سبق آموز حکایات. Sabaq Amoz Hikayaat
مراسلہ: وقار احمد ارشاد سروری قادری
جدائی کا صدمہ
منبرِرسولؐ بننے سے پہلے حضور پرُنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خشک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔جب پختہ منبرِ رسولؐ تیار ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو خشک کھجور کے تنے سے یہ صدمہ جدائی برداشت نہ ہوا۔ اس نے اس طرح روناشروع کیا جس طرح چھوٹا بچہ ماں کی جدائی سے روتے ہوئے سسکیاں لیتا ہے۔ مولانارومیؒ یہ فرماتے ہیں:
خشک کھجور کا تنا، جس کا نام استونِ حنانہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جدائی سے نالہ کر رہا تھا مثل اربابِ عقول کے یعنی جیسے کہ وہ کوئی انسان ہو۔ اس آوازِ گریہ سے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تعجب میں پڑ گئے کہ یہ ستون اپنے پورے حجم طول و عرض سے کس طرح رو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دریافت کیا ’’اے ستون! تجھے کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپؐ کی جدائی کا صدمہ مجھ سے برداشت نہیںہوا۔ آپؐ کی جدائی سے میری جان اندر ہی اندر جل رہی ہے۔ اس آتشِ غم کے ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فراق میں کیوں نہ آہ وفغاں کروں ؟یا رسول اللہ !آپؐ ہی تو جانِ کا ئنات ہیں۔ آپؐ پہلے مجھ سے ٹیک لگاتے تھے اب مجھ سے الگ ہو گئے ہیں اور میری جگہ دوسرا منبر پسند فرمالیا ہے۔‘‘
حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے مبارک ستون اگر تو چاہتا ہے تو تیرے لئے دعا کروں کہ تو سر سبز اور ثمر آوردرخت ہو جائے اور تیرے پھلوں سے ہر شرقی و غربی مستفید ہو اور کیا تو ہمیشہ کے لئے تروتازہ ہونا چاہتا ہے، یا تو پھر عالم آخرت میں کچھ چاہتا ہے؟‘‘ استونِ حنانہ نے کہا ’’یا رسول اللہؐ!میں تو دائمی اور ابدی نعمت چاہتا ہوں۔‘‘
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:اے غافل! تمہیں اس لکڑی سے سبق لینا چاہیے کہ تم انسان ہو کر دنیائے فانی پر گرویدہ اور آخرت سے روگرداں ہو رہے ہو جبکہ استونِ حنانہ نعمتِ دائمی کو نعمتِ فانی پر ترجیح دے رہا ہے۔
آن ستون را دفن کرد اندر زمین
تا چو مردم حشر گرد و یوم دیں
ترجمہ: پھر اس ستون حنانہ کو زمین میں دفن کر دیا گیا تا کہ مثل انسانوں کے روزِ جزا اس کا حشر ہو۔
درسِ حیات:
اگر کسی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی چاہت و محبت نہیں تو اسکی زندگی بھی بے معنی ہوگی۔ وہ بد نصیب عالمِ برزخ اور آخرت میں بھی رحمتِ الٰہی سے محروم رہے گا۔
(حکایتِ رومیؒ سے اقتباس)
اللہ عزّ و جل کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں
ایک بادشاہ کو کوئی خطر ناک بیماری لاحق ہو گئی جس کا ذکر نہ کیا جا سکتا تھا۔ یونانی حکما کا ایک گروہ اس بات پر متفق ہو گیاکہ اس بیماری کا کوئی علاج نہ تھا یہاں تک کہ کسی ایسے آدمی کے متعلق علم ہو جو بادشاہ کی صفات کا حامل ہو۔
بادشاہ نے ایسے شخص کی تلاش کا حکم دے دیا اور پھر تلاش کے بعد ایک زمیندار کا بیٹا مل گیا جو حکما کی بیان کی گئی تمام صفات پر پورا اُترتا تھا۔ بادشاہ نے اس لڑکے کے والدین کو مال و دولت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی دے دیں۔ قاضی نے فتویٰ جاری کر دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے رعایا میں سے اگر کسی ایک کا خون بہایا جائے تو یہ جائز ہو گا۔ جلاد نے قتل کا ارادہ کیا تو لڑکے نے آسمان کی جانب منہ کیا اور مسکرا دیا۔ بادشاہ نے لڑکے کی مسکراہٹ دیکھی تو دریافت کیا کہ تم ایسے وقت میں کیوں مسکرار ہے ہو؟ لڑکے نے کہا:
’’اولاد کا مان اس کے والدین ہیں اور دعویٰ قاضی کے سامنے پیش کیا جاتاہے اور انصاف بادشاہ سے طلب کیا جاتا ہے۔ ماں باپ نے دولت کی لالچ میں میرے قتل پر آمادگی ظاہر کر دی۔ قاضی شہر نے میرے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔ بادشاہ اپنی زندگی میرے قتل میں سمجھتا ہے ۔۔۔ایسے وقت میں اللہ عزوجل کے سوا میرے لئے کوئی پناہ گاہ نہیںہے۔ اے بادشاہ! میں تیرے متعلق کس سے فریاد کروں؟ بس میں اللہ عزوجل سے ہی انصاف کا طلبگار ہوں۔‘‘
بادشاہ نے جب اس لڑکے کی بات سنی تو رو پڑا اور کہنے لگا’’ میں خواہ مروں یا زندہ رہوں، میرے نزدیک اس بے گناہ کے قتل سے میرا مر جانا ہی بہتر ہے۔ ‘‘پھر بادشاہ نے آگے بڑھ کر اس لڑکے کا سر چوما اور بغلگیر ہو کر اسے بے شمار مال و زر عطا کیا۔
اللہ عزوجل کی قدرت دیکھئے کہ وہ بادشاہ ایک ہی ہفتے میں تندرست ہو گیا۔
وجہ بیان:
حضرت شیخ سعدیؒ اس حکایت میں ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں جسے کوئی خطرناک مرض ہو گیا جس کا علاج یونانی حکما نے یہ بتایا کہ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جس میں بادشاہ جیسی صفات موجود ہوں تو اس کو قتل کرنے سے بادشاہ کا مرض ختم ہو جائے گا۔ بالآخر ایک لڑکا مل گیا اور اس کے والدین نے بے شمار مال کے عوض اس کے قتل پر رضامندی ظاہر کر دی۔ جب اس لڑکے کے متعلق قتل کا فتویٰ جاری ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں انصاف کس سے طلب کروں کہ میرے والدین میرے قتل پر راضی ہیں اور بادشاہ جس سے انصاف کی توقع ہے وہ اپنی جان بچانا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اس لڑکے کی بات سنی تو اس کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا۔ اللہ عزوجل نے اس بادشاہ کو صحت عطا فرمادی۔ پس اگر بندہ صحیح معنوں میں اللہ عزوجل پر توکل رکھے کہ ہر امر اُسی کی جانب سے ہے تو یقینا اللہ عز وجل اس کے حق میں بہتری فرماتا ہے۔
(حکایاتِ سعدیؒ سے اقتباس)