آپ کے خطوط —Aap Kay Khutoot

Spread the love

Rate this post

آپ کے خطوط

شبنم سفیان۔ اسلام آباد
سوال۔فقر کے نظام میں تربیت کا کیا طریقہ کار ہے؟
جواب: فقر کے نظامِ تربیت میں ابتدا باطن سے ہوتی ہے۔ یوں تو ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اور باطن ظاہر کو متاثر کر تا ہے لیکن فقرمیں ظاہرکو باطن کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ جوں جوں طالب ذکر و تصور اسم j ذات کرتا جاتا ہے توں توں مرشد کی باطنی توجہ سے اس کے باطن میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔ پہلے خیالات اور نظریات تبدیل ہوتے ہیں اور باطن میں طالب کی شخصیت نئے سرے سے تعمیر ہونا شروع ہوجاتی ہے اور آخر کار باطن میں وہ ’’مرنے سے قبل مر جاؤ‘‘ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح سب کچھ باطن میں وقوع پذیر ہوتا ہے اور ظاہر خود بخود اس کی موافقت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارا باطنی وجود جب تبدیل ہوجاتا ہے تو ظاہر کو اسکی تعمیل کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ چنانچہ صوفیا کرام ؒ نے ہمیشہ باطنی تربیت کو فوقیت دی ہے ۔باطن ٹھیک ہوجائے تو ظاہر کو بدلتے دیر نہیں لگتی ۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جب تک ظاہرو باطن متفق نہ ہوں تب تک عاشقی و معشوقی، محبوبی و مرغوبی حاصل نہیں ہوتی ۔(عقلِ بیدار)
عبدالرحمن۔ ڈسکہ
سوال: اگر مرشد کامل کے مل جانے کے بعد اس کی کچھ باتوں میں اعتراض ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’ اگر تیرے لئے مقدر ساز گارہو اور تقدیر تجھے ایسے مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں لے جائے جو رموزِ حقیقت سے آشنا ہو تو اس کی خوشنودی میں مصروف ہو جا اس کے حکم کی اتباع کر اور ان تمام امور کو ترک کردے جن میں پہلے تو جلد بازی کرتا تھا اور مرشد کامل اکمل کے جن رموز سے تو ناواقف ہو ان پر اعتراض نہ کر کیونکہ اعتراضات صرف لڑائی جھگڑا پیدا کرتے ہیں۔ حضرت خضر ؑ کا قصہ (سورۃ کہف میں بیان ہوا ہے) تیرے لیے کافی ہے جب انہوں نے بچہ قتل کیا تو حضرت موسیٰ ؑ نے اس پر اعتراض کیا تھا۔
لہٰذا مرشد کامل اکمل کے امور اور افعال میں حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ کہ اعتراض کرنا چاہیے کیونکہ اعتراض دل کی سیاہی کا باعث بنتا ہے۔
فاخرہ رضوان۔ سرگودھا
سوال: صاحبِ اسم اور صاحبِ مسمّٰی میں کیا فرق ہے؟
جواب: صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم مقامِ خلق پر ہوتا ہے۔ یہ خلفا ہوتے ہیں ان کے مریدین ساری عمر اسم نقش کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
صاحبِ مسمّٰی فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ ہوتا ہے جو امانتِ الٰہیہ خلافتِ الٰہیہ کا حامل اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتاہے۔ایسے مرشد کے بارے میں سلطان العارفین ؒ فرماتے ہیں : ’’عارف باللہ فنا فی اللہ فقیر اسے کہتے ہیں جو فنا فی الرسول ہو،فنا فی فقیر ہو اور فنا فی ھُو ہو۔‘‘ (عین الفقر)
صاحبِ اسم اور صاحبِ مسمّٰی کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں:
* نفس و زبان مخلوق ہیں اور قلب و جسم و روح بھی مخلوق ہیں جبکہ اسم اللہ غیر مخلوق ہے لہٰذا غیر مخلوق کو غیر مخلوق ہی سے یاد کرنا چاہیے۔ اسم اور مسمّٰی کے درمیان کیا فرق ہے؟ صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم ’’مقامِ مخلوق‘‘ پر ہوتا ہے اور صاحبِ مسمّٰی صاحبِ استغراق ہے اور صاحبِ مسمّٰی مقام ’’غیر مخلوق‘‘پر ہوتا ہے صاحبِ مسمّٰی پر ذکر حرام ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں ہر وقت غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے ۔ (عین الفقر)
مملوک الحسن۔شیخوپورہ
سوال: کئی لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں ہر سلسلہ کی خلافت حاصل ہے کیا یہ فقر کی رُو سے ٹھیک ہے؟
جواب: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی کتاب شمس الفقرا میں فرماتے ہیں : ’’یاد رہے کہ مرشد طالب یا تو قادری ہوتا ہے یا چشتی،سہروردی اور نقشبندی۔ ایک سے زیادہ سلاسل سے فیض یا حصولِ خلافت کا جو دعویٰ کرتا ہے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ ا سے کذاب کہتے ہیں۔
حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں ’’اگر کوئی شخص کہے کہ مجھے ہر طریقہ کی خلافت حاصل ہے تو اسکی بات کا اعتبار نہ کرو کیونکہ اس حرامی کے بہت سے باپ ہیں اس کی بات محض ایک گپ ہے۔ قادری لایحتاج شیر ہے، خدانہ کرے کہ قادری مرید اپنے طریقہ کو چھوڑ کسی اور طریقہ میں داخل ہوجائے۔ قادری مرید ہر طریقے پرغالب ہے۔‘‘ (اسرارِ قادری)
احسن سعید۔فیصل آباد
سوال: مراقبہ کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟
جواب: حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
* مراقبہ دل کی گہرائی کی نگہبانی ہے۔ مراقبہ ایک نگہبان ہے جو غیر حق رقیب مثلاً خطراتِ نفسانی، خطراتِ شیطانی،امراضِ پریشانی اور ماسویٰ اللہ کسی چیز کو دل میں نہیں آنے دیتا۔ (شمس العارفین)
مراقبہ میں انسان پر روحانی اسرار منکشف ہوتے ہیں ۔صاحبِ مراقبہ اللہ کے نور کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اسے دیدارِ الٰہی نصیب ہوتا ہے پھر وہ ایک لمحہ بھی تجلیاتِ ذات کے مشاہدہ اور دیدار سے نہیں رکتا خواہ ظاہر میں لوگوں سے بات چیت ہی کیوں نہ کرتا ہو اور دنیاوی زندگی میں مصروف کیوں نہ رہتا ہو۔ اسے باطن میں ہمیشہ دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* مراقبہ دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے جس کے تحت بندے کے دل کی نگرانی ہوتی رہتی ہے ۔ہر مراقبہ کا مدعا یا منشا یہ ہوتا ہے کہ غیر اللہ دل میں نہ آنے پائے۔ مراقبے کے باعث نفسانی اور شیطانی خطرات سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے ۔مراقبہ وہ ذریعہ خاص ہے جو طالب کو دل تک پہنچا دیتا ہے ۔ایسے مراقبہ کو مشاہدہ کا نام دیا جاتا ہے۔
آئمہ سعید۔ گوجرانوالہ
سوال : تجرید اور تفرید سے کیا مراد ہے؟
جواب: تجرید یہ ہے کہ طالب (سالک) ہر ایک مقام سے نکل کر تنہا ہو گیا نفس اور شیطان سے اس نے خلاصی پائی مقامِ حضور ہمیشہ اس کے مدِ نظر رہتا ہے ۔منظور ہو کر اس نے نفسِ مطمئنہ حاصل کر لیا ہے۔ اب اس مقام پر شیطان نہیں پہنچ سکتا۔
تفرید اسے کہتے ہیں کہ طالب فرد ہو بظاہر شب و روز عام لوگوں کی طرح رہتا ہو اور ان سے تعلقات رکھتا ہو یعنی عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو لیکن درحقیقت وہ مقامِ فردیت اور ربوبیت میں غرق ہو۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروریؒ فرماتے ہیں’’تجرید میں اغیار کی نفی ہے اور تفرید میں اپنے نفس کی نفی ہے۔‘‘
عبدالفائق۔ گوجرہ
سوال : میرا سوال رجعت کے بارے میں ہے کہ رجعت کسے کہتے ہیں؟
جواب: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: ’’اپنے مرتبے سے گر جانے کو رجعت کہتے ہیں۔ طالب مولیٰ کیلئے یہ رجعت عارضی سز ا ہوتی ہے جیسے ہی وہ اپنی غلطی پہچان کر اللہ کی بارگاہ سے رجوع کرتا ہے تو مرتبے پر بحال کر دیا جاتا ہے اگر بضد رہے تو مستقل طور پر درجے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ طالبِ دنیا جو دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیے دعوت پڑھتا یا ورد وظائف کرتاہے، مستقل طور پر تنزلی کی سزا پاتا ہے بعض کا شیشۂ عقل بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں