسوں اور سوچ سے پاک کرتا ہے۔ جہاں مرشد کامل اکمل اس کے نفس کی میل کچیل کو دور کرتا ہے اور باطن پر پڑے حجابات کو دور کر کے معرفت اور قربِ حق تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد انسان اللہ کے دیدار اور وصال کے شوق میں جو اعمال انجام دیتا ہے وہ ان کی درستی اور پاکیزگی پر بھی توجہ دیتا ہے۔ وہ اس چیز کو بھی مدنظر رکھتا ہے کہ اللہ اس کے اعمال کو قبولیت کی سند بھی بخش رہا ہے یا نہیں۔ 

دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت اور مقدس بارگاہ ہی نفس کی پاکیزگی کا واحد علاج ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کی تاثیر نفس کے امراض کو دور کرنے اور قلب کو معرفتِ الٰہی سے روشناس کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہر خاص و عام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے حصولِ فیض کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین براستہ رنگیل پور شریف، سندر اڈا ملتان روڈ لاہور تشریف لائیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے۔ ہم صرف اعمال کے ظاہر کی طرف ہی متوجہ نہ ہوں بلکہ ان کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انہیں صرف اور صرف اللہ اور اس کے محبوبؐ کی اتباع اور خوشنودی کی غرض سے انجام دیں۔ آمین

 

اپنا تبصرہ بھیجیں