آزمائش و بلا–Aazmayish wa Balaa

Spread the love

Rate this post

آزمائش و بلا

تحریر:مریم گلزار سروری قادری۔ لاہور

آرام اور آسائش کے ساتھ ساتھ بلا اور آزمائش بھی زندگی کا لازمی جزو ہے اور اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ بلا اور آزمائش کا آغاز انسان کی تخلیق سے پہلے ہی ہو گیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کہہ کر اپنی ربوبیت کا عہد لیا اور اس کے بعد ان کے سامنے جنت اور اس کی نعمتوں کو پیش کر کے آزمایا کہ کون اللہ تعالیٰ کی ذات کا طالب بنتا ہے اور کون جنت کا۔ اس کے بعد دنیا اور اس کی نعمتوں کو پیش کر کے آزمایا گیا کہ کون دنیا اور اس کی نعمتوں اور رنگینیوں کی جانب مائل ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب ارواح کو جسم عطا کیے گئے تب اللہ نے تمام فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جسکی تعمیل ابلیس کے علاوہ تمام فرشتوں نے کی۔ یہ بھی ان کے لیے آزمائش تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو جنت سے اس دنیا میں بھیج کر آزمایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود سے آزمایا گیا تو حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے آزمایا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا سے آزمایا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیٹے کی جدائی سے آزمایا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی سے آزمایا گیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو کربلا کے میدان میں آزمایا گیا۔ یہ ان مقدس ہستیوں کی آزمائشوں کی چند مثالیں ہیں درحقیقت ان ہستیوں کی تمام تر حیاتِ مبارکہ کڑی آزمائشوں اور مصیبتوں سے عبارت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے تخلیق کیا تاکہ اسے آزمایا جا سکے۔
لیکن انسان کی آزمائش اللہ کے نزدیک اس کے مراتب اور درجات کے مطابق ہوتی ہے جو جتنے بڑے مرتبے پر فائز ہوگا اس کی آزمائش اتنی ہی بڑی ہو گی یعنی جو بندہ اللہ کے جتنا قریب اور جس قدر محبوب ہوگا اس کی اتنی ہی بڑی آزمائش ہوگی جیسا کہ تمام انبیا اور مرسلین کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہ کرہی وہ تمام اللہ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ ان کی آزمائشیں دیگر تمام انسانوں سے زیادہ سخت اور مشکل تھیں کیونکہ وہ اللہ کے زیادہ محبوب بندے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
ترجمہ: ’’ سب سے زیادہ مبتلائے بلا انبیا ہوتے ہیں پھر ان کی مثل (جو مرتبہ میں ان سے کم ہوتے ہیں) اور پھر ان لوگوں کی مثل (جو مرتبہ میں ان سے بھی کم ہوتے ہیں)۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
آزمائش اللہ کی خوشنودی کا باعث ہوتی ہے نہ کہ ناراضگی کا۔ اگر ناراضگی کا باعث ہوتی تو اللہ اپنے محبوب ترین انبیا و مرسلین اور فقرا کاملین کو ہی کیوں آزمائش میں ڈالتا ۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاو مرسلین اور اولیا و فقرا کو آزمائشوں سے اس لیے گزارا تاکہ ان کی اُمتوں کے لیے آزمائشوں سے گزرنا آسان ہو جائے۔ اللہ عام مومنین کو اس لیے آزماتا ہے تاکہ ان کے گناہوں کا کفارہ اور نجات ہو سکے۔ حدیث پاک میں ہے:
* ’’ مسلمان کو جب بھی کوئی مصیبت، دکھ، تکلیف، اذیت، غم اور رنج پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے عوض اللہ پاک اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
* جب کسی بندے سے بکثرت گناہ سرزد ہو جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا عمل بھی نہ ہو جو ان گناہوں کا کفارہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے تاکہ (مصیبت پر صبر کرنا) اس کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے۔ (مشکوٰۃ)
بے شک انسان کی زندگی اور موت دونوں با مقصد ہیں۔ انسانی زندگی دراصل ایک امتحان ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے اور کون برے، کون فرمانبردار بنتا ہے اور کون نافرمان، کون اطاعت کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کون بغاوت کا۔
آزمائش بندۂ مومن کا مقدر ہے اس کے بغیر وہ نہ تو مومن کہلانے کا حق دار ہے اور نہ ہی اللہ کی نعمتوں کا۔ مومن صالح کی آزمائش متعدد طریقوں سے ہوتی ہے کبھی فقرو فاقہ سے، کبھی آفت و بیماری سے، کبھی دشمنوں کا خوف دلا کر، کبھی ظالم و جابر حکمران کو مسلط کر کے۔ اس قسم کی آزمائش کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں سے اور جانوں سے اور پھلوں کی کمی سے۔ (البقرہ۔155)
ایک شخص بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تو فقرو محتاجی کیلئے تیار ہو جا اور فقر کی چادراوڑھ لے۔‘‘ ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا ’’میں اللہ کو محبوب رکھتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’تو بلا اور مصیبت کے لئے تیار ہو جا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) دونوں کی محبت فقر و بلا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔‘‘
اس لیے بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ محبت کے دعویٰ کے ساتھ ہی بلا مسلط کر دی گئی ہے اگر تجھ میں یہ بات (یعنی بلاؤں سے مقابلہ کی ہمت) موجود نہ ہو تو تُو محبت کا دعویٰ نہ کر۔ اگر آزمائش کا معاملہ نہ ہوتا تو ہر شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کر بیٹھتا اس لئے فقر اور بلا پر ثابت قدم رہنے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کی بنیاد بنا دیا گیا۔ (فیوض غوثِ یزدانی۔ سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ)
آزمائش کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں ہے بلکہ اللہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر نعمتوں سے نوازتا ہے اور آزمائش میں ڈالنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کے بندے جو اس سے محبت اور عشق کا دعویٰ کرتے ہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کس قدر سچے اور ثابت قدم ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرامؓ کی سیرت آزمائشوں کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو سب منکرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے دشمن ہوگئے سب کو طرح طرح کی اذیتیں، دکھ اور تکالیف پہنچائی گئیں لیکن تمام صحابہ کرامؓ نے ان سب مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا اپنے مرشد کریم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رہنمائی میں بہت ہمت سے کیا اور کوئی بھی مشکل اور آزمائش ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ لاسکی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرامؓ کبھی کوئی شکوہ اور شکایت اپنی زبان پر نہ لائے بلکہ اپنے ربّ کی دی ہوئی تمام آزمائشوں پر سرِ تسلیم خم کر دیااس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ دکھ، مشکلات اور مصائب ہر دور میں آتے رہیں گے اور نجات یافتہ وہی ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہؓ کے نقشِ پا کو چوم کر آگے بڑھیں گے۔
واقعہ کربلا آزمائش اور بلا کی بہت بڑی مثال ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنی خواہش کو پیچھے رکھا اور صرف اپنے ربّ کی رضا کو مقدم جانا اور اپنے ربّ کے فیصلے پر ثابت قدم رہے۔اسی طرح جو کوئی بھی فقر و ولایت کے مرتبہ پر فائز ہوا وہ آزمائش و بلا کے بعد ہی ہوا۔ تمام سلطان الفقر ہستیاں جو روزِ ازل سے فقر و ولایت کے مرتبہ پر فائز ہیں وہ سب بھی آزمائش سے گزری ہیں۔ مومن کو چاہیے جب اس پر کوئی آزمائش اور بلا آئے تو وہ تسلیم و رضا اور صبرو استقامت سے اس آزمائش کا سامنا کرے اور باطن میں اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل اکمل سے راہنمائی طلب کرے اور استقامت کے لئے مسلسل دعاگو رہے کیونکہ آزمائش کے وقت اپنے نفس پر قابو پانا عام بندے کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسان شکوہ و شکایت میں یا نا شکری میں مبتلا ہو جاتا ہے جو فقر کے راستے میں رکاوٹ حائل کرتی ہے۔ مرشد کامل اکمل کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے تصرف سے اپنے صادق و مخلص طالبوں کو یہ باطنی قوت عطا فرما دیتا ہے کہ وہ ہر مشکل، آزمائش اور مصیبت پر صبر کرسکیں۔ یہی صبر انہیں درجہ بہ درجہ تسلیم و رضا کی منزل تک پہنچاتا ہے اور اللہ کے قرب کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

آزمائش کے متعلق قرآنی آیات
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں آزمائش کے متعلق فرماتا ہے:
* ترجمہ: ’’کیا لوگ اس گمان میں ہیں کہ اتنی سی بات پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔‘‘ (سورۃ العنکبوت۔2 )
* ترجمہ: ’’اللہ ہی ہے جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الملک ۔2 )
* ترجمہ: ’’یقیناًہم تمہارا امتحان کر کے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو صاف معلوم کرلیں گے اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کریں گے۔‘‘ (محمد۔31 )
* ترجمہ:’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم (یونہی آزمائش کے بغیر) جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت (ہی) نہیں بیتی جو تم سے پہلے گزر چکے، انہیں تو طرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور انہیں (اس طرح) ہلا ڈالا گیا کہ خود پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی (بھی) پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ آگاہ ہوجاؤ کہ بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
* ترجمہ:’’ اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا(بھی)یقیناًکھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے ، کیا تم آزمائش پر صبر کروگے؟ اور آپ کا ربّ خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الفرقان۔20 )
احادیث مبارکہ
آزمائش کے متعلق حدیث مبارک ہے:
ترجمہ: بڑا ثواب بڑی آزمائش کے ساتھ ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کو کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جو اس آزمائش پر راضی ہوا (اوراللہ کے بارے میں غلط گمان نہ رکھا) تو اس کے لئے رضا ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہوا (اور صبر کی بجائے غلط شکوے اور گمان کیے) تو اسکے لئے ناراضی ہے۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم:192)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ انسان کامیاب ہے جسے اللہ آزمائش میں ڈالے اور وہ آزمائش میں اپنے ربّ سے راضی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:’’کسی کی دو محبوب چیزیں اس سے واپس لے لی جائیں اور وہ اس پر صبر کرے تو میں جنت کے علاوہ اس کے لئے اور کسی ثواب پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم:1959 )
جو شخص آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے کامیاب ہوجاتا ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہے اور اگر وہ آزمائشوں سے نجات پر ڈٹ جائے تو وہ راندۂ درگاہ ہوا۔
میری اپنے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں راہِ فقر میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں پر ثابت قدم رکھیں اور ہماری مدد فرمائیں


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں