امیر الکونین- Ameer Ul Konain

Spread the love

Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر7

بعض لوگ طلبِ رزق میں ہوتے ہیں لیکن رزق ان سے دور بھاگتا ہے اور بعض لوگ ایمان کے طلبگار ہوتے ہیں اور ایمان ان سے بیزار ہوتا ہے۔ جو کوئی اللہ کی طلب میں ہوتا ہے رزق اس طالب کی تلاش میں ہوتا ہے اور ایمان اس (طالب) کے وجود کی ہر ہڈی اور گوشت میں سرایت کر جاتا ہے۔ یہ مراتب ہمہ اوست ہیں۔کُلَّ شَیْئٍ مُحِیْطٌ(ترجمہ: وہ ہر شے پر محیط ہے) کے تحت ہر شے اور ذرّہ ذرّہ اس کے حکم کے ماتحت ہوتا ہے وہ نہ خدا ہوتا ہے اور نہ خدا سے جدا۔ نہ ہی خدا بندہ سے جدا ہوتا ہے بس بندہ ہی خدا سے جدائی اختیار کرتا ہے۔ بندے کو چاہیے کہ بندگی اختیار کرے کیونکہ بندگی کے بغیر زندگی سراسر شرمندگی ہے لیکن بندگی دائمی ہونی چاہیے کیونکہ ایسی دائمی بندگی سے مکمل معرفتِ حق حاصل ہوتی ہے۔ اے عزیز! انسان اپنی عقل سے پہچانا جاتا ہے اور عقل چار قسم کی ہوتی ہے۔ نفس کی عقل‘ جو دنیا اور خواہشاتِ نفس کی طلب میں ہوتی ہے۔ دل کی عقل‘ جو معرفت اور باطن کی صفائی کی طلبگار ہے۔ روح کی عقل‘ جو ناشائستہ کام اور گناہ کرنے سے حیا کرتی ہے اور سرّکی عقل‘ جو مشاہدۂ اسرار اور مشرفِ لقا کی طلبگار ہوتی ہے۔ جب یہ تمام عقول جمع ہو جاتی ہیں تو وہ عقلِ کل ہے۔ یہ عقل ایمان کی اساس ہے اور نورِ الٰہی عطا کرتی ہے جو توفیقِ الٰہی سے حضوری کی تحقیق اور وسیلہ ہے۔

ہر مطالب آخرت دریافتم
اسم اللہ پیشوائے ساختم

ترجمہ: اسمِ اللہ کو اپنا پیشوا بنا کر میں نے آخرت کے تمام مقاصد کو پا لیا۔

گم شدم در ذات وحدت لایزال
معرفت توحید اینست حق وصال

ترجمہ: میں لازوال ذات کی وحدت میں گم ہو چکا ہوں کیونکہ معرفتِ توحید یہی وصالِ حق ہے۔

توحید مثل آب جو و عارفان در آب جو
چون ماہی در آب گم شود آب گو

ترجمہ: توحید ندی کی مثل ہے اور عارفین اس میں اس طرح غرق ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں گم ہو جاتی ہے تب صرف پانی دکھائی دیتا ہے۔
پس عارف کے لیے اس مقام پر زندگی اور موت برابر ہو جاتے ہیں۔

روح بر لاہوت قالب زیر خاک
قلب در ذکر است قالب را چہ باک

ترجمہ:باھُو کا وجود قبر میں لیکن اس کی روح لاھوت میں ہوتی ہے۔ اس کا قلب ذکر میں مصروف ہوتا ہے اس لیے اس کے وجود کو (قبر میں) کوئی خوف نہیں۔

گم قبر گمنام بے نام و نشان
جثہ را باخود برد در لامکان

ترجمہ: اس کی قبر گمنام و نشان ہے کیونکہ وہ اپنے وجود کو خود لامکان میں لے گیا ہے۔
و ز خاک باھُوؒ یاھُو برآید ھُو بنام
عارفان را ذکر یاھُو شد تمام
ترجمہ: باھُو کی قبر سے ذکرِ یاھُو کی آواز آتی ہے اور عارفین کے لیے ذکرِ یاھُو ہی سب کچھ ہے۔
اے جانِ عزیز! ہر مرتبہ کی بنیاد مرتبۂ یقین ہے اور مرتبۂ یقین ان کو نصیب ہوتا ہے جو دین میں راسخ ہوں۔ یقین انبیااور اولیا جو اللہ کی طرف سے راہبر ہیں‘ کی رہنمائی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ یقین جو کفر و شرک سے باہر نکال کر خدا تک نہ لے جائے اسے یقین نہیں کہا جا سکتا۔ وہ محض غلاظتِ دل ہے جو خواہشاتِ نفس کا نتیجہ ہے۔ یقین اعتبار کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے اور اعتبار دیدار سے ہی ممکن ہے اور مرتبہ اعتبار اس فقیر عارف کو نصیب ہوتا ہے جو دیدار کرنے والے ہوں۔ اعتبار اعتقاد کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے اور اعتقاد اللہ کے ساتھ مکمل وصال کو کہتے ہیں اور وصال مکمل فنا فی اللہ اور غرق فی النور کا مرتبہ ہے جو مکمل توحید تک پہنچاتا ہے۔ ان سب مراتب کا مجموعہ صدق کہلاتا ہے۔ اور صدق اسے کہتے ہیں کہ طالبِ صادق کو رات دن آرام و قرار نہ آئے اور نہ وہ رات کو سوئے نہ دن کو سکون پائے۔ اللہ واحد کی محبت اور اس کی معرفت و وصال کے حصول کی طلب اسے اس طرح پریشان رکھے کہ صادق کو تب تک چین نہ آئے جب تک اللہ کے قرب میں نہ پہنچ جائے۔ پس طالبِ حق کے لیے مصلحت یہ ہے کہ یقین کو پختہ رکھے اور اگر باطل کی طرف بڑھے تو حق اسے باطل کی طرف بڑھنے ہی نہ دے۔ جاننا چاہیے کہ اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی حضوری خواب اور مراقبۂموت سے سخت اور غالب تر ہے کیونکہ یہ طالبِ مولیٰ کو ہوا اور بجلی سے بھی زیادہ تیزی سے دیدار اور حضوری میں لے جاتی ہے۔ جو کوئی دیدارِ نور سے مشرف ہو جاتا ہے اس کا حوصلہ اس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ دونوں جہان کا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے اور قربِ ربانی سے اسے ایسی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ مخلوق کی ملامت بھی برداشت کر لیتا ہے۔ فقیر عارف کے لیے چار گواہ ہیں۔ ایک گواہ خاموشی، دوسرااس خاموشی سے دوسروں کی عیب پوشی، تیسرا (دنیا کی خواہشات سے) آزادی اور چوتھا دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بننا۔ یہ سب اصل فقیر کے مراتب ہیں۔ اگر کوئی توفیقِ الٰہی کو چھوڑ کر ذلت اختیار کرے اور ان صفات سے موصوف نہ ہو تو اسے فقیر نہیں کہا جا سکتا۔ وہ احمق ہے جو خود کو دنیا میں ذلیل کر رہا ہے۔

شرح فقیر اہلِ ہوا و اہلِ خدا

خواہشاتِ نفس کے غلام بہت زیادہ ہیں جبکہ اہلِ خدا بہت کم ہیں۔ جان لو کہ اگر کوئی عرشِ اکبر پر نماز پڑھتا ہے تو بھی وہ فقیر عارف باللہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی چشمِ ظاہر سے لوحِ محفوظ کا دائمی مطالعہ کرتا ہو تو بھی وہ فقیر عارف باللہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی پشتِ ناخن پر دونوں جہان کا نظارہ دیکھتا ہو اور ریاضت اور مجاہدہ سے نفس کو مارتا ہو، ہر ایک فرشتہ اس کی قید میں اور ہر مؤکل اور جن اس کے حکم کے ماتحت ہو اور تمام انبیا و اولیا اللہ کی ارواح سے ملاقات کرتا ہو، کشف و کرامات سے دنیا میں عز و جاہ اور درجات حاصل کر لیے ہوں تو بھی وہ فقیر عارف باللہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ہوا میں اُڑتا ہوا عرش سے بھی اوپر ستر سالہ راہ میں چلا جائے تو بھی وہ خواہشاتِ نفس کی قید میں ہے۔ آخر فقیر عارف باللہ کون ہوتا ہے؟ فقیر عارف باللہ وہ ہے جو فنا فی اللہ ہو اور اسے قربِ رحمن حاصل ہو اور وہ لاھوت لامکان میں رہنے والا ہو۔ جو بے سر حضوری میں جاکر بے زبان اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہو اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہمیشہ حاضر رہتا ہو۔ اگر کسی کو فقر کی راہ پر چلنے سے معرفت اور قربِ الٰہی حاصل نہیں ہوتا تو وہ فقر کی راہ سے آگاہ ہی نہیں۔ فقر حضوری کی راہ ہے کہ راہِ حضوری میں مشاہدۂ حضوری گواہ ہے کیونکہ فقر اللہ کی نظر میں منظور ہوتا ہے۔ یہ اسرارِ الٰہی کی انتہا کو جاننے کی راہ ہے جو روح پر نازل ہوتے ہیں اور انبیا کا اعزاز ہیں کہ وہ اسرارِ الٰہی کے مقام پر پہنچے ہوتے ہیں جو کہ مطلق توحید کا مقام ہے اور یہ مقام طبقات اور تقلید سے پاک ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
اے جانِ عزیز! خلافِ شرع چلنے والے، طالبِ دنیا، علم کے مخالف اور جاہل، سرود سننے والے، حسن پرست، شرابی، تارک الصلوٰۃ اور اہلِ بدعت معرفتِ الٰہی، فقر اور ہدایتِ خدا سے محروم اور شیطان، خواہشاتِ نفس کے غلام ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ علم بیشمار ہیں کچھ علم ابرار اور کچھ علم خوار ہیں۔ علمِ ابرار اللہ کی معرفت، قرب اور حضوری میں پہنچاتے ہیں جبکہ علمِ خوار اللہ کی معرفت اور حضوری سے دور رکھتے ہیں۔ جناب حضرت آدم ؑ صفی اللہ کو علمِ ابرار حاصل تھا جو انہیں اللہ کی جانب سے عطا ہوا تھا اور رحمن کا قرب حاصل کرنا سکھاتا تھا۔ علمِ ابرار برحق ہے کیونکہ یہ حق کی جانب سے ہے جیسا کہ علمِ دیدار و معرفت جو علمِ عفو عطا کرتا ہے اور لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ (ہر غم اور خوف سے نجات) کے مرتبہ تک لے جاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ دونوں جہان علم کی طے میں ہیں۔ اور علم کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی طے میں ہے اور کلمہ طیب اسمِ اللہ ذات کی طے میں ہے۔ جو تصدیقِ دل سے کلمہ طیب کو اس کی کنہ جانتے ہوئے پڑھتا ہے اس سے کوئی شے اور علم مخفی و پوشیدہ نہیں رہتے۔ علمِ ظاہر اس راہ پر چلنے کے لیے ضروری ہے جبکہ علمِ باطن معرفت اور قربِ الٰہی سے عطا ہوتا ہے۔ جو کوئی علمِ باطن جو کہ توحید سے متعلق ہے‘ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے عالمِ باطن سے طلب کرے۔ علمِ باطن کا عالم وہ ہوتا ہے جس نے استادِ باطن سے ازل میں اس علم کو سیکھا تھا جب وہ سر، زبان، آنکھوں، ہاتھوں، کانوں، پاؤں اور دل سے بے نیاز تھا۔ وہ معرفتِ توحید کے علمِ فیض و فضل کو بے زبان پڑھتا ہے، بغیر کانوں کے سنتا ہے، بغیر آنکھوں کے دیکھتا ہے، بغیر پاؤں کے اسے سیکھنے کے لیے جاتا ہے اور بغیر ہاتھوں کے اسے پکڑتا ہے۔ ایسا زندہ قلب عارف دنیا و آخرت میں زندہ رہتا ہے اور ہرگز نہیں مرتا۔ ان عارفین کا وجود نور ہوتا ہے۔ وہ روشن ضمیری کا علمِ معرفتِ توحید پڑھتے ہیں اور فنا فی اللہ ہو کر حضورِ حق میں پہنچ جاتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ اس حضوری میں بھی وہ باشعور ہوتے ہیں اور ان کا وجود مغفور ہوتا ہے اور وہ معشوق (اللہ) کی شفقت سے مسرور رہتے ہیں۔یہ اس فنا فی اللہ عالم کے مراتب ہیں جس کا باطن معمور ہوتا ہے۔ جو کوئی اس عالم سے علمِ معرفتِ توحید پڑھتا ہے اسے علمِ ظاہر پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
*مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانَہٗ وَمَنْ سَکَتَ سَلَّمَ وَمَنْ سَلَّمَ نَجٰی
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچانا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی اور جو خاموش رہا وہ سلامتی پا گیا اور جو سلامتی پا گیا وہ نجات پا گیا۔
یہ مراتب عالم باللہ کے ہیں جو وہ باطن کی صفائی سے حاصل کر سکتا ہے۔ راہزنِ باطن کی شرح نفس، شیطان، خناس، خرطوم، وسوسہ، خطرات، واہمات، منافق روح، مریض قلب، دنیا کی پریشانی اور جاہل و احمق، اور باطن کی شرح جس میں توفیقِ الٰہی شامل ہو، باتحقیق باطن کی شرح، کافر باطن کی شرح، بے ریا ظاہر کی شرح اور باخبر و ہوشیار ظاہر کی شرح یہ ہے کہ جو کوئی فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خالی سمجھتا ہے وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے اور جو کوئی فقیر کو بے برکت سمجھتا ہے وہ خود بے برکت ہے۔ جو کوئی فقیر کے فقر کو بے حکمت سمجھتا ہے وہ خود بے حکمت ہوتا ہے۔ جو کوئی صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات عارف فقیر کو جاہل سمجھتا ہے تو وہ خود جاہل ہے اگرچہ وہ ظاہری علم بھی پڑھتا ہو پھر بھی وہ عالم نہیں۔ بلا شبہ وہ دنیا میں فاقہ کی مصیبت جھیل کر ہلاک ہو گا۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
*کُلُّ اِنَآئٍ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْہ  
ترجمہ: برتن سے وہی چیز برآمد ہوتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے۔
فقیر شفاف آئینہ کی مثل ہوتا ہے اس کے سامنے جو رنگ بھی ہو خواہ سرخ خواہ سیاہ‘ وہی دکھاتا ہے۔ فقیرِ کامل اور علما عامل کے ادب کا خیال ریا سے پاک ہو کے کر اگرچہ تو ان کی تصویر کسی دیوار پر لگی دیکھے۔ اگر تو عقلمند ہے تو تیرے لیے اتنا ہی اشارہ کافی ہے اور اگر تو احمق ہے تب تو نفس کا غلام ہے۔ اہلِ نفس مکھی کی مثل ہوتے ہیں جو جتنا بھی اڑلے شہباز کی پرواز تک نہیں پہنچ سکتی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
*اَلْفَقْرُ لَایُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ  
ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں۔
لایحتاج فقیر اسمِ اللہ ذات کے تصور کا حامل اور علمِ دعوت تکسیر اور علمِ کیمیا اکسیر میں کامل ہوتا ہے اور اس کی نظر سنگِ پارس کی مثل ہوتی ہے اور وہ کامل تصرف کا حامل ہوتا ہے۔ بیت:

ہم کاملم ہم عاملم ہم حق نما
احتیاج کس ندارم جز خدا

ترجمہ: میں کامل فقیر اور عامل ہوں اور مجھے حق ہی دکھائی دیتا ہے لہٰذا مجھے خدا کے سوا کسی کی ضرورت نہیں۔
مصنف فقیر جو کچھ بھی کہتا ہے وہ اپنی خواہش سے نہیں بلکہ حکمِ خدا سے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے کہتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ عارفِ خدا فقرا اپنے پاکیزہ دل وباطن کی بنا پر صراف کی مثل ہوتے ہیں اس لیے نیک و بد کو اپنی نظر سے اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح صراف سونا چاندی کو دیکھنے سے ہی پہچان لیتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ عارفِ خدا فقرا کو علمِ وارداتِ غیبی حاصل ہوتا ہے جس سے فتوحاتِ لاریبی حاصل ہوتی ہیں وہ معجزاتِ محمدی کی بدولت ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پردہ کر جانے کے بعد آپ کے فضل اور تصرف سے باقی رہ گئے۔ الہام اور علمِ غیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باطنی رفاقت سے حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے ہی ہیں۔ اس علمِ غیب پر حیران نہ ہو اور نہ ہی اس میں نقص نکال کیونکہ یہ باتحقیق طریق ہے اور جو کوئی اس میں شک کرتا ہے وہ کافروں میں سے ہے۔ جو کوئی ان مراتب پر پہنچ جاتا ہے وہ روشن ضمیر ہو کر غیب دان بن جاتا ہے اور ہر شے کو عیاں دیکھتا ہے۔ بے ایمان، کاذب و مشرک اور باایمان و صادق انسان کو پہچاننا اور روزِ جمعہ میں پوشیدہ ساعتِ نیک کو معلوم کرنا اور ننانوے اسمائے الٰہی میں پوشیدہ اسمِ اعظم کو پانا اور عام لوگوں میں پوشیدہ اولیا اللہ کو تلاش کرنا اور ماہِ رمضان میں پوشیدہ شبِ قدر کو پانا ان سب مراتب کی تحقیق بغیر ریاضت و طاعت کے توفیقِ الٰہی سے اسمِ اللہ ذات کی روحانی قوت، اولیا کی ارواح سے ملاقات اور مرشد کامل عارف باللہ اولیا اللہ صاحبِ ولایت سے ایک ہی ساعت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ
ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اس سے زمین و آسمان کی کوئی بھی شے مخفی نہیں رہتی۔
پس معلوم ہو کہ :
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرِّجَآءِ
ترجمہ: ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے۔
ایمان کے دو جز ہیں ایک جز خوف اور دوسرا جز رجا ہے۔ خوف کسے کہتے ہیں اور رجا کیا ہے؟ خوف یہ ہے کہ انسان کی نظر روزِ قیامت پر ہو اور اسے عیاں دیکھتا ہو اور خواہشاتِ نفس سے تعلق ختم کر لے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
*وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ۔فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوَیٰ   (النٰزعات40-41)
ترجمہ: اور جس نے خود کو خواہشاتِ نفس سے روکا پس اس کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جنت میں جائے گا جو باایمان ہوگا۔ ایمان کا دوسرا جز رجا ہے۔ صاحبِ عیان مقامِ ازل جو کہ مقامِ فیض و فضل ہے‘ میں اہلِ ایمان کی صف میں کھڑے ہو کراَلَسْتُ بِرَبِّکُم کی آواز سنتا ہے اور اخلاص و محبت سے ارواح کی صف میں قَالُوْا بَلٰی کہہ کر حقیقی مسلمان ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح کو فرحت حاصل ہوتی ہے اور اس پر علمِ معرفتِ توحید منکشف ہو جاتا ہے اور خدا کے دائمی استغراق میں مشغول رہتا ہے۔ یہ صاحبِ رجا اولیا اللہ کے مراتب ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
*اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔
پس ایمان کی کسوٹی اسمِ اللہ ذات، قرآن کی آیات اور احادیثِ قدسی و نبوی ہیں جو صاحبِ ایمان اور بے ایمان کی تحقیق کرتی ہیں۔ ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ جب مرشد طالبِ مولیٰ کو تصور اسمِ اللہ ذات اور تصور اسمِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ننانوے اسمائے باری تعالیٰ اور ہر ایک آیتِ قرآن اور کلمہ طیبہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے حضوری عطا کرتا ہے تو اگر طالب باایمان ہو اس کے وجود پر اسمِ اللہ ذات ، کلام اللہ، آیاتِ قرآن اور اسمِ اعظم و اسمائے باری تعالیٰ اور احادیث قرار پکڑ کر تاثیر کرتے ہیں اور طالب کو فائدہ دیتے ہیں اور اس کی عظمت اور عظیم فیض و فضل سے طالب کو قلبِ سلیم اور صراطِ مستقیم عطا ہوتے ہیں اور وہ اس حال پر قائم رہتا ہے اور مرتے دم تک اللہ تعالیٰ سے روگردانی نہیں کرتا۔ وہ ذات کی تصدیق کرتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی مثل زندہ دم اور خلقِ محمدی سے متصف ہوتا ہے اور توفیقِ الٰہی سے ایمان پر بغیر شک و شبہ کے ثابت قدم رہتا ہے۔ لیکن اگر طالب بے ایمان ہو تو شریعتِ محمدی اور اسمِ اللہ ذات اس کے وجود میں قرار نہیں پکڑتے اور آیاتِ قرآن اسے فائدہ نہیں دیتیں اور نہ ہی اسمائے الٰہی تاثیر کرتے ہیں اور اس سے اسمِ اعظم جاری نہیں ہوتا۔ اگر وہ دعوت پڑھتا ہے تو بے اعتقاد ہو کر رجعت خوردہ ہو جاتا ہے اور کلامِ الٰہی سے بے یقین اور خواہشاتِ نفس کا تابع ہوتاہے۔ مصاحبِ شیطان بن کر مشرک و بے دین ہو جاتا ہے اور کمینی دنیا اور حقیر نفس کا طلبگار رہتا ہے جو ہمیشہ خودی اور چوں و چرا میں مبتلا ہوتا ہے۔ بیت:

ہر کہ با ایمان بود حاضر دوام
در طلب مولیٰ بود ایمان تمام

ترجمہ: جو کوئی صاحبِ ایمان ہو اسے دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے کیونکہ طلبِ مولیٰ سے ہی ایمان کامل ہوتا ہے۔
ایمان اعتقاد سے اور اعتقاد اعتبار سے اور اعتبار دیدار سے حاصل ہوتا ہے اور دیدار قلب کی بیداری سے ممکن ہے۔ ان مراتب کو ہر کوئی جو احمق اور حیوانات کی مثل ہو، نہیں جان سکتا۔ حصارِ ایمان اللہ کی محبت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہے اور دیگر تمام محبتیں ان دو محبتوں پر انحصار کرتی ہیں۔

ہر کہ این راہے نداند سر ہوا
اہل ایمان دائمی شد با خدا

ترجمہ: جو کوئی اس راہ کو نہیں جانتا وہ خواہشاتِ نفس کا غلام ہے جبکہ اہلِ ایمان ہمیشہ خدا کے ساتھ ہوتا ہے۔ (جاری ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں