خودی سے خدا تک Khudi sy Khuda tk


4.7/5 - (40 votes)

خودی سے خدا تک Khudi sy Khuda tk

تحریر: عثمان صادق سروری قادری

انسان کو اپنی زندگی میں اللہ کی تفویض کردہ ذمہ داریوں، اعمال اور مواقع کو غور سے دیکھنا چاہیے کیونکہ وہی اس کے روحانی مقام کے عکاس ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دین کی خدمت میں مصروف ہے، علم و عبادت میں مشغول ہے یا نیکی کے کاموں میں سرگرم ہے تو یہ اللہ کے نزدیک اس کے اعلیٰ مقام کی علامت ہے اس کے برعکس اگر کوئی دنیاوی لذات اور گناہوں میں مشغول ہے تو اسے اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔

 حضرت ابنِ عطا اللہ سکندریؒ ’’الحکم العطائیہ‘‘میں فرماتے ہیں:
اذا اردت ان تعرف مقامک عند اللہ فانظر فیما اقامک 
ترجمہ: اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تمہارا اللہ کے نزدیک مقام کیا ہے تو دیکھو کہ اس نے تمہیں کن کاموں میں مشغول کر رکھا ہے۔

اس قول کی شرح سے جو پہلو نکلتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
       اگر وہ تمہیں اپنے ذکر میں مشغول رکھے تو جان لو کہ وہ تمہیں یاد رکھنا چاہتا ہے۔
اگر تمہیں قرآن میں مصروف کرے تو سمجھ لو کہ وہ تم سے ہم کلام ہونا چاہتا ہے۔
اگر تمہیں نیک اعمال میں مصروف کرے تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنے قریب کرنا چاہتا ہے۔
اگر دنیاوی معاملات میں الجھائے تو یہ سمجھو کہ تمہیں خود سے دور کر رہا ہے۔
اگر تمہیں لوگوں کے معاملات میں مصروف رکھے تو جان لو کہ وہ تمہیں بے وقعت کرنا چاہتا ہے۔
اگر دعا میں مشغول کرے تو یقین کرو کہ وہ تمہیں نوازنا چاہتا ہے۔
اگر فائدہ مند علم میں مصروف کرے تو وہ چاہتا ہے کہ تم اس کی معرفت حاصل کرو۔
اگر تمہیں جہاد فی سبیل اللہ میں لگائے تو وہ تمہیں اپنے لیے چننا چاہتا ہے۔
اگر خدمتِ خلق اور بھلائی کے کاموں میں مشغول کرے تو جان لو کہ وہ تمہیں اپنی محبت والے کاموں میں لگا رہا ہے۔
اور اگر تمہیں غیر ضروری کاموں میں مصروف کرے تو سمجھو کہ تمہیں اپنی محبت سے نکال رہا ہے۔

لہٰذا ہوش کے ناخن لو اور اپنے حال پر غور کرو کہ تم کس کام میں مشغول ہو، کیونکہ تمہارا مقام وہی ہے جہاں اللہ نے تمہیں مصروف رکھا ہے۔

عرفانِ نفس 

مولائے کائنات، باب العلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان مبارک ہے :
کَفٰی بِالْمَرْئِ جَہْلًا اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَہٗ (نہج البلاغہ۔ خطبہ 16)
ترجمہ: انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔

انسان محض گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اسے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ یہ ساری مخلوقات پر اس لیے برتری رکھتا ہے کہ اس کے پاس شعور، عقل اور فہم کی دولت ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو اسے اچھائی و برائی اور نفع و نقصان میں فرق کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل قدر و منزلت اسی میں ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانے۔ اگر وہ ساری دنیا کے علم سے واقف ہو لیکن خود اپنی پہچان سے محروم رہے تو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ جانوروں میں اپنی شناخت کی صلاحیت نہیں مگر انسان کے پاس یہ نعمت موجود ہونے کے باوجود اگر وہ اسے استعمال نہ کرے تو اس سے بڑا جاہل کوئی نہیں۔ بقول اقبالؒ:

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی

عرفانِ نفس یعنی معرفتِ ذات کے متعلق میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا ‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں:
جب سے انسان نے اس سیارہ جسے زمین کہتے ہیں، پر قدم رکھا ہے اس کے ذہن میں ہمیشہ ایسے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں:
میں کون ہوں؟
میری ابتدا کیا ہے؟
میری انتہا کیا ہے؟
میری حقیقت کیا ہے؟
میری پہچان کیا ہے؟
میرا مقصدِحیات کیا ہے؟

ان جوابات کی تلاش کے لیے انسان نے جب بھی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کے لیے ہر دور میں اور اس زمین کے ہر خطہ میں اپنے نبی اور رسول بھیجے جو انسان کو اِن سوالات کے جوابات سے مطلع فرماتے رہے۔ 

اللہ تعالی نے حدیثِ قدسی میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْق 
ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ 
ترجمہ:جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقینا اپنے ربّ کو پہچانا۔

اسی عرفانِ نفس کو علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی شاعری میں جا بجا خودی کا نام دیا ہے اور کہیں من، دل اور روح کی اصطلاحات بھی استعمال کی ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی 

ایک اور جگہ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مد ظلہ الاقدس ارشاد فرماتے ہیں:
آج کا انسان آفاق میں گم ہے اور اگر وہ اپنی ہستی کو پہچان لے تو ’’آفاق‘‘ اسے اپنے اندر دکھائی دے۔ (شمس الفقرا)
قرآنِ مجید میں بھی بارہا مقامات پر انسان کے باطن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْن  (سورۃالذاریات۔21)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔

وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد  (سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔

اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت بو علی شاہ قلندرؒ فرماتے ہیں:

یار در تو پس چرائی بے خبر

ترجمہ: یار تیرے اندر ہے تو کیوں بے خبر ہے۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کا فرمانِ عالیشان ہے:
اپنے اندر اپنی حقیقت تلاش کر۔ تیری حقیقت تو وہ ذات ہے جو تیری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ تیری اپنی ہی ذات کی تلاش میں تجھے وہ ذات مل جائے گی۔

 اپنے باطن کو بیدار کر کیونکہ وہی اصل انسان ہے۔ اسی کا کام عبادت ہے۔ وہی جنت والا اوروہی دوزخ والا ہے۔ جس کا باطن درست ہو گیا اس کا ظاہر بھی درست ہو گیا۔
ساتھ ہی اس بند باطن کو کھولنے کا طریقہ بتاتے ہوئے آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:
اگر تو باطن کا بند قفل کھولنا چاہتا ہے تو اس کی کلید کسی مردِکامل (مرشد کامل اکمل) سے حاصل کر۔ باطن کے قفل کو کھولنے والی چابی اسمِ اللہ ذات ہے۔

اسمِ اللہ ذات کے متعلق میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مد ظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
اللہ تعالیٰ کے قرب، مشاہدہ، وصال اور لقا کا راستہ بغیر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہر گز نہیں کھلتا۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

 اسمِ اللہ ذات ہی اسم ِاعظم ہے لیکن یہ اس وقت دل میں قرار پکڑتا ہے جب مرشد کامل اکمل تلقین فرماتا ہے۔
معزز قارئین کرام! ان دلائل کے بعد یہ بات تو بہر صورت اظہر من الشمس ہے کہ انسان کی اصل کامیابی معرفت و رضائے الٰہی کے حصول سے مشروط ہے جس کا راز اسمِ اللہ ذات میں پنہاں ہے اور اس کا وسیلہ فقط مرشد کی ذات ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ عشق ِحقیقی کی منازل تک رسائی کے لئے مرید یعنی طالب یا سالک کو کڑی آزمائشوں سے گزارا اور پرکھا جاتا ہے جیسے ایک جوہری سونے کو آگ کی بھٹّی سے گزار کر اس کا کھرا اور کھوٹا الگ کرتا ہے اسی طرح مرشد کامل بھی اپنے مریدوں کو ظاہری و باطنی آزمائشوںاور امتحانات سے گزار کران کے دل سے غیر اللہ کو نکال باہر کرتا ہے۔

یاد رہے! راہِ فقر گفتار نہیں کردار کا سفر ہے جہاں قیل و قال کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس راہ میں جہاں ایک طرف انسان کا اپنا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے وہیں دوسری سمت دنیا و شیطان بھی مثل ِ رہزن اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ طالبِ حق پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

دنیا کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دورِ حاضر کے انسانِ کامل، فقیر مالک الملکی، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ارشاد فرماتے ہیں:
ہر وہ چیز دنیا ہے جو اللہ کی یاد سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول یا متوجہ کر لے۔
ہر وہ چیز جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا آپ کے دل کو اپنی محبت میں گرفتار کر لے، وہ دنیا ہے۔
یہ دنیا ہی ہے جو بندے کو اللہ کی معرفت اور وصال سے روکتی ہے۔(تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

 یہ دنیاکی محبت اور خواہشاتِ نفسانی کی فراوانی ہی ہے جس نے انسان پر غفلت کے پردے ڈال کر اسے معرفتِ حق سے محروم اور ہلاکت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ۔لا حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔  (سورہ التکاثر  2۔1)
ترجمہ: تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں:
تَخَفَّفُوْا تَلْحَقُوْا  (نہج البلاغہ ،خطبہ 21)
ترجمہ: اپنا بوجھ ہلکا کر لو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو۔ 

انسان اس دنیا میں ایک مسافر کی مانند ہے جو ایک مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کچھ لوگ اپنا سفر مکمل کر کے منزل تک پہنچ چکے ہیں جبکہ کچھ ابھی راستے میں ہیں۔ انسان کی حقیقی منزل وہ کمال ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا اور اسی سفر کو عرفان کی زبان میں سلوک الی اللہ کہا جاتا ہے۔ زندگی ایک وسیع و بے کراں سمندر کی مانند ہے جہاں انسان کی کشتیٔ حیات لنگر انداز ہے۔ مگر اس سمندر میں تیز ہوائیں، بپھری لہریں اور خوفناک طوفان ہمیشہ اس کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایسے میں جتنا سامان کم ہوگا، سفر اتنا ہی آسان اور اطمینان بخش ہوگا۔ کبھی ایسا بھی وقت آتا ہے کہ نجات کے لیے انسان کو اپنا قیمتی سامان بھی سمندر میں پھینکنا پڑتا ہے۔ ایک باکمال انسان کا دل بھی اسی کشتی کی طرح مختلف خیالات، دنیا کی محبت، مال و دولت کی کشش اور خواہشات کی آندھیوں سے ٹکراتا رہتاہے۔جو شخص ان فریب کار محبتوں اور خواہشات کے بوجھ سے خود کو آزاد کر لیتا ہے وہی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ لیکن جو اِن کے بوجھ تلے دب جاتا ہے وہ ناکامی اور نامرادی کا شکار ہو جاتا ہے۔

حاصلِ کلام:

آپ کی زندگی ایک خالی کتاب کی مانند اور آپ کا ہر عمل قلم کی مثل ہے۔ اس میں صرف وہی کچھ لکھا جا رہا ہے جو آپ خود لکھ رہے ہیں۔ کسی دوسرے کو ہر گز یہ اختیار نہیں کہ اس میں ایک نقطہ بھی بڑھا یا گھٹا سکے۔ آخر ایک دن آئے گا جس کے متعلق ارشاد ہوا:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ط وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔  (سورۃ الزلزال ۔ 7-8)
ترجمہ: تو جس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ بھر برائی کی ہو گی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔

خدائے لم یزل کا سیدھا سا اصول ہے کہ اپنی کتابِ زندگی کے ہر ہر ورق اور اس پر تحریر ہر ہر عمل کے ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں۔ سوچئے! کل یہی کتاب آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور شہنشاہ واحد و قہار آپ سے فرمائے گا:
اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔  (سورۃ بنی اسرائیل ۔ 14)
ترجمہ: پڑھ اپنی کتاب، آج اپنا حساب جانچنے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

آئیں !اپنی کتاب کو جامع بنائیں، بے عمل زندگی کو با عمل اور بے روح عبادتوں کو کامل بنائیں۔ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اللہ ذات کی لازوال نعمت حاصل کریں، اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان حاصل کر کے مقصد ِحیات پا لیں اور دائمی کامیابی کے سفر پر گامزن ہوں۔ 

استفادہ کتب:
1 نہج البلاغہ: امیرالمومنین حضرت علیؓ کے منتخب خطبات و خطوط
2۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
3 ۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکشنز
4 ۔الحکم العطائیہ: حضرت ابنِ عطا اللہ سکندریؒ

 

اپنا تبصرہ بھیجیں