خ۔خدااور خودی –Khey- Khuda aur Khudi

Spread the love

Rate this post

خ۔خدااور خودی

تحریر: ڈاکٹر سحر وڑائچ سروری قادری۔ لاہور

خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیدارِ کائنات

خودی کیا ہے ؟ اُس کی حقیقت کیا ہے ؟ اُس کی پہچان کیا ہے ؟ ایسے ہی کئی سوال انسان کے ذہن میں گر دش کر تے ہیں جو اقبال کے فلسفۂ خودی کی اہمیت کو عیاں کر تے ہیں۔ جب سے نوعِ بشر نے اس کرۂ ارض پر قدم رکھا تب سے ہی وہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے مضطرب ہے، میں کون ہوں میں یہاں کیوں ہوں ؟ آخر کس مقصد کے تحت میری تخلیق ہوئی ؟ اس خزانہ کائنات کا اور میرا صنعت زار مالکِ کُل کون ہے ؟ جب بھی انسان نے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا چاہے بار گاہِ ایزدی سے اسے راہنمائی حاصل ہوئی بلا امتیاز کہ وہ مسلمان ہے یا کافر، مشرک ہے یا منافق۔ جیسے سورج کی روشنی تو سب پر یکساں ظاہر ہوتی ہے‘ یہ تو اس چیز پر ہے کہ وہ کتنی جذب کر لیتی اور کتنی ضائع کر دیتی ہے۔ سائنس ازل سے ان کوششوں میں ہے کہ اس بشری وجود کے ارتقا کا سراغ نکال پائے۔ اس بارے میں سائنس نے بہت سے نظریات پیش کیے، کبھی تو انسان کو بندر سے افزائش کا نمونہ بتایا تو کبھی پانی میں موجود جراثیم سے ارتقا کو ثابت کیا۔ سائنس عقل پر چلتی ہے اور اپنے محدود فہم کے مطابق فلسفۂ زندگی کی کھوج میں لگی ہوئی ہے حالانکہ قرآن میں سورۃ الانبیاء میں فرما دیا گیا کہ تمام زندہ جانداروں کو پانی سے پیدا کیا گیا یعنی جس راز کو صدیوں پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کھول دیا سائنس آج بھی اسے کھوج رہی ہے ۔ایک غیر مسلم امریکی ایکالوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور نامی شخص نے انسان کی اس زمین پر موجودگی کے بارے میں کئی حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں اور قرآنِ کریم کے اقوال کو حرف بہ حرف سچ ثابت کیا۔ Humans are not from Earth نامی اپنی تصنیف میں اس شخص نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ انسان کا اصل گھر کوئی اور ہے اور کسی نا معلوم وجہ کی بنا پر سزا کے طور پر اسے زمین پر بھیج دیا گیا۔ انسان وہاں عیش وعشرت کی زندگی گزارتاتھااسی لیے وہ اس زمین پر آ کر بھی اپنے لیے ویسی ہی آسائشوں کا سامان پیداکرتا رہا ہے۔
ڈاکٹر سلورنے اپنے ذاتی مشاہدات اور تحقیق کے بعد یہ رائے قائم کی ہے اور ان کی کتاب میں اس حقیقت کے متعلق ٹھوس دلائل کا ایک انبار موجود ہے جنہیں اب تک کسی نے چیلنج یا رَدّ نہیں کیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سائنسدان جس نکتے پر بے حد تحقیق کے بعد پہنچتے ہیں اللہ کے ولی اسی نکتے کو علمِ لدنی کے ذریعے ایک لمحہ میں پا لیتے ہیں۔ انسان کے اس زمین پر سزا کے طور پر جلا وطن کر کے بھیجے جانے کے متعلق حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے تین سو سال قبل ہی فرما دیا تھا:

بنھ چلایا طرف زمین دے، عرشوں فرش ٹکایا ھُو
گھر تھیںِ ملیا دیس نکالا، اساں لکھیا جھولی پایا ھُو

مفہوم: طالبِ مولیٰ کا اصل گھر تو عالمِ لاھُوت ہے جہاں پر اُس نے دیدارِ الٰہی کے سوا دنیا اور عقبیٰ کو ٹھکرا دیا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ تو ہماری تقدیر ہے جس نے ہمیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے اور ہمیں اپنے وطنِ ازلی‘ عالمِ لاھُوت سے عالمِ خلق (ناسوت) میں لے آئی ہے۔ (ابیاتِ باھُوؒ کامل)
آج کا انسان ہر اُس بات کی تصدیق کرتا جارہا ہے جو صدیوں قبل ہمارے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمادی تھی، گویا قرآن ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ معرفت اور خودی کی پہچان کا کامل ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کئی پیغمبر اور رسول اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمائے اور پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں آخری حجت بھی تمام فرمادی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اوربے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رہتی دُنیا تک اپنی اُمت کی رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ اسی مقصد کو لے کر آپ کے منتخب نمائندے ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وراثت و امانت کے نور سے تمام مومنین طالبانِ مولیٰ کے قلوب کو منور کر کے خودی کی انتہا تک پہنچاتے ہیں اور ان پر یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی پہچان ہے، اپنے ربّ کی پہچان ہے۔ حدیثِ قدسی ہے :

کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْق۔

ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا‘ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔
اب اللہ کی پہچان کیسے حاصل ہو ؟ اسکا جواب اس حدیث میں ہے:
مَنْ عَرَ فَ نَفْسَہٗ فَقَدْعَرَ فَ رَ بَّہٗ۔
ترجمہ: جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقیناًاپنے ربّ کو پہچانا۔
اسکی شرح اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو عالمِ لاھُوت میں روحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیدا فرمایا۔ اس مقام پر روح کو روحِ قدسی کا نام دیا گیا۔ یہی روح انسان کی حقیقت اور اصل ہے اور یہی خودی ہے۔ اسی روح کی حالت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :
اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَاَنَا سِرُّہٗ۔
ترجمہ: انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں ۔
ارواح کی تخلیق کے بعد جب تمام ارواح سے اللہ پاک نے سوال کیا اَلَسْتُ بِرَ بِّکُمْ (کیا میں تمہارا ربّ نہیں؟) تو تمام ارواح نے اس کا جواب قَا لُوْا بَلٰی (کہا تو ہی ہمارا پالنے والا ہے) (سورۃالاعراف 172-) کی صورت میں دیا ۔ جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا :
الست از خلوت نازے کہ برخاست
بلٰی از پردہ سازے کہ برخاست
ترجمہ: الست بربکم کی آواز کس کے ناز کی خلوت سے بلند ہوئی اور بلٰی کا نغمہ کس کے ساز کے سُر سے بلند ہوا ؟
اب یہی روح عالمِ لاھُوت سے سفر کرتی ہوئی عالمِ جبروت و عالمِ ملکوت سے عالمِ ناسوت یعنی اس جہان میں آ پہنچی جہاں اسے لباسِ بشریت پہنایا گیا جو اس جہان کے مطابق تھا اور اس کی ظاہری پہچان کا ذریعہ بنا۔
انسانی عروج یہ ہے کہ انسان روحانیت کی ان منازل کا سفر کرتے ہوئے جب عالمِ لاھُوت میں پہنچتا ہے تو اسے اپنی حقیقت یعنی عرفانِ نفس یا اقبال کے مطابق خودی کی پہچان حاصل ہوتی ہے اور یہی انسان کا مقصدِ حیات ہے کیونکہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور انسا ن کی اصل اس کی ابتدا اپنے وطن عالمِ لاھوت واپس لوٹ جانا ہے۔ جس کو خودی کی پہچان ہوگئی اسکو اپنے ربّ کی پہچان ہوگئی اور جسے اپنے ربّ کی پہچان ہوگئی وہ عروجِ بشریت پا گیا ۔

خودی اور اَنا

بعض مفسرین نے خودی کو انا کا نام دے کر بہت بڑی غلطی اور زیادتی کی ہے حالانکہ خودی اور انامیں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ انا نفس کی بیماری ہے جب کہ خودی روح کی حقیقت۔ اَنا ربّ تعالیٰ سے دوری کا سبب بنتی ہے جبکہ خودی قرب و وصالِ الٰہی کی منازل طے کراتی ہے ۔ خودی صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو نا ہے مگر اناصفتِ شیطانی ہے جو اسکا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ خودی بارگاہِ ایزدی میں سرخرو کراتی ہے جبکہ انا ناکام ونا مراد کراتی ہے ۔
الغرض خودی کو انا سمجھنے اور کہنے والے لوگ معرفتِ الٰہی کی خوشبو تو دور کی بات احساس تک سے محروم ہیں۔ یہی مفہوم اقبالؒ کے اس شعر میں بیان کیا گیا ہے:

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں

 

قرآن و احادیث اور خودی

موجو دہ دور میں روحانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ لوگوں نے جس طرح اپنی پہچان کو نام، پتہ، دنیاوی مرتبہ و مقام اور عادات و اطوار تک محدود کر کے خودی کے اصل مقام کو پسِ پشت ڈال دیاہے اسی طرح انہوں نے قرآن و احادیث کی روح سمجھے بغیر ظاہر پرستی میں اپنے اپنے فہم و فراست کے مطابق مفہوم اخذ کر لیے ہیں۔جس کو اپنی ہی پہچان نہیں وہ اپنے مالک اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گنجِ بے بہا باتوں کو کہاں سمجھ پائے گا ۔
قرآن میں کئی جگہ اللہ پاک نے انسان کی اصل حقیقت کے اشارے دیئے۔جیساکہ فرمایا :
وَ فِیْٓ اَ نْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔(سورۃ الذریت۔21)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غورسے نہیں دیکھتے۔
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ یْد۔( سورۃ ق ۔ 16)
ترجمہ : اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں ۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ خودی کے اس بحرِ بے کراں میں ہم آخر اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو کیوں نہیں پہچان پاتے جبکہ وہ تو ہما ری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، ہمارے اندر مکمل طور پر موجود ہے۔ قرآنِ پاک میں اسکا جواب ایسے دیا گیا ہے :
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہُ۔ (سورۃ الجاثیہ ۔23)
ترجمہ: (اے محبوب) کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھاجس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا اِلٰہ (معبود) بنا لیاہے۔
تو جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو ہی اپنا معبود بنا لیا ہو اسے پہچان کیسے حاصل ہو ؟
حدیثِ قدسی میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی پہچان کا راستہ بتا دیا:
لَا یَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَسْعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔
ترجمہ:نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دِل میں سما جاتاہوں ۔
حدیث مبارکہ ہے :
قَلْبُ الْمُؤْمِنْ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
ترجمہ: مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ۔
ایسی ہی متعدد آیات واحادیث موجود ہیں جن میں باطن کی طرف توجہ مرکوز کرائی گئی ہے کہ اپنے اندر غور و فکر کریں اور اپنے ربّ کی معرفت حاصل کریں کیونکہ وہ کہیں دور نہیں بلکہ ہمارے اندر ہی موجود ہے۔

بزرگانِ دین اور خودی

تمام اولیا اللہ، فقرا، عارفین و عاشقانِ الٰہی، حقیقی مفکرین متفق ہیں کہ انسان کا باطن اور روح ہی اس کی حقیقت بھی ہیں اور حقیقتِ حق تک پہنچنے کا راستہ بھی۔ ان سب نے حق کی جستجو رکھنے والوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس حقیقت سے متعارف کرایا کہ انسان ربّ کا اور ربّ اسکا راز ہے اور تمام کائنات انسانی قلب میں لطیف صورت میں موجود ہے۔ فقر ائے کاملین کے کئی اقوال یہ باور کراتے ہیں کہ یہ کوئی فلسفیانہ یامن گھڑت قصہ کہانی نہیں بلکہ ایک ازلی حقیقت ہے جس کاانکار انسان کو ماسویٰ پشیمانی اور بدبختی کے کچھ نہ دے گا۔
مو لا نا روم ؒ فرماتے ہیں :

بس بصورت عالمِ صغریٰ توئی
پس بمعنی عالمِ کبریٰ توئی

مفہوم: شکل سے تو ایک چھوٹا سا جہان ہے مگر حقیقت میں تو ایک بہت بڑا جہان ہے۔
عوارف المعارف میں ایک بزرگ کا قول ہے:
* روح ایک لطیف جوہر ہے جو ایک کثیف شے (جسم) میں موجود ہے جس طرح قوتِ بینائی ایک لطیف جوہر ہے لیکن وہ ایک کثیف شے (آنکھ) میں موجود ہے۔ (عوارف المعارف)
حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ فرماتے ہیں:
یار در تو پس چرائی بے خبر
ترجمہ: یار تیرے اندر ہے تو کیوں بے خبر ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ فرماتے ہیں:

بامعین گفت ہر سو تا بہ کے خواہی دوید
ہم ز خود جو ہر چہ خواہی تا بدانی کیستی

ترجمہ: اس نے معین الدین سے کہا تو کب تک ہر طرف دوڑتا پھرے گا، تجھے جو بھی چاہیے اسے اپنے اندر تلاش کر تاکہ تجھے پتہ چلے کہ تو کون ہے؟
بقول اقبالؒ

 تو اے اسیرِ مکاں لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ تیرے خاک داں سے دور نہیں

امام غزالیؒ کی کتب میں بھی بار ہا انسان کو عرفانِ نفس یا خودی کی پہچان کی تاکید کی گئی ہے جو انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ انسان کے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو اس کی اپنی ہی ذات ہے۔ اس لیے اگر و ہ اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیونکر پہچان سکے گا۔ فقط یہ جان لینا کہ یہ میرے ہاتھ پاؤں نام و مقام ہیں اپنی ذات کی شناخت نہیں۔ اتنی شناخت تو جانور بھی رکھتے ہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیونکر ہوا۔
اسی طرح شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ فرماتے ہیں:
* اے طالب! تو پہچان اپنی ذات کو ، کون ہے تو اور کیا ہے؟ کیا ہے حقیقت تیری اور کیا ہے تیری نسبت حق تعالیٰ کی طرف اور کس وجہ سے تو حق ہے اور کس وجہ سے تو عا لم (جہان) ہے۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
شیخ ابو صالحؒ فرماتے ہیں:
* روح انسان کی شکل میں ہوتی ہے لیکن وہ انسان نہیں ہوتی۔ (عوارف المعارف)

اقبالؒ اور خودی

حکیم الامت دانائے راز مرد خودبین و خود آگاہ مفکرِ ملت شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ ایک عارفِ کامل تھے۔ آپؒ کا پیغام یا فلسفۂ حیات کیا ہے؟ اگر ایک لفظ میں اس کا جواب دینا چاہیں تو وہ ہے ’’خودی‘‘۔ اس محورِ خاص تک اقبال کی رسائی اپنے مرشد مولانا رومؒ کی زیر تربیت کائنات اور اپنے وجود پر چند جوابات کی تلاش میں ہوئی۔ وہی سوال جن کے جواب ڈھونڈنے میں آج کا انسان سرگردان ہے۔ ایسے سوال اقبالؒ سے قبل غالب نے بھی اٹھائے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

مگر اقبالؒ کا فلسفہ خودی عارفین اور صوفیا کرام سے مماثلت رکھتا ہے خاص کر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے ابیات کی روح اقبالؒ کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ البتہ بعض جگہ اقبالؒ نے خودی کی بجائے اس کو روح، من، دل کا نام بھی دیا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ایہہ تن رَب سچے دا حجرا، دِل کھڑیا باغ بہاراں ھُو
وِچے کُوزے وِچے مُصَلّے، وِچ سجدے دِیاں تھاراں ھُو
وِچے کعبہ وِچے قبلہ، وِچے اِلَّا اﷲ پکاراں ھُو
کامل مرشد ملیا باھوؒ ، اُوہ آپے لَیسی ساراں ھُو

مفہوم:جب سے ’’باطن‘‘ کی یہ حقیقت ہم پر ظاہر ہوئی ہے کہ میرا دل تومحبوبِ حقیقی کی جلوہ گاہ ہے میری خوشی اورمسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میرے اندر ہی کوزے ہیں کہ ان سے دل کی طہارت اور پاکیزگی کا وضو کر کے اور تزکیہ نفس کے مصلّے پر کھڑے ہو کر جب محبوبِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو مجھ پر اِلَّا اﷲ (اثبات) کی حقیقت آشکارہوئی کہ کائنات میں سوائے اﷲ تعالیٰ کے کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مجھے اپنے مرشد کامل سے نصیب ہوا ہے اور میرا مرشدہمیشہ میرا نگہبان اور محافظ ہے۔ (ابیاتِ باھُوؒ کامل)
اقبالؒ کے نقطۂ نظر سے خودی ابتدا، وسط ، انتہا سب کچھ ہے۔ دوئی تو محض ظاہری آنکھ کا دھوکہ ہے۔ فلسفہ شرق و غرب سے آشنا ہونے والا اقبالؒ خودی کا جو پیغام دے رہا ہے وہ ایک عظیم پیغام ہے۔ اقبالؒ خودی کے بحرِ بے پایاں سے افکار کے گوہر تابدار نکالتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو دولتِ لازوال سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان صا حبِ ادراک ہو صاحبِ نظر ہو۔ جیسا کہ خود اقبالؒ نے کہا:

نظر نہیں تو میرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل

اسی طرح آپؒ نے روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

سجدہ گاہ کیست ایں از من مپرس
بے خبر! رودادِ جاں از تن مپرس

ترجمہ: یہ (روح) کس کی سجدہ گاہ ہے ؟ یہ تُو مجھ سے مت پوچھ ۔ اے بے خبر! روح کی کہانی جسم سے نہ پوچھ۔
انسانی روح کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا یعنی انسانی بدن میں جو روح ہے وہی مسجودِ ملائک بنی۔ جو نہ پہچان سکا وہ ابلیس ٹھہرا اور جس نے پہچان لیا وہ سردارِ ملائکہ بنا۔ پہچان کا یہ سلسلہ تو ازل سے ہی چلا آرہا ہے۔ ’’خودی‘‘ کی اصطلاح بے شک اقبالؒ نے ہی عام کی مگر یہ فلسفۂ حیات تو ازل سے موجود تھا اور ابد الآباد تک رہے گا۔
اقبالؒ نوجوانانِ مسلم کو تلقین فرماتے ہیں کہ:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اقبال ؒ ہر لمحہ باطن میں غوطہ زن رہنے اور اپنی ہی تلاش میں رہنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ یہ مردِ کامل جانتا تھا کہ خودی کی منازل طے کرکے ہی خدائی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکہ اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی میرا کاشانۂ دل

اقبالؒ ان اولیا کرام میں سے ہیں جنہوں نے فقر و تصوف کی اصل روح سے عوام الناس کو روشناس کرایا۔ فقر و تصوف کے عمیق سمندر میں غوطہ زن یہ مفکر لوگوں کو اپنے اندر چھپے ہنگامۂ دوراں کو ٹٹولنے کی تاکید کرتا ہے۔ لَآ اِلٰہَ سے اِلَّا اللّٰہے سفرِ کمال کی کنہ بتاتا ہے۔     

خودی کا سرِّ پنہاں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
خودی ہے تیغِ فساں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

اقبالؒ نے نوجوانوں کو ہمیشہ باطن کو زندہ کر کے خودی کی پہچان کے لیے لاھوت لامکان تک روحانی پرواز کی تلقین فرمائی کیونکہ جس قوم کے جوان شاہین ہوں وہی قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔

دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
***
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

’’اسرارِ خودی‘‘ کے نام سے موسوم آپ ؒ کی آفاقی تصنیف خودی کے پنہاں رازوں سے پردہ کشائی کرتی ہے۔ آپؒ نے اس کا ذکر مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھے گئے خط میں کچھ اس طرح کیا:
’’یہ مثنوی جس کا نام اسرارِ خودی ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی اور بے خودی کی طرف ہے مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی جس کے قبضۂ قدر ت میں میری جان و مال و آبرو ہے میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ ( بحوالہ مکاتب برنی)
اس سے ظاہر ہوا کہ خودی کی تلاش علم و عقل کی نہیں معرفت کی را ہ ہے اور خدائے واحد کے قرب و وصال کی راہ ہے جو صرف اہلِ نظر صاحبِ ادراک بندۂ مومن کی فہم میں ہی سما سکتی ہے۔

مفسرین اور خودی

کئی مفسرین نے اقبال کے فلسفۂ خودی پر تبصرہ کیا۔ ڈاکٹر افتخار صدیقی ’’فروغِ اقبال‘‘ میں اس فلسفہ کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’نظریہ خودی ہی حضرت علامہ اقبالؒ کی فکر کا موضوع بنا رہا جس کے تمام پہلوؤں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔اقبالؒ نے ابتدا ہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہرگز نہیں بلکہ اس سے عرفانِ نفس اور خود شناسی مراد ہے۔ اقبالؒ کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومیؒ کے فیض کا نتیجہ ہے‘‘۔
اس بارے میں عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں:
’’خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اس پر ان کے تمام فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص ’’نطشے‘‘ سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل (خاص) کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا رومؒ سے اخذ کیا ہے۔‘‘
اسی طرح ڈاکٹر سیّد عبداللہ لکھتے ہیں:
’’خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوقِ تسخیر کا نام ہے خودی سے مراد خود آگاہی ہے ۔ خودی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمۂ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوزِحیات کا سرچشمہ ہے اور ذوقِ تخلیق کا ماخذ ہے۔‘‘

خدابینی اور خود بینی

فلسفۂ خودی میں خدا بینی اور خود بینی لازم و ملزم ہیں۔ خود بینی خدا بینی سے خارج نہیں بلکہ اس کی ممد و معاون ہے۔ اپنی حقیقت کو بے حجاب دیکھنا خدا کو دیکھنا ہے کیونکہ انسان کی حقیقت ماسویٰ روحِ قدسی کے کچھ نہیں۔ اگر خدا اور بندے کے درمیان سے نفس کا پردہ ہٹا دیا جائے تو معلوم ہو گا کہ خدا بینی اور خود بینی اس طرح ایک دوسرے میں مستغرق ہیں جس طرح قطرہ دریا میں، خوشبو پھو ل میں، معنی الفاظ میں، چاندنی چاند میں اور روح جسم میں۔ خودی کا احساس ذاتِ خداوندی کا ادراک اور ذاتِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے۔

خودی کی جلوتوں میں مصطفائیؐ
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

ہر بیج میں درخت بننے اور پھل پھول دینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن اس صلاحیت کے اظہار کے لیے اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دھوپ، بارش، آندھی جیسی کئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہی بیج پورا تناور درخت بنتا ہے جو ہر موسم ہر کٹھنائی کو سہہ لیتا ہے۔ پھر بیج کہہ لو یا درخت۔ دونوں میں دوئی کہاں؟

؂ خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ
نہ ہے ستارے کی گردش، نہ بازیٔ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ

خودی اور عشق

خودی کی نمو اور پرورش کے لیے جو چیز اہم ترین کردار ادا کرتی ہے وہ ’’عشق‘‘ ہے ۔ عشق ہی تو وہ لطیف جذبہ ہے جو ازل کی بنیاد اور ابد کی انتہا ہے۔ عشق ہی سے تو کائنات میں ثبات ہے۔ عشق کی آگ جب کسی میں روشن ہوتی ہے تو ہی وہ اپنی منزل کو واضح دیکھتا ہے اور اس کو پانے کے لیے تن ، من، دھن کی بازی لگا دیتا ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم

عشق ہی تو اپنے ربّ سے قرب کی انتہا تک پہنچاتا ہے۔ عشق کے بنا خودی کی پہچان ایک کھوکھلا دعویٰ ہے جسے عقل اگر قبول کر بھی لے تو معرفت و حقیقت ہرگز قبول نہیں کرتی۔ البتہ جب عشق کی عینک لگ جاتی ہے تو آنکھ کا نور دل کا نور بن جاتا ہے اور خود بینی خدا بینی بن جاتی ہے اسی لیے اقبالؒ نے کہا!

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

اور قرآن بھی اس کی تائید کرتا ہے، سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 72 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔‘‘ کیونکہ جو اس دنیا میں خود کو اور اللہ کو نہ پہچان سکا وہ روزِ قیامت کیسے پہچانے گا جب ہر مہلت ختم ہو چکی ہو گی۔ پس عشق ہی راہِ فقر میں وہ تیز رفتار سواری ہے جس پر سوار ہو کر طالبِ مولیٰ خود سے خودی اور پھر خدا تک کا سفر طے کر کے اپنی منزلِ مقصود پا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عابد حسین رقم کرتے ہیں :
* اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ رہنما عشق ہے۔ عشق اس مردِ کامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفتِ نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔

عقل اور خودی

عقل کی رسائی محدود ہے جیسا کہ رسالہ روحی شریف میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے عقل کے ہزاراں ہزار قافلے سنگسار ہو گئے۔‘‘ تو مَنْ عَرَ فَ نَفْسَہٗ فَقَدْعَرَ فَ رَ بَّہٗ  کو عقل سے کیسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ فلسفۂ خودی تو عارفوں اور اہلِ نظر کے لیے ہے، شب بیداروں کے لیے ہے، آہِ سحر گاہی سے آشنا ارواح کے لیے ہے، دل والوں کے لیے ہے، عشق والوں کے لیے ہے۔ جو شخص بھی خودی کی پہچان حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ظاہر و باطن میں کسی مردِ کامل کی رفاقت سے ہی حاصل کر سکتا ہے جس کی نگاہِ کامل کی بدولت مسلمان سے مومن، عاقل سے عارف، عاشق سے معشوق تک کا سفر بآسانی طے ہو جاتا ہے۔

خودی اور مرشدکامل

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پرورش کے لیے اسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے، پڑھنے کے لیے استاد کی اور زندگی گزارنے کے لیے ہمسفر کی۔ غرضیکہ انسان ہر کام کے لیے کسی دوسرے انسان کی مدد کا محتاج ہے۔ راہِ باطن کا سفر ایک کٹھن اور طویل سفر ہے جس میں کسی راہبر و راہنما کے بغیر انسان راستہ بھٹک سکتا ہے۔ اسے ایسا راہنما چاہیے جو اس راہ کا ماہر ہو۔
معرفت و ہدایت اور خودی کی پہچان و استحکام کے لیے ایسے مردِ کامل کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا از حد ضروری ہے جو خودی کے اسرار سے واقف ہو۔ ہر زمانے میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منتخب کردہ نمائندے موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کو خرقۂ فقر عطا کرتے ہیں اور انہیں خودی کی معراج دلا کر واصل باللہ کرتے ہیں۔ پس ایسے مرشد کامل عارف باللہ کی صحبت و رفاقت کی جستجو طالبِ خودی پر فرض ہے۔ موجودہ دور مادیت اور ظاہری پرستی کا دور ہے ایسے میں اپنی خودی کی پہچان اور نمو بہت مشکل ہے۔ اقبالؒ نے اپنے کئی اشعار میں عوام الناس خاص طور پر نوجوانوں کو اس ظاہر پرستی سے دور رہنے اور اسلاف کی میراثِ فقر تھامے رکھنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کسی مردِ کامل کا ہاتھ تھامنے کی نصیحت کی ہے۔
مرشد کامل کی زیر تربیت انسان جب اپنی خودی کو پہچان کر اپنے نفس کے حجاب ہٹاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ دربدر تلاش کرتا تھا وہ تو اس کے اندر موجود ہے۔ بقول اقبالؒ

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے؟ فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

موجودہ دور میں سلسلہ سروری قادری کے امامِ کامل مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کی ہر لمحہ راہنمائی فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اللہ حیّ و قیوم کے وہ خاص الخاص محب ہیں جنہوں نے راہِ فقر کو وہ فروغ دیا جو تا قیامت طالبانِ مولیٰ کے لیے رہنما ہو گا۔ آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو اسمِ d ذات کے ذکر و تصور اور اپنی باطنی توجہ سے خودی کی پہچان عطا فرماتے ہیں۔ اس دو رمیں اگر کوئی سچا طالبِ مولیٰ ہے اور وہ کرگس کی بجائے اقبالؒ کا شاہین بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت اختیار کرے۔
حاصل تحریر یہ کہ خودی لطیف جذبہ ہے جو انسانیت کی معراج ہے، جو بندۂ مومن کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پس جو کوئی بھی خودی کے عمیق سمندر میں غوطہ زن ہوا کسی پیر کامل، مردِ کامل کی نگاہِ کامل سے پار لگا۔ تحریک دعوتِ فقر تمام طالبانِ مولیٰ کو خودی کی پہچان سے ربّ کی پہچان اور باطن (خودی، ضمیر، روح، من اور قلب) کا قفل کھولنے اور نورِ بصیرت پیدا کرنے والی کلید ذکر و تصور اسم f ذات حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ خدا ہم سب کو خود بینی سے خدا بینی کی منزل مقصود پر پہنچائے۔ آمین۔
استفادہ کتب:
عوارف المعارف
شرح فصوص الحکم والایقان
کلیاتِ اقبال
ابیاتِ باھُوؒ کامل
فقرِ اقبالؒ


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں