لذتِ شوق Lazzat-e-Shauq
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
کس بھی منزل و مقام پر پہنچنے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے اوّل علم، دوم شوق، سوم رفیقِ راہ۔ علم سے مراد ہے جاننا، آگاہی، واقفیت، ادراک، پہچان، معرفت۔ اگر کوئی کام کرنا ہو یا کسی راستہ پر سفر کرنا ہو تو پہلے اس کام یا راستہ کے متعلق مکمل آگاہی بہت ضروری ہے۔ اگر انسان کسی سفر کا ارادہ کرے اور اس کو معلوم ہی نہ ہو کہ اس کی منزل تک جانے والا راستہ کونسا ہے اور اس راستے میں کیا کیا مشکلات اور مسائل درپیش ہو سکتے ہیں تو وہ انسان اپنی منزل پر کیسے پہنچے گا۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنے یا اس کی معرفت اور قرب حاصل کرنے کے لیے علم بہت ضروری ہے کیونکہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانے کے لیے نکلتا ہے تو اسے لازماً یہ علم ہونا چاہیے کہ کونسا راستہ اسے اللہ تعالیٰ تک پہنچائے گا اور اس راستہ میں زادِ راہ کیا ہے۔ جو علم کے بغیر اس راستہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
واضح رہے کہ جو شخص فقر پر قدم رکھتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے آپ کو علمِ ظاہری و باطنی میں آزمائے کیونکہ اگر جاہل آدمی فقر شروع کرے گا تو آخرکار وہ مجنون اور پریشان ہو کر رجعت کھا کر دیوانہ اور کافر ہو جائے گا اور اس کا دل سلب کر لیا جائے گا جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جس نے علم کے بغیر زہد کیا وہ آخری عمر میں یا دیوانہ ہو کر مرے گا یا کافر۔‘‘ (امیر الکونین)
علم حاصل ہونے کے بعد راستہ چلنے کے لیے دوسری اہم چیز شوق ہے۔ شوق کی غیر موجودگی میں علم حاصل ہونے کے باوجود بھی راستہ چلنا مشکل ہے۔ شوق ہی آگے بڑھنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتا ہے، راستے کی دشواریوں سے نپٹنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
علم کی حد سے پرے، بندۂ مومن کے لیے
لذتِ شوق بھی ہے ، نعمتِ دیدار بھی ہے
(بالِ جبریل)
روایت ہے کہ مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ ایک نعت لکھنے کے بعد حج کے لیے تشریف لے گئے۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہوکراس نعت کو پڑھیں گے، چنانچہ جب حج کے بعد مدینہ منورہ حاضری کا ارادہ کیا تو امیرِمکہ نے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا کہ اس کو (یعنی جامی کو) مدینہ نہ آنے دیں۔ امیرِمکہ نے ممانعت کردی مگر ان پر جذب وشوق اس قدر غالب تھا کہ چھپ کر مدینہ منورہ کی طرف چل دیے۔ امیرِمکہ نے دوبارہ خواب دیکھا، حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا وہ آرہا ہے، اس کو یہاں نہ آنے دو۔ امیرِمکہ نے آدمی دوڑائے اور ان کو راستہ سے پکڑوا کر بلایا، ان پر سختی کی اور جیل میں ڈال دیا۔ اس پر امیرِمکہ کو تیسری مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا یہ کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ اس نے کچھ اشعار کہے ہیں جن کو یہاں آکر میری قبر پر کھڑے ہوکر پڑھنے کا ارادہ کررہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے مصافحہ کے لیے قبر سے ہاتھ باہر نکالنا پڑے گا جس میں فتنہ ہوگا، اس پر ان کو جیل سے نکالا گیا اور بہت اعزار واکرام کیا گیا۔
یہ ہے شوق کی ایک مثال۔ طالب میں شوق ہو تو ایسا کہ لمحہ بھر دیدارِ یار کے بغیر سکون کا سانس نہ لینے دے۔
پس جب انسان ضروری علم حاصل کر لیتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ فقر کی راہ پر چلنے کے لیے مرشد کامل اکمل کا ساتھ کس قدر ضروری ہے کیونکہ مرشد کامل اکمل ہی اللہ تک پہنچنے کا واحد وسیلہ ہے۔ لہٰذا ایک طالبِ صادق پر مرشد کے دیدار اور ملاقات کا شوق ہر لمحہ غالب رہتا ہے۔ اس کے لیے مرشد سے دور رہنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جوں جوں طالب کے شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مرشد کی طالب پر توجہ بھی بڑھ جاتی ہے۔ شوق کے بغیر مرشد کی توجہ حاصل کرنا ممکن نہیں اور مرشد کے بغیر اللہ تعالیٰ تک پہنچنا بھی محال ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
اَلرَّفِیْقُ ثُمَّ الطَّرِیْقُ
ترجمہ: پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو۔
شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مرشد سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں لکھی گئی سی حرفی میں فرماتے ہیں:
اﷲ دی خبر نہ بھلیاں نوں، بھلے پیر توں ربّ توں بھل گئے
رفیق بناں طریق ناہیں، اوجھڑ جنگل دے وچ رُل گئے
ہویا علم حجاب کبیر اکبر، تولے نفس ہوا دے تلُ گئے
سلطان بہادر شاہؒ جنہاں پیر پا لیا، آہے جز تے ہو اوہ کلُ گئے
اس بیت میں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ نے مرشد کامل اکمل کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کیا ہے کہ جو لوگ مرشد کی اہمیت اور ضرورت سے ناواقف ہیں یا وسیلہ کے خلاف ہیں وہ اللہ کی معرفت سے انجان ہوتے ہیں۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ناممکن ہے کیونکہ حق کا راستہ پرُخطر ہے جس میں بے شمار رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں اور مرشد کامل اکمل نفس و شیطان کے چنگل سے بچاتے ہوئے اور تمام منازل و مقامات طے کرواتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور لے جاتا ہے۔ محض کتابیں پڑھ لینے سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی علم ہی حجاب کی مثل بن جاتا ہے۔
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی شخص اپنا تزکیہ اپنے تئیں نہیں کر سکتا کیونکہ مرشد کامل کے بغیر نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا بلکہ علم حاصل ہونے کے بعد نفس کا غلبہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ علم پر مغرور ہونا اور یہ سمجھنا کہ ہر حقیقت سے آشنائی حاصل ہو گئی ہے، نفس کی بہت بڑی بیماری ہے جو اس درجہ خطرناک ہے کہ بڑے بڑے عالم فاضل بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور اپنے علم کو ہی اپنا خدا بنا لیتے ہیں بالآخر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو عجزو انکسار کے ساتھ معرفتِ الٰہی کی خواہش لے کر مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں آتے ہیں تو مرشد کامل اکمل اپنی نگاہِ فیض سے اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے اور انہیں دنیا و آخرت دونوں لحاظ سے کامیاب انسان بنا دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے سینے میں طلبِ مولیٰ کی ایک چنگاری لے کر آتے ہیں لیکن مرشد کامل اکمل کی نگاہِ کرم، صحبت اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے وہ چنگاری پہلے عشقِ مرشد اور پھر عشقِ حقیقی کے شعلہ میں بدل جاتی ہے جو انہیں اللہ کے وصال تک پہنچ دیتی ہے۔
لہٰذا ایک طالبِ مولیٰ مرشد کی خدمت اور اطاعت گزاری میں مشغول ہو جاتا ہے اور مرشد کی صحبت میں اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرواتا ہے اور باطنی منازل طے کرتا ہے۔ مرشد سے عشق ہی اس راستے میں براق کا کام دیتا ہے اور تیزی سے ہر منزل و مقام سے گزارتا ہوا اللہ کے حضور پہنچا دیتا ہے۔ اسی لیے فقرا اور اولیا کرام کے طالب و مرید علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کم اور مرشد کامل اکمل کی رضا و خوشنودی کی طرف توجہ زیادہ دیتے تھے۔ اسی لیے تو پیر سیدّ مہر علی شاہؒ نے فرمایا:
سب لکھیا پڑھیا بھلا رہیاں
ہکو نام سجن دا گا رہیاں
یعنی جو بھی علم حاصل کیا تھا سب بھلا دیا۔ بس یاد ہے تو سجن اور یار کا نام۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
فَقُلْتُ وَ مَا عِلْمُ الْعِلْمِ قَالَ لِیْ یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ عِلْمُ الْعِلْمِ ھُوَ الْجَھْلُ عَنِ الْعِلْمِ (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: پس میں نے پوچھا ’’علم العلم کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! علم العلم سے مراد علم سے ناواقف ہو جانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا یہی مفہوم ہے کہ جو علم حاصل کیا ہو اسے بھول جائیں۔ جب طالب مرشد کی صحبت میں رہ کر اللہ کی معرفت حاصل کر لیتاہے اور حضورِ حق میں پہنچ جاتا ہے، اسے کیا ضرورت کہ وہ پڑھنے لکھنے کے چکر میں پڑے وہ تو دیدار میں محو رہتا ہے۔ وہ تو بے گوش اللہ تعالیٰ کا کلام سنتا ہے اور بے زبان اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر علیم کون ہے۔ پس اللہ علیم اپنا خاص نورانی علم اس طالب کے قلب میں منتقل فرماتا ہے جس سے طالب ایسے علم کا حامل ہو جاتا ہے جو نہ کتابوں میں ملتا ہے اور نہ قیل و قال میں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو عارف ہر وقت دیدارِ الٰہی میں غرق رہتا ہے اُسے مطالعہِ علمِ پیغام و اعلام و الہام و آواز کی کیا حاجت ہے۔ (عین الفقر)
اے طالب بحث و تکرا ر کو چھوڑ اور دیدارِ الٰہی کا کامل مرتبہ حاصل کر۔ (عین الفقر)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ خود اپنے متعلق فرماتے ہیں:
میں علمِ دیدارِ الٰہی کا عالم ہوں مجھے نور ہی نور دکھائی دیتا ہے۔ مجھے علمِ دیدارِ الٰہی کے سوا کوئی اور علم ذکر ، فکر اورمراقبہ معلوم نہیں اور نہ ہی پڑھتا ہوں اور نہ ہی کرتا ہوں۔ کیونکہ تمام علوم علمِ دیدار کی خاطر ہیں جو مجھے حاصل ہے۔ (امیر الکونین)
روایت ہے کہ ایک سید زادہ حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی’’ یاحضرت! میں ایک غریب سید زادہ ہوں اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔ سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔ آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری کچھ مدد کریں۔‘‘ خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا اور وعدہ کیا کہ آج کے دن جو بھی نذر و نیاز آئی سب آپ کو دے دی جائے گی۔ خادم کو بلا کر پوچھا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟ تو خادم نے عرض کی سیدّی ابھی تک توکوئی نہیں آئی لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا۔آپ نے سیدّ زادے کو تسلی دی اور کہا اللہ پر بھروسا کرو وہ دستِ غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گا۔مگر اس دن کچھ بھی نہ آیا۔ آپؒ نے اس سیدّ زادے کو تسلی دی کہ کل تک انتظار کریں، کل جو کچھ بھی آیا وہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا، مگر اگلے دن بھی کچھ نہ آیا۔ اسی طرح تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی۔ سیدّ زادہ بھی مایوس ہوگیاکہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں، یہاں تو میری کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی۔ چوتھے دن اس نے واپسی کی اجازت طلب کی۔خواجہ نظام الدین اولیاؒ کو بہت دکھ ہوا کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے۔ آپؒ نے اس کو چند پل کے لئے روکا اور اندر سے اپنے نعلین لا کر دے دیئے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمہیں دینے کے لیے اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ سیدّ زادہ جوتے لیکر چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا؟ حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ۔ اس خیال سے کہ چلو میرے پیروں کے ہی کچھ کام آجائیں یا گھر میں کوئی اور پہن لے گا، جوتے ساتھ لے کر چل پڑا۔ رات ایک سرائے میں رک گیا۔
دوسری طرف سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھااور حضرت امیر خسروؒ جو حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے عاشق تھے، سلطان کے ساتھ تھے اور چونکہ آپ ایک قابلِ قدر شاعر تھے اس لیے دربارِ سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے۔ آپؒ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت) سے نوازا۔اپنے واپسی کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا اور رات کو پڑاؤ کیا گیا۔ تو اچانک امیر خسروؒ چلا اٹھے:
’’خوشبوئے مرشد می آید‘‘
مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے۔
مصاحب بولے امیر حضرت محبوبِ الٰہی تو کیلوکھڑی میں ہیں جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی؟ مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے جہاں ایک کمرے میں ایک شخص اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی۔ آپؒ نے اس کو جگایا اور پوچھا تم خواجہ نظام الدینؒ کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟ تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا ہاں۔ آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟ وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں اور میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں۔ یہ سنتے ہی امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین؟ تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے۔ امیر خسروؒ نے ان کو پکڑا، چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا؟اس نے کہا ’’امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو؟‘‘امیر خسرو بولے مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں، وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو۔ اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم تمہیں اور دے دوں گا۔ سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ سیدّ چکرا گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا۔ مگر امیر خسروؒ نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے۔
اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہِ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے۔
خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے مسکراتے ہوئے پوچھا’’خسرو ہمارے لیے کیا لائے ہو؟‘‘
امیر خسروؒ نے جواب دیا ’’سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں(بعض حوالوں سے یہ بھی تحریر ہے کہ مرشد نے خسرو کو دیکھتے ہی فرمایا تھا کہ خسرو بہت نفع کا سودا کر کے آئے ہو)۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ نے استفسار کیا کتنے میں خریدے؟ امیر نے جواباً عرض کی’’سات لاکھ چیتل ۔‘‘
خواجہ نظام الدین اولیاؒ بولے ’’بہت ارزاں لائے ہو۔‘‘
امیر خسروؒ بولے ’’سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا۔‘‘
یہ ہے عشقِ مرشد کی مثال جو ہر علم، عقلی دلیل اور اصول سے بالاتر ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ امیر خسروؒ نے آخر کیا سوچ کر اپنے مرشد کے نعلین کے لیے اتنی بڑی قیمت ادا کی؟ بظاہر تو وہ محض بوسیدہ جوتوں کی جوڑی تھی۔ دراصل یہ وہی لذتِ شوق تھا جس نے امیر خسروؒ کے دل میں عشقِ مرشد اور پھر عشقِ حقیقی کی چنگاری بھڑکا رکھی تھی۔
مرشد کامل اکمل کا مرتبہ ایک سچا طالب ہی پہچان سکتا ہے۔ ایک سچا طالب جانتا ہے کہ یہی وہ رفیق ہے جس کی بدولت اسے معرفت و دیدار کے پر خطر راستے پر کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی ہے یا اگر ابھی وہ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا اور معرفت کا سفر جاری ہے تو بھی مرشد کامل ہی ہے جو نفس ، دنیا اور شیطان کی چالوں سے بچا کر اُسے معرفت و دیدارِ الٰہی کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچا سکتا ہے۔ اور جب طالب پر یہ اپنے مرشد کامل اکمل کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے تو پھر اس کے دل کا چین و سکوں محض مرشد کی رضا ، اس کے دیدار اور صحبت میں ہی ہوتاہے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
آسودہ نمی گردد آں دل کہ گسست از دوست
باقرأتِ مسجد ہا بادانشِ مکتب ہا
ترجمہ: جو دل محبوب سے جدا ہوگیا ہو وہ مسجدوں میں قرآن خوانی اور مدرسوں کی تعلیم و دانش سے سکون نہیں پاتا۔ عاشق کی تسکین کا سامان صرف محبوب کے وصل و دیدار ہی سے ممکن ہے نہ کہ وعظ و نصیحت اور علم و حکمت سے۔ (زبورِ عجم)
اس لیے یارِ حقیقی کے دیدار میں محو ہونا ہی علم سے ناواقف ہوناہے اور یہی مفہوم ہے علم العلم کا۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل، سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس اپنے دَر پر آنے والے سچے طالبانِ مولیٰ کو علمِ معرفت، لذتِ شوق اور لذتِ دیدار کی اعلیٰ ترین نعمت سے نوازتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی و پاک صحبت اور نگاہِ کاملہ سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں جس سے طالب کا باطن طیب و طاہر ہو کراس قابل ہو جاتا ہے کہ اللہ ربّ العز ت کی ذات اس کے قلب میں سما سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل کی معرفت و پہچان نصیب فرمائے اور ہمیں نفس، دنیا اور شیطان کی چالوں سے بچا کر فقرِمحمدیؐ کی راہ پر ثابت قدمی سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین