کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر37 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جان لو کہ جب صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات حروفِ اسمِ اللہ ذات میں غرق ہوتا ہے تو اسمِ اللہ ذات کا ہر حرف زمین و آسمان کے ہر طبق، عرش و کرسی، لوح و قلم بلکہ دونوں جہان سے وسیع نظر آتا ہے۔ جو اس وسیع مقام میں آ جائے وہ تجرید و تفرید سے گزر کر معرفتِ توحیدِ مطلق اور فنا فی اللہ بقا باللہ کے مراتب پا لیتا ہے۔ جو اسمِ اللہ ذات کے ہر حرف کا محرم ہو جائے وہ اہلِ ذات ہے اور اس کا وجود مکمل طور پر پاک ہو جاتا ہے۔ جو اسمِ اللہ ذات کے پاک حروف میں محو رہتا ہو اسے روزِ قیامت کے حساب کا کیا خوف؟ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
جو شخص اسمِ اللہ ذات کے حروف کی معرفت کا محرم ہو جائے دنیا و آخرت میں جو کچھ ہے سب کچھ اس عارف پر منکشف ہو جاتا ہے اور وہ معروف و مکشوف بن جاتا ہے۔ مخلوق کی نظر میں وہ حقیر اور کمتر ہوتا ہے لیکن باطن میں ہوشیار ہوتا ہے اور تمام انبیا و اولیا اللہ اہلِ جنت کی ارواح اس (سے ملنے) کی مشتاق ہوتی ہیں۔ ایسے عارف کو حروفِ ذات کا عارف باللہ بھی کہتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ عارف باللہ کا بیٹھنا اور اٹھنا یا جو بھی کام وہ کرتا ہے وہ اللہ کے حکم و حضوری اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے ہوتا ہے۔ اس کا کوئی بھی دینی اور دنیوی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃِ
ترجمہ: حکیم کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
ان کا ہر حال، قول، عمل اور فعل معرفتِ الٰہی اور وصال پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ ان کی اصل تصور اسمِ اللہ ذات ہے اور ان کا ہر کام وصال سے متعلق ہے اگرچہ مخلوق کی نظر میں ان کے کام گناہ ہوتے ہیں لیکن خالق کی نظر میں وہ درست اور راستی کے کام ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کی راہ اور گناہ ایک دوسرے سے مختلف تھے جیسا کہ سورۃ الکہف میں بیان ہوا ہے حضرت خضر ؑ نے کشتی کو ڈبو دیا اور شکستہ دیوار کو دوبارہ بنا دیا اور بچے کو قتل کر دیا۔
قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ (سورۃ الکہف۔78)
ترجمہ: (حضرت خضر ؑ نے) فرمایا یہ میر ے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے۔
جان لو کہ خشکی و تری اور بحر و بر کی کوئی بھی شے چاہے وہ مخلوق سے متعلق ہو یا توحید سے متعلق‘ قرآن کی آیات سے باہر نہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَط وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِط وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۔ (سورۃ الانعام۔59)
ترجمہ: اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی و تری میں ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک مگر ہر شے کتابِ مبین میں (درج) ہے۔
قرآن کی ہر آیت خاصیت و حکمت رکھتی ہے اور اللہ کے حکم سے درجات عطا کرتی ہے اور ہر ایک آیت میں کامل حکمت، معرفت، جمعیت، عنایت، ولایت اور ہدایت پائی جاتی ہے۔ عارف باللہ کامل ان تمام کو حاصل کرتا ہے۔ جو ان آیات (کی حکمت) سے بے خبر ہو وہ ناقص، خام اور بے معرفت ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (سورۃ الجمعہ۔2)
ترجمہ: اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان پر آیات تلاوت کرتے ہیں اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور اس سے قبل وہ صریح گمراہی میں تھے۔
قرآن اور اس کی آیات سے حاصل ہونے والے یہ تمام مراتب اور احوال ارکانِ ایمان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے ایک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا درست اقرار ہے اور دوسرا ذکر ِ قلب کی تسبیح و تحقیق سے اس کی تصدیق ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ (سورۃ المجادلہ۔22)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر (اللہ نے) ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی مدد اس نے اپنی روح سے کی۔
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لاَ یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًاط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃ الحجرات۔14)
ترجمہ: دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرو تو اللہ تمہارے اعمال (کے اجر) میں سے کچھ ضائع نہ کرے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
قلب تین قسم کا ہے اور اس کے تین نام ہیں قلبِ منیب، قلبِ شہید اور قلبِ سلیم۔ ان سے موافق تین آیات ہیں اور یہ آیات قلب سے متعلق ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ لا۔ڑ ادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذَالِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ۔ (سورۃ ق۔33-34)
ترجمہ: جو رحمن سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہے اور جس نے قلبِ منیب پیش کیا اسے سلامتی سے (جنت میں) داخل کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ کا دن ہے۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ۔ (سورۃ ق۔37)
ترجمہ: بے شک اس میں ان کے لیے نصیحت ہے جو صاحبِ قلب ہے یا کان لگا کر سنتا ہے اور وہ اس کا گواہ ہے۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ لا۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (سورۃ الشعرائ۔88-89)
ترجمہ: اس (قیامت کے) دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد بلکہ وہ جس نے قلبِ سلیم پیش کیا ہوگا۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ (سورۃ الاحزاب۔4)
ترجمہ: اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔
وَ اِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ط نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۔لا عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۔ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۔ط وَ اِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ۔ اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ۔ط وَ لَوْ نَزَّلْنٰہُ عَلٰی بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ۔لا فَقَرَاَہٗ عَلَیْھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃ الشعرائ۔192-199)
ترجمہ: اور بیشک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے ربّ کا نازل کردہ ہے۔ اسے روح الامین (جبرائیل ؑ ) لے کر اترے ہیں۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔ (اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں ہے۔ اور بے شک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔ اور کیا ان کے لیے یہ دلیل (کافی) نہیں کہ اسے بنی اسرائیل کے علما (بھی) جانتے ہیں۔ اور اگر ہم اسے غیر عربی لوگوں (یعنی عجمیوں) میں سے کسی پر نازل کرتے سو وہ اس کو ان لوگوں پر پڑھتا تو (بھی) یہ لوگ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے۔
مردہ دل ہمیشہ ظلمات و تاریکی میں رہتا ہے جبکہ زندہ دل ہمیشہ معرفتِ الٰہی میں غرق رہتا ہے جو کہ جاودانی حیات کا باعث ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیَآئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ (سورۃ البقرہ۔257)
ترجمہ: اللہ مومنین کا دوست ہے جو انہیں ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور جو لوگ کفر کرتے ہیں ان کی دوست شیطانی طاقتیں ہیں جو انہیں نور سے نکال کر ظلمات میں لے جاتی ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْقَلْبُ عَلٰی ثَلٰثَۃِ اَنْوَاعٍ قَلْبُ مُّنِیْبِ وَ قَلْبُ الشَّھِیْدِ وَقَلْبُ السَّلِیْمِ اَمَّا قَلْبُ مُّنِیْبُ الَّذِیْ یَکُوْنَ فِیْ طَاعَۃٍ اَبَدًا وَ اَمَّا قَلْبُ الشَّھِیْدُ الَّذِیْ یَکُوْنَ فِیْ مَعْرِفَۃِ اَسْرَارِ الْعٰلَمِیْنَ وَ اَمَّا قَلْبُ السَّلِیْمُ الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ مَا سِوَی اللّٰہِ
ترجمہ: قلب تین قسم کا ہے قلبِ منیب، قلبِ شہید اور قلبِ سلیم۔ قلبِ منیب وہ ہے جو ہمیشہ اطاعت میں رہتا ہے۔ قلبِ شہید وہ ہے جو اسرارِ دوجہان کی معرفت میں مشغول رہتا ہے اور قلبِ سلیم وہ ہے جس میں اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں ہوتا۔
مصنف کہتا ہے کہ قلب کے دو بنیادی اور انتہائی مراتب ہیں ایک قلبِ غلیظ جو خطراتِ شیطانی و نفسانی اور حوادثاتِ دنیا کی پریشانیوں کے باعث مکمل بیمار اور مریض ہوتا ہے اور تب تک دوا کے بغیر اور اللہ کی رحمت و معرفت کی نگاہ سے محروم رہتا ہے جب تک مکمل اخلاص کے ساتھ اللہ کی جانب نہیں آتا اور قلب کی بیماریوں سے شفا کے لیے قلوب کے طبیب مرشد کی طلب نہیں کرتا۔ جو طبیب القلوب مرشد کی طلب نہیں کرتا اس کا قلب مرض کی وجہ سے روز بروز سیاہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر سلب ہو جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (سورۃ البقرہ۔10)
ترجمہ: ان کے قلوب میں بیماری ہے پس اللہ نے اس بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔
پس معرفتِ الٰہی کے لیے علمِ فضیلت حاصل کرو جس کا وسیلہ مرشد ہے۔ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات مرشد زندگی و موت میں نجات کا وسیلہ ہے۔
اَلشَّیْخُ یُحْیِ الْقَلْبَ وَ یُمِیْتُ النَّفْسَ
ترجمہ: شیخ قلب کو زندہ کرنے والا اور نفس کو مارنے والا ہوتا ہے۔
دوم قلب جو ذکرِ اللہ سے پاک وصاف اور اللہ کی بارگاہ میں برگزیدہ ہوتا ہے یہ قلب معرفتِ الٰہی کے اسرار کا حامل ہوتا ہے۔ ایسا قلب نورِ الٰہی سے پرُ ہوتا ہے اور صاحبِ زندہ قلب دائمی حضوری کا حامل ہوتا ہے۔
بیت:
دل یکی است نظر گاہِ ربانی
خانہ دیو را چہ دل خوانی
ترجمہ: دل ایک ہی ہوتا ہے جو اللہ کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ اس نفس دیو کے گھر کو تو دل کیسے کہہ سکتا ہے؟
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ (سورۃ التغابن۔11)
ترجمہ: اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اس کے قلب کو ہدایت فرما دیتا ہے۔
بیت:
از دل بدر کن بیشہ خطرات را
تا بیابی وحدتِ حق ذات را
ترجمہ: اپنے دل سے خطرات کے جنگل کو نکال دے تاکہ تو ذاتِ حق کی وحدت تک پہنچ سکے۔
اہلِ ذکر اور اہلِ باطن صاحبِ معرفت کے لیے سکر و مستی سراسر خام اور ناقص ہوتی ہے کیونکہ نامکمل و ناتمام ہونا زبان کا عالم اور دل کا جاہل بناتا ہے۔ بیت:
دل صفا پرُ نور اللہ ذات راز
اہل دل را دائمی باحق نماز
ترجمہ: باصفا دل اللہ کے نور اور اسرار سے پرُ ہوتا ہے کیونکہ اہلِ دل حق کے ساتھ دائمی نماز میں مشغول ہوتے ہیں۔
فقیر باھوؒ کہتا ہے:
خام را مستی بود وہم از خیال
مست را ہشیار گرداند وصال
ترجمہ: خام کی مستی اس کے وہم اور خیال کے باعث ہوتی ہے جبکہ وصال کے بعد حاصل ہونے والی مستی مزید ہوشیار بنا دیتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِتَّقُوْا اَلْعَالِمَ الْجَاہِلَ قِیْلَ مَنِ الْعَالِمَ الْجَاہِلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ عَالِمَ اللِّسَانِ وَجَاہِلَ الْقَلْبِ
ترجمہ: جاہل عالم سے ڈرو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! جاہل عالم سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جو زبان کا عالم ہو مگر دل سے جاہل ہو۔
مصنف کہتا ہے کہ علم چار طرح کے ہیں اور جو ان چاروں علوم کو حاصل کر لیتا ہے وہ فاضل، مرد اور لائقِ ارشاد ہوتا ہے۔ جبکہ ناقص مرشد فساد کا باعث ہے۔ وہ چار علوم یہ ہیں علمِ لسان، علمِ قلب، علمِ روح اور علمِ سِرّ۔ جو ان چاروں علوم پر دسترس حاصل کر لیتا ہے تو لوحِ ضمیر پر درج علم اس پر کھل جاتا ہے کہ ہر علم کے درمیان ستر ہزار نفسانی و جسمانی، قلبی و روحانی اور سِرّی و لامکانی حجابات ہیں۔
اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَرِ
ترجمہ: علم حجابِ اکبر ہے۔
جو ہر ایک علم کو حاصل کر کے فارغ ہو جائے تب وہ معرفتِ الٰہی میں قدم رکھتا ہے اور اولادِ آدم ہونے کا حق ادا کر کے انسانیت کا بزرگ مقام حاصل کرتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (سورۃ بنی اسرائیل۔70)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی۔
پس یہ ہر ایک مقام قلب کے اندر ہے اور قلب سے ہی کھلتا ہے۔ قلب سے مراد غلیظ خون سے پرُ گوشت کا لوتھڑا نہیں ۔ قلب نورِ الٰہی سے پرُ ہے جو وہم اور عقل میں نہیں آ سکتا۔ قلب کی پہچان بھی ایک عظیم مرتبہ ہے اگر تو اسے حاصل کر کے عزت و شرف پائے تو اس مرتبہ پر فریفتہ اور مغرور نہ ہو بلکہ اس سے بھی آگے غرق فنا فی اللہ، معرفتِ الٰہی، قرب اور حضوری کے مراتب ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ (سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں۔
قدرتِ الٰہی سے الہام مذکور، قرب، مشاہداتِ تجلیاتِ ذات، حضوری اور معرفت انسان کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں (یعنی انہیں پانا بہت آسان ہے)۔ پس معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ سے کلام کے لیے کوہِ طور پر جاتے تھے اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصل پیروکاروں کا وجود کوہِ طور کی مثل ہے اور وہ شہ رگ سے نزدیک ذات سے کلام کرتے ہیں۔ اس ربّ الارباب سے ذکر اور حضوری کے ذریعے جواب پاتے ہیں۔ ہاں یہ یقین ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصل پیروکار وسیع حوصلہ رکھتے ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ذرئہ تجلی سے بے ہوش ہو گئے اور تین رات دن تک ایسے ہی پڑے رہے۔ پھر جیسے ہی ہوش میں آئے تو بولے:
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃ الاعراف۔143)
ترجمہ: (اے اللہ!) تیری ذات پاک ہے۔ میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں اوّل ایمان لانے والا ہوں۔
لیکن ستر ہزار تجلیاتِ ذات نگاہِ رحمت سے ہر دم ہر گھڑی عارفین فقرا کے دلوں پر نازل ہوتی ہیں اور وہ اپنی حالت بھی تبدیل نہیں کرتے بلکہ اپنے حال پر برقرار رہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْعُلْمَآئُ اُمَّتِیْ خَیْرٌ مِّنْ اَنْبِیَآئِ بَنِیْٓ اِسْرَائِیْلَ
ترجمہ: میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا سے بہتر ہیں۔
علما سے مراد عارف فقیر ہیں جو ظاہری و باطنی دونوں علوم کو اپنے عمل میں رکھتے ہیں۔ فقیرِ کامل علما عامل ہے نہ کہ صرف علم کا حامل۔
کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ
اَسْفَارًا (سورۃ الجمعہ۔5)
ترجمہ: ان کی مثال اس گدھے سی ہے جس نے کتابوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ عارفین کا سینہ تجلی ٔ ذات کے غلبہ اور ذکر کی سوزش سے اس قدر کشادہ اور صاف ہو چکا ہوتا ہے کہ چودہ طبقات ان کے سینے میں سما جاتے ہیں اور معلوم بھی نہیں ہوتا جیسے ن کے اندر نقطہ۔
رباعی:
ای سرّ تو در سینہ ہر صاحب راز
پیوستہ در رحمت تو بر ہمہ باز
ترجمہ: اے اللہ! تیرا سِرّ ہر صاحبِ راز کے سینہ میں ہے۔ تیری رحمت کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھلا ہے۔
ہر کس کہ بہ درگاہِ تو آید بہ نیاز
محروم ز درگاہِ تو کی گردد باز
ترجمہ: جو تیری بارگاہ میں عاجزی سے آئے وہ تیری بارگاہ سے کیسے محروم جا سکتا ہے؟