اعتکاف – Itikaf

Spread the love

Rate this post

اعتکاف

معنی و مفہوم

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ٹھہر جانا،رک جانا یا خود کو روک لینے کے ہیں۔
اعتکاف کے اصطلاحی معنی یک سوئی کے ساتھ بیٹھے رہنا، خلوت نشین ہو جانا، دنیا سے خود کو الگ کر کے اللہ جل شانہٗ کی عبادت کے لئے خود کو وقف کر دینا ہیں۔ 
اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان حقیقی معنوں میں دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کر کے یکسو ہوکر خلوت نشین ہو جاتا ہے اور اپنی ساری توجہ اس امر پر مرکوز کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات مجھ سے راضی ہو جائے۔ بندۂ مومن گوشہ نشین ہو کر توبہ و استغفار کرتا ہے، نوافل ادا کرتا ہے، ذکرو فکر اور تلاوتِ قرآن کرتا ہے اور دعا و مناجات کرتا ہے اس اعتبار و لحاظ سے اعتکاف کو مجموعہ عبادات سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ایامِ اعتکاف
اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ گوشہ نشینی اختیار کرنے والے کو معتکف کہا جاتا ہے ۔
ہادئ برحق امام الانبیا محبوبِ کبریاؐ رمضان المبارک میں اعتکاف کا خاص اہتمام فرماتے کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ دن رات مسجد کے ایک گوشہ میں معتکف ہو کر گزارتے اور دنیاوی معمولات اور تعلقات قطع فرمادیتے ۔
روایت ہے کہ نبی اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انتہائی پابندی اور یکسوئی سے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف نہ کر سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری۔ الاعتکاف،باب الاعتکاف فی الشوال)
اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رمضان المبارک میں دس دن کی بجائے بیس یوم اعتکاف فرمایا۔(صحیح بخاری) 
سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (سفر کی وجہ سے) اعتکاف نہ کر سکے تو اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیس دن تک اعتکاف فرمایا۔(سنن ابو داؤد)


اعتکاف کا مقصد
اس دنیا میں آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت و وصال کا حصول ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر جھانک کر خود کو پہچانیں اور عرفانِ نفس سے وصالِ حق کی منازل حاصل کر سکیں۔ بحرِ تفکر میں غوطہ زنی کر کے اپنی حقیقت کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کا نام اعتکاف ہے۔ 
اسی لیے اعتکاف جو عبادات کا مجموعہ ہے جس میں ظاہری طور پر انسان اپنے آپ کو دنیاوی معاملات سے جدا کرتا ہے اور محض قرب حق تعالیٰ کے حصول کے لیے خود کو مخصوص کر دیتا ہے تاکہ ربِ کریم کی رضا حاصل ہو سکے۔ اس عملِ خاص کا حقیقی مقصد کچھ مخصوص ایام کے لیے گوشہ نشینی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف و مشغول رہنا ہے۔ اپنے نفس کو پہچان کر اس کو خداوندی کے تابع بنانا ہے جس سے روح کو پاکیزگی و تازگی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اعتکاف کا حقیقی مقصدیہ ہے کہ ہم جہاں ظاہری طور پر اپنے رشتے ناطوں، مصروفیات اور روز مرہ کے امور سے کنارہ کشی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو حاصل کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں وہیں باطنی خواہشات و لذات کی کنارہ کشی اور ان سب سے منہ موڑ کر خاص اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑا جائے۔ بندۂ مومن رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دنیاوی امور اور معاملات سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً اللہ تعالیٰ کے ذکرو اذکار میں اپنا وقت صرف کرنے کیلئے مسجد میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے اور اپنے دن رات اور صبح شام زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت، غور و فکر، ذکرِ الٰہی، ذکر اسم اللہ ذات اور دعاؤں میں صرف کرتا ہے اور دل ربّ العزت کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے۔ زبان ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتی ہے اور نفس خواہشات کی تکمیل اور لذات کے حصول سے باز رہتا ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں :
* اے انسان! جب تو جملہ خواہشاتِ نفسانی سے قطع تعلق اور پاک ہو کر اللہ عزّوجل سے محبت کرے گا تو وہ تیرے دل کو ایسا آئینہ بنا دے گا کہ جب تو اس آئینے میں جھانکے گا تو دنیا و آخرت کے اسرار و حقائق تیرے سامنے منکشف و عیاں ہو جائیں گے اور تو صدیقیت کا آئینہ، پر توِ نبوت بن کر آفتابِ نبوت سے فیوضاتِ الٰہیہ حاصل کرے گا اور اس کے طالب و چاہنے والوں اور اللہ کے مقرب بندوں میں اسے تقسیم کرنے کا فریضہ ادا کرے گا۔
اعتکاف کا مقصد بھی علم الیقین سے عین الیقین اور عین الیقین سے حق الیقین کی منزل تک پہنچ کر لقائے الٰہی اور رضائے الٰہی حاصل کرنا ہے۔
لقائے الٰہی کا طریقہ خود اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں بیان فرما رہا ہے :
* فَمَنْ کَانَ ےَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْےَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً ۔ (الکہف۔ 110)
ترجمہ: جو شخص اپنے ربّ کا لقا (قرب) چاہتا ہے اسے چاہیے اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔ 
پس اگر آیاتِ قرآنی سے استدلال کیا جائے تو اعتکاف کی حقیقت اور اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور اعتکاف کا مقصد واضح ہو جاتا ہے کہ حق تعالیٰ کی رضا کیلئے مومن گوشہ نشینی اختیار کرے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرے۔

اعتکاف کی فضیلت قرآن کی روشنی میں

قرآنِ کریم میں اللہ ربّ العالمین رؤف الرّحیم ارشاد فرماتا ہے :
وَعَھِدْنَآ اِلآی اِبْرٰھِےْمَ وَاِسْمٰعِےْلَ اَنْ طَھِّرَ بَےْتِیَ لِطَّآءِفِےْنَ وَالْعٰکِفِےْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ۔ (سورۃ البقرہ۔ 126 )
ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف بنائے رکھو۔

اعتکاف کی فضیلت احادیثِ رسول ؐ کی روشنی میں
* مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِیْ رَمَضَانِ کَحَجَّتَےْنِ وَعُمْرَ تَےْنِ ۔ (بیہقی)
ترجمہ: جس نے رمضان المبارک میں دس یوم (تمام شرائط کا اہتمام کر کے) اعتکاف کیا اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا۔
ایک اور روایت میں مروی ہے:
* اعتکاف کرنے والے کی مثال احرام باندھنے والے کی سی ہے وہ کلی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے حضور ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے اے ربّ! مجھے تیری قسم ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ تو مجھ پر رحم کردے۔ (تفسیر درِ منثور)
ایک اور روایت میں معتکف کے بارے میں آتا ہے:
* جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقیں بناد ے گا جن کے درمیان مشرق و مغرب کے مابین فاصلے سے بھی زیادہ فاصلہ ہوگا۔ (تفسیر درِ منشور)
ایک اور حدیث میں معتکف کی فضیلت اسطرح بیان کی گئی ہے:
* اعتکاف کرنے والا (مردِمومن) گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اس کو ان نیکیوں کا بدلہ جو اس نے اعتکاف سے پہلے کی تھیں اعتکاف کے دوران بھی ایسے ہی (ان کا اجرو ثواب) ملتا رہتا ہے۔ ( ابن ماجہ کتاب الاعتکاف)
ماہِ رمضان المبارک روحانیت اور اسلام کا موسمِ بہار ہوتا ہے اس میں قربِ خداوندی، عرفانِ نفس، تزکےۂ نفس اور اللہ ربّ العزت کی معرفت کے حصول کے خوب مواقع میسر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع آخری عشرہ میں اعتکاف کی صورت میں ہے۔ 

اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
* اعتکافِ واجب
* اعتکافِ سنت
* اعتکافِ مستحب
اعتکافِ واجب:
اعتکافِ واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا وہ کام ہو گیا تویہ اعتکاف کرنا واجب ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائیگی نہ کی تو گنہگار ہو گا۔ واضح ہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہو گا۔

اعتکافِ سنت:
اعتکافِ سنت رمضان المبارک آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کے سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہو جائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے کے بعد یا انتیسویں رمضان کو عید الفطر کا چاند نظر ہو جانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے۔ واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب تارک سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کر لیا تو سب بَری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

اعتکافِ مستحب:
اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یا رات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کر لے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہو سکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے۔ جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف مستحب خود بخود ختم ہو جائے گا۔

اعتکاف روحانی عبادت ہے
اعتکاف روح کے لئے تسلی، سکون اور سیری کا سبب ہے۔ جو طالبِ حق صرف رسمی طور پر یادکھاوے کے لیے روزے نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدو تسبیح اور تہلیل یعنی تصور اسم اللہ ذات میں مشغول رہیں اور اپنے نفس کا تزکیہ کریں جس سے اللہ کی رضا اور معرفت حاصل ہو۔
عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں اور اپنا محاسبہ اور نفس کا تزکیہ کریں۔ صبح و شام اپنا جائزہ لیں کہ ذکرِ اللہ میں مشغول اور خالقِ کائنات کی یاد میں دن بسر کیا یا نہیں۔ اپنے نفس کا تزکیہ اور عرفانِ ذات کا حصول ہی اصل عبادت کی روح ہے جس طرح حضرتِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جب ایسی حالت ہوگی تو لوگوں کے روزے بھی قبول ہونگے اور لیلۃ القدر کی برکات بھی حاصل ہونگی ۔ اللہ تعالیٰ ایسے مومنوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ اجرِ عظیم حاصل کرنے والے ہیں۔ پھر ہر طالبِ حق کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ لیلۃ القدر کونسی ہیں؟ وہ کونسی راتیں ہیں جب ہم اللہ ربّ العزت کے انعام و اکرام سے فیض یاب ہوسکتے ہیں اور انعام سے حصہ پاسکتے ہیں۔ 
اُمِ المومنین حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ہادی برحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔(بخاری) 
آخری عشرہ کی دعا:
* اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّار
ترجمہ: اے اللہ! مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے۔
******


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں