حیات کیا ہے ؟ Hayat kia hai

Spread the love

5/5 - (2 votes)

حیات کیا ہے ؟ Hayat kia hai

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری

حیات کیا ہے؟ یہ سوال انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور جیسے جیسے وہ پروان چڑھتا جاتاہے اس پر اس سوال کے مختلف زاویے کھلتے جاتے ہیں۔ بچپن کی معصومیت میں ’’حیات‘‘ ہمیں کھیل کی طرح بھلی محسوس ہوتی ہے اور پانی کے تیز بہاؤ کی طرح اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے۔ جب انسان لڑکپن اور جوانی کی آغوش میں داخل ہوتا ہے تو زندگی پرجوش طریقہ سے اس کا استقبال کرتی ہے۔ دنیا فتح کرنے کا جذبہ اُمڈ اُمڈ کر ظاہر ہوتا ہے ۔  ڈھلتی عمر ’’حیات‘‘ کا کچھ الگ ہی فلسفہ پڑھاتی ہے۔ حیات ’’مقصد‘‘ سے جڑنے لگتی ہے۔ کیوں، کیا، کیسے، اس طرح کے سوالات اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ تجربہ، آپ بیتی، یادیں، تلخیاں اور زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ اس کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ’’حیات ‘‘ کیا ہے یہ سوال ایک سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا رہتا ہے۔ قارئینِ کرام! آپ سے سوال ہے کہ زندگی گزار کر اور ادھیڑ عمر پر پہنچ کر خود سے یہ سوال کرنا کہ حیات کیا ہے ؟ کیا خود حیات (زندگی) کے ساتھ انصاف ہے؟؟؟

حیات کیا ہے ؟ حیات ’’مقصد‘‘ ہے۔ مقصد کیا ہے؟ کیا مقصد وہی ہے جس کی تلاش میں شب و روز گزرتے ہیں۔ مال کی تلاش، اولاد کی خواہش، خوشگوار زندگی کی تلاش۔۔۔ آخر کس کے پیچھے بھاگنا  ہے اور کب تک؟ دراصل حیات ’’ذات‘‘ کی تلاش کا نام ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے حیات ہے۔ ذات یعنی خود آگاہی۔ اقبالؒ کی نظر سے دیکھیں تو ’’خودی‘‘۔ صوفیانہ نقطہ نظر سے دیکھیں تو نفس سے آگاہی۔ جب انسان نفس سے آگاہی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ خدا شناسی بن جاتی ہے۔ یعنی سفرِحیات نفس شناسی سے خدا شناسی کا سفر ہوا۔ اس سفر میں کئی مقامات آتے ہیں ۔فی الوقت صرف دو کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک مسلسل عمل یعنی جدوجہد اور دوسرا ’’رخ‘‘ ،’’مرکز ‘‘یا focus کا تعین۔ بات چونکہ فلسفیانہ طرز سے شروع کی گئی ہے اس لیے جدوجہد اور مرکز کو ہی حیات کی بنیاد بناتے ہیں اور معرفت و حقیقت کے موتی چننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت چل گیا

جدوجہد اور مسلسل عمل ’’حیات ‘‘ یعنی زندہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جب تک زندہ ہیں جینا ہے، عمل کرنا ہے، گرنا ہے، دوبارہ اٹھنا ہے، مختلف مراحل سے گزر کر انسان بننا ہے، ارتقا کے مرحلہ سے گزرنا ہے۔ جمود کو توڑتے ہوئے طلب، تڑپ، آرزو کے جذبہ سے فلسفۂ حیات کو زندگی بخشنی ہے۔ علامہ اقبال ؒ طلب و تڑپ کو تمام جہدِمسلسل کی وجہ اور حیات کا محور سمجھتے ہیں ۔فرماتے ہیں :

زندگی در جستجو پوشیدہ است
اصل او در آرزو پوشیدہ است 

ترجمہ: زندگی تلاش و جستجو میں پوشیدہ ہے ۔ اس کی حقیقت آرزو میں چھپی ہوئی ہے۔ 

زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست 

( اسرارِ خودی )

ترجمہ: زندگی کو دوام آرزو سے ہے ۔ اس (زندگی) کے قافلے کو رواں دواں رکھنے والی قوت بھی آرزو ہی سے وجود پذیر ہوتی ہے ۔ یعنی تمام جدوجہد اور عمل کو قوت ’’آرزو‘‘ سے ہی نصیب ہوتی ہے ۔ 

علامہ اقبالؒ شو ق و آرزوکی حیات کا سبب وصل کو نہیں بلکہ ہجر کو سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے تمنا کا دیا دل میں جلتا رہتا ہے تڑپ اور طلب کی حسرت دل میں قائم رہتی ہے۔ درد و سوزِہجر کی کیفیت سے حیات کا سفر رنگین رہتا ہے۔ ہجر سے شوقِ وصل بڑھتا رہتا ہے۔ عاشق سعیٔ مسلسل سے خونِ جگر جلاتا ہے۔ بقول اقبالؒ:

عالمِ سوز وساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ! ہجر میں لذتِ طلب!

الغرض پانی کی زندگی بہنے سے ہے، آگ کی زندگی جلنے پر، آفتاب کی زندگی چمکنے پر منحصر ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی اور بقا تلاش و جستجوئے پیہم اور سعیٔ مسلسل پر موقوف ہے۔ 

اب اگلے سوال کی طرف بڑھتے ہیں کہ عمل، طلب، تڑپ تبھی مقصدِ حیات تک پہنچاتے ہیں جب حقیقی ’’مرکز‘‘ کا تعین کرلیا جائے۔ مرکز سے مراد وہ central یا focal point ہے جس کے لیے تمام کوششیں ہیں، طلب ہے، تڑپ ہے، تمنا ہے، ہجر کا درد ہے، وصل کی آرزو ہے۔ عشقِ حقیقی کو ہی مرکزِحقیقی کہا جا سکتا ہے۔ عشقِ حقیقی سے مراد پہلے مرشد کامل اکمل کا عشق ہے جو بعد ازاں عشقِ حق تعالیٰ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ حیات کا مزہ و لطف ’’مرکزِحقیقی ‘‘ سے عشق کرنے پر ہی موقوف ہے۔ طلب و تڑپ منجانب حق صرف تب ہے جب اس کا رخ مرکزِحقیقی کی جانب ہو۔ قرآنِ کریم بھی ہمیں مرکزِ حقیقی کی جانب کوشش کرنے کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے :
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (سورۃ العنکبوت ۔ 69)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری خاطر جہاد (یعنی مجاہدہ ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں ۔ 

جو لوگ قرب و وصالِ الٰہی کے لیے کوششیں کرتے ہیں اللہ انہیں ضرور مرشد کا مل کے در کی راہ دکھا دیتا ہے۔ مرشد کامل ہی عشقِ حق تعالیٰ تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ حیات کی بہار مرشد کامل سے ہے۔ حیات کی خوشبو ’’قربِ مرشد ‘‘ہے۔ حیات کا لطف و مزہ ’’رضائے مرشد ‘‘ میں ہے۔ حیات کا مقصد ’’دیدار و صحبتِ مرشد ‘‘ ہے۔ حیات ’’اطاعتِ مرشد ‘‘ سے ہے۔ حیات کا قرینہ و نگینہ ’’الفت مرشد ‘‘ہے۔ ابدی حیات مرشد پر جان نثار کرنے پر ہے۔ حیات میں کامیابی مرشد سے وفاداری میں ہے۔ مرشد ہے تو زندگی میں بندگی ہے ورنہ جیساسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

زندگی از برائی بندگی است
بی بندگی زندگی شرمندگی است 

ترجمہ:زندگی بندگی کے لیے ہے ۔ بندگی کے بغیر زندگی شرمندگی ہے۔  (محک الفقر کلاں)

حیات کا تعلق صرف اس ظاہری جسم یا گنتی کی سانسیں جو ہم لے رہے ہیں، ان سے نہیں ہے بلکہ ایک حیات ایسی بھی ہے جس کے متعلق ارشادِ حق تعالیٰ ہے :
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنَ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔  (سورۃ البقرہ ۔ 154)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں ) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا)  شعور نہیں۔ 

یہ کون سی حیات ہے جس کے متعلق اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ‘‘یعنی وہ زندہ ہیں ؟ یہ حیات ان شہدا کی ہے جو جہاد بالسیف کرتے ہیں راہِ حق میں دین و ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہ خوش نصیب شہادت کے رتبہ پر فائز ہونے کے بعد منجانب اللہ جن انعامات و کرامات کے مستحق قرار پاتے ہیں ان مراتب تک فکرِ انسانی کے طائر کی پرواز نہیں۔ قرآن و حدیث میں جا بجا ان کی عظمت اور فضیلت کے دلائل ملتے ہیں۔ سورۃ آلِ عمران میں ارشاد ہوا ہے:
فَالَّذِیْنَ  ہَاجَرُوْا  وَ اُخْرِجُوْا  مِنْ  دِیَارِہِمْ  وَ اُوْذُوْا  فِیْ  سَبِیْلِیْ  وَ  قٰتَلُوْا  وَ  قُتِلُوْا  لَاُکَفِّرَنَّ  عَنْہُمْ  سَیِّاٰتِہِمْ  وَ  لَاُدْخِلَنَّہُمْ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِہَا  الْاَنْہٰرُ ج ثَوَابًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰہِ ط وَ اللّٰہُ  عِنْدَہٗ  حُسْنُ  الثَّوَابِ (سورۃ آلِ عمران۔195)
ترجمہ: پس جن لوگوں نے (اللہ کے لیے) وطن چھوڑ دئیے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دئیے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان ( کے نامہ ٔ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقینا ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے۔ 

ابو زبیرؓ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ سے سنا کہ حضرت معاویہؓ نے مدینہ کے گورنر کو لکھا کہ احد میں سے نہر گزارو۔ تو اس نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احد میں شہدا کی قبور ہیں۔ حضرت معاویہؓ نے کہا کہ ان کو نکالو۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں ’’میں نے دیکھا کہ وہ (کھودتے ہوئے) شہدا کی گردنوں تک آگئے اور ایسا تھا کہ گویا سو رہے ہوں یہاں تک کہ کدال حضرت امیر حمزہؓ کے پائوں کو لگی تو اس سے خون جاری ہو گیا۔‘‘ (بحوالہ تاریخ مدینہ)

ایک دوسری روایت ابو الزبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ سے اس طرح بیان کی ہے کہ جب حضرت معاویہؓ نے چشمہ جاری کرنا چاہا۔ ہم احد میں گئے، اہل ِاحد کے مقتولین کے جسموں کو ترو تازہ نکالا گیا۔ سعید بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تک (غزوہ احد کو) 40 سال گزر چکے تھے۔(بحوالہ تاریخ مدینہ از عمر ابن شبہ)

ایک دائمی حیات اولیا اللہ کو بھی نصیب ہوتی ہے۔ اہلِ اللہ جہاد بالنفس کرتے ہیں اور راہِ خدا میں اپنے کافر نفس کو قتل کر دیتے ہیں اس فرمان کے مطابق ( فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا ) اہلِ اللہ کو باطنی حیات نصیب ہو تی ہے۔ اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیف عین الفقر میں لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
بیشک اولیا اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں منتقل ہوتے ہیں ۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

اولیا را قبر خلوت با خدا
زندہ دل ہرگز نمیرد اولیا

ترجمہ: زندہ دل اولیا اللہ ہر گز نہیں مرتے۔ ان کی قبر اللہ کے ساتھ خلوت کی جگہ ہوتی ہے 

بعد مردن می شود جان پاک نور
غرق فی التوحید فی اللہ با حضور 

ترجمہ: اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد وہ پاک نوری صورت اختیار کر لیتے ہیں اور غرق فی التوحید ہو کر باحضور رہتے ہیں ۔ 

خلق داند زیر خاکش در قبر
میشود دیدار اللہ سر بسر 

ترجمہ:عام لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قبر کی مٹی تلے سو رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سر بسر اللہ کے دیدار میں غرق ہوتے ہیں ۔ 

طمع و حسد و حرص مردہ با ہوا
اولیا اللہ ہرگز نمیرد با لقا

ترجمہ: اولیا اللہ ہر گز نہیں مرتے، وہ ہر وقت دیدارِ الٰہی سے مشرف رہتے ہیں لیکن نفسانی لوگ زندگی میں ہی طمع و حسد اور خواہشاتِ نفسانی کی وجہ سے مردہ ہو چکے ہیں۔ 

دورانِ حیات نفس کے مردہ ہونے اور روح کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی مثال سیدّنا ابو بکر صدیقؓ کی ہے جن کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
اگر کسی نے چلتا پھرتا مردہ دیکھنا ہو تو ابو بکر ؓ کو دیکھ لے ۔
دورانِ حیات نفس کی موت کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا 
ترجمہ: مرنے سے پہلے مر جاؤ۔

حیاتِ لافانی کے لیے کافر نفس کو قتل کرنے کا ذکر جا بجاسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تصانیف میں ملتا ہے۔بلکہ آپؒ  نفس کو قتل (تزکیہ ) کرنے کی کامل کنجی ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کو قرار دیتے ہیں اور کافر نفس سے مراد نفسِ امارہ ہے۔ آپؒ کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں :

نفس کافر قتل سازم میبرآیم از ہوا
این عبادت جاودانی بس ترا ای باھواؒ

ترجمہ: میں نے اپنے کافر نفس کو قتل کر دیا ہے اور خواہشاتِ نفس سے بھی نجات حاصل کر لی ہے۔ اے باھوؒ!یہ دائمی عبادت ہی تیرے لیے کافی ہے ۔ 

نفس کو قتل کرنے سے مراد نفس کا فنا ہونا بھی ہے۔ اس کے متعلق آپؒ  قربِ دیدار میں فرماتے ہیں:

خود نماند در نماند درمیانش بی حجاب
معرفت توحید ہر یک را جواب 

ترجمہ:جب تو فنا ہو جائے گا تو سارے حجابات اٹھ جائیں گے اور معرفت و توحید کے متعلق سب جواب مل جائیں گے۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس حیاتِ لافانی کے متعلق فرماتے ہیں:
یہ دنیا ہمارے لیے مشکلات اور امتحانات کی جگہ ہے جو زندگی ہم یہاں گزار رہے ہیں وہ آج یا کل ختم ہو سکتی ہے اور لافانی بھی ہو سکتی ہے۔ جو خود کو عشقِ حقیقی میں فنا کر لیتے ہیں ان کی حیات لافانی ہے، باقی سب فانی ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

ایک اور کامل باطنی حیات بھی ہے جس کا ذکر حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیف ’’رسالہ روحی شریف ‘‘ میں کیا ہے جو سروری قادری مرشد جامع نور الہدیٰ کی شان ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں :

’’بدان کہ عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بہر مقامِ حاضر‘‘

ترجمہ: (اے طالبِ حق!) جان لے کہ عارف کامل قادری ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے ۔ 

حیات کی اگلی قسم کی طرف بڑھتے ہیں وہ ہے ’’حیات بعد الموت‘‘

زندگی اور موت انسان کی اٹل حقیقتیں ہیں ۔ زندگی کے سفر کا آغاز رحمِ مادر میں بچے میں روح پھونکنے سے ہوتا ہے اور موت یہی ہے کہ ہر نفس نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اللہ نے جو اس میں روح پھونکی تھی کسی بھی لمحہ کھینچ لے گا جس سے جسم بے حرکت و بے جان ہو جائے گا لیکن انسان کی زندگی کا عنوان صرف یہاں تک ہی نہیں ہے بلکہ اللہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور اسی کو حیات بعد الموت کہتے ہیں۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔ 

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
وَ قَالُوْٓا ئَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۔  قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا۔لا  اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ ج  فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا ط قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ج فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُئُ وْسَہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا ۔  یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ (سورۃ بنی اسرائیل ۔ 49-52)
ترجمہ: اور کہتے ہیں: جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں از سرِ نو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ فرما دیجئے: تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں (ان چیزوں سے بھی) زیادہ سخت ہو (کہ اس میں زندگی پانے کی بالکل صلاحیت ہی نہ ہو)، پھر وہ (اس حال میں) کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ فرما دیجئے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا تھا، پھر وہ (تعجب اور تمسخر کے طور پر) آپ کے سامنے اپنے سر ہلا دیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہو گا؟ فرما دیجئے: امید ہے جلد ہی ہو جائے گا۔ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہو۔ 

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ (سورۃ البقرہ ۔ 28)
ترجمہ: تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ 

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا :
 بندہ جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں مجھے اس نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ موت  پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان اور تقدیر پر ایمان لائے۔ (جامع ترمذی 2145)

حیات بعد الموت کا نظریہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس دنیا کو آزمائش کا گھر سمجھے، نیک اعمال کرے اور آخرت کی زندگی کے لیے زادِ راہ تیار کرے۔ آخرت کی زندگی ہی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ سورۃ المومن میں بیان ہوا ہے:
یٰقَوْمِ اِنَّمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ چ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَۃَ ھِیَ دَارُ الْقَرَارِ۔  (سورۃ المومن۔ 39)
ترجمہ: اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی بس (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں اور بے شک آخرت کا گھر ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہماری زندگی اپنی رضا کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ ایسی حیات میں ہی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ۔

استفادہ کتب :
۱۔قربِ دیدار: تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔نور الہدیٰ کلاں :ایضاً
۳۔رسالہ روحی شریف: ایضاً
۴۔اسرارِ خودی :  علامہ محمد اقبالؒ
۵۔قیامت و حیات بعد الموت : مصنف نیو کلیئر سائنسٹ انجینئر سلطا ن بشیر محمود
۶۔فلسفہ موت و حیات : تالیف علامہ مولانا ابو حمزہ محمد عمران مدنی

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں