لیلۃ القدر
معنی و مفہوم
عربی زبان میں رات کے لیے’’لیل‘‘ اور فارسی میں ’’شب‘‘ مروج ہے۔ ’’قدر‘‘ کے معنی اہمیت ، عظمت، رفعت اور قیمت کے ہیں لہٰذا لیلۃ القدر کا مفہوم یہ ہوا کہ اہمیت والی رات، عظمت ورفعت والی رات، قدرومنزلت والی رات اور بزرگی والی رات۔
اللہ ربّ العالمین نے اپنے بے مثل و بے مثال محبوب رحمتہ اللعالمین ساقی کو ثر، شافعِ محشر، غمخوارِ اُمت کے وسیلہ جلیلہ سے ان کی امت کو ایک ایسی رات عطا فرمائی ہے کہ جس میں کی گئی عبادات اور اعمالِ صالحہ کا اجر و ثواب ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ شبِ قدر یا ’’لیلۃ القدر‘‘ قرآن و احادیث کی روشنی میں ہزار مہینوں سے افضل اور بر تر ہے۔
* امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’قدر‘‘ کے معنی مرتبہ کے ہیں کیونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہاجاتا ہے۔
* اس رات کو ’’قدر‘‘ کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ ربّ العزت نے اپنی قابلِ قدر کتاب قابلِ قدر اُمت کے لئے صاحبِ قدر رسولؐ کی معرفت نازل فرمائی یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔ (تفسیر کبیر۔ 28-32)
* لفظ ’’قدر‘‘ تنگی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرشِ زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔(تفسیر الخازن۔3-5)
* امام ابو بکر الوراق ’’قدر‘‘ کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والوں کو صاحبِ قدر بنا دیتی ہے اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہ تھا۔(القر طبی۔ 20:131)
لیلۃ القدر کی فضیلت
قرآن کی روشنی میں
* اِنَّا اَنْزَلْنٰہٗ فِیْ لَےْلَۃِ الْقَدْرِo وَمَآ اَدْرَاکَ مَا لَےْلَۃُ الْقَدْرِo لَےْلَۃُ الْقَدْرِ لا خَےْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِےْھَا بِاذْنِ رَبِھِمْ م ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍط سَلٰمٌقف حِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
ترجمہ: بے شک ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں اتاراہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لیلۃالقدر کیا ہے۔ لیلۃ القدر ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین اپنے ربّ کے حکم سے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔
اُمتِ محمدیہ پر اللہ کا خاص انعام
* امام جلال الدین سیوطی حضرت انسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ: یہ مقدس رات اللہ ربّ العزت نے فقط میری اُمت کو عطا فرمائی ہے سابقہ اُمتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔ (تفسیر در منثور۔6:371)
* یہ رات کیوں عطا ہوئی؟
اس رات کے عطا کیے جانے کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس اُمت پر شفقت اور آپ کی غمخواری ہے۔ موطا امام مالکؓ میں مرقوم ہے کہ جب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سابقہ اُمتوں کے لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی اُمت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری اُمت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ اُمتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے۔ جب اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل کو اس معاملہ میں ملول و پریشان پایا توفرمایا: فاعطا لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔
ترجمہ: پس آپؐ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔ (موطا امام مالک کتاب الصیام باب ماجاء فی لیلۃ القدر)
اس کی تائید حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ ا قدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا تو آپ نے اس پر تعجب فرمایا اور اپنی اُمت کے لئے یہ دعا کی کہ اے میرے ربّ! میری اُمت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پراللہ نے لیلۃ القدر عطا فرمائی۔ (تفسیر الخازن، 4:397)
* امام قرطبی تفسیر قرطبی میں رقم طراز ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے حضرت ایوبؑ ، حضرت زکریاؑ ، حضرت حزقیل ؑ اور حضرت یوشع ؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اَسّی (80) سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ ربّ العزت کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پر ان پر رشک آیا تو حضرت جبرائیل ؑ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’اے اللہ کے حبیب! آپ کی اُمت کے لوگ ان سابقہ اُمتوں کے لوگوں کی اَسی اَسی (80) سالہ عبادت پر رشک کررہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ربّ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے پھر ’’سورۃ القدر‘‘ کی تلاوت کی اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ پُر انوار مسرت اور شادمانی سے چمک اُٹھا۔
لیلۃ القدر کی فضیلت
احادیث کی روشنی میں
۱۔ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
جس شخص نے لیلۃ القدر میں اجرو ثواب کی امید سے عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری۔ 1:67)
اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی بابرکت اور مبارک ساعتوں میں ذکرو فکر ، عبادت و ریاضت اور طاعت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس امر کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری اور بددیانتی مقصد نہ ہو۔ پھر یہ کہ آئندہ کے لئے عہد کرے کہ برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندۂ مومن کیلئے یہ رات پیغامِ مغفرت بن کر آتی ہے۔
۲۔ حضرت سیّدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ّّ’’یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی (افضل) رات ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ: 2)
ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہوسکتا جو اتنی عظیم، بابرکت اور عظمت والی نعمتِ عظمیٰ کو غفلت کی وجہ سے گنوادے۔ جب انسان معمولی باتوں کیلئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو ہزار سال کی عبادت سے بھی افضل عبادت کا مقام حاصل کرنے کیلئے تواس رحمتوں اور برکتوں والی رات میں بدرجہ اولیٰ جاگ کر اپنا نصیب جگانا چاہیے اور اللہ کی رضا اپنے نام کرنی چاہیے۔
۳۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لیلۃ القدر میں جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اترتے ہیں اور اس شخص کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی بھی حال میں) اللہ کو یاد (ذکرِ اللہ) کر رہا ہو یعنی اللہ کے ذکر میں مشغول ہو ۔
لیلۃ القدر کیا ہے؟
اللہ ربّ العزت نے سورۃ القدر میں ارشاد فرمایاہے:
ترجمہ: بے شک ہم نے اس(قرآنِ مجید) کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے۔
* اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟
* لیلۃ القدر فضیلت و برکت میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
* اس رات میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل امین) اپنے ربّ کے حکم سے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔
* یہ رات طلوع فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
* لیلۃ القدر خدا کی خاص رحمت کے نزول اور گناہوں سے مغفرت کی رات ہے۔
* لیلۃ القدر بہشت کے دروازوں کے کھولنے کی رات ہے۔
* لیلۃ القدر احیا (شب بیداری) سے عبادت کرنے کی رات ہے۔
لیلۃ القدر کی تلاش یا تعین
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرورِ کائنات کا فرمان عالی شان ہے لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ (بخاری و مشکوٰۃ)
* حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ تاجدارِ کائنات نے فرمایا لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی21،23، 25، 27، 29 میں ہے جوشخص ثواب کی نیت سے ان راتوں میں عبادت کرتا ہے اللہ غفار و ستار اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
* جمہورعلما کرام کہتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں پوشیدہ ہے خاص کر طاق راتوں میں۔ طاق راتوں کا بھی علاقوں کے اختلاف کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے۔
حضرت ابی بن کعبؓ، ابن عباسؓ ، شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، حضرت امام ابو حنیفہؓ اور اکثر مفسرین اور علمائے کرام اس پر متفق ہیں کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رمضان کی رات ہے ۔ (حقیقتِ روزہ)
* شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ بیان کرتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔
لیلۃ القدر کا لفظ 9 حروف پر مشتمل ہے یہ کلمہ سورۃ القدر میں تین مرتبہ استعمال کیا گیا ہے اس طرح 3 کو 9 سے ضرب دینے سے 27 حاصل ہوتا ہے۔ جو ا س بات کا غماز ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں کو ہوتی ہے۔
سورۃ القدر تیس الفاظ سے مزّین ہے ستائیسواں کلمہ وہی ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے گویا خدا وند عظیم کی طرف سے عقل مندوں اور اللہ والوں کے لئے یہ اشارہ ہے کہ رمضان شریف کی ستائیسویں شب کو لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ (تفسیر عزیزی۔ 259)
لیلۃ القدر کی علامات/ نشانیاں/ مشاہدات
اس رات کے ظہور کی علامات میں سے اہم علامات یہ ہیں:
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
لیلۃ القدر کی رات نرمی والی معتدل ہے، نہ گرم نہ ٹھنڈی ،اس رات کی صبح کی روشنی کمزور اور سرخی مائل ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری الصغیر)
زرین حبیش سے روایت ہے کہ میں نے سنا کہ جب ابی بن کعبؓ سے پوچھا کہ آپ کے بھائی عبدا للہ بن مسعود کہتے ہیں ’’ جو پورا سال قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کی رات پائے گا۔‘‘ ابی بن کعب بولے ’’اللہ ان پر رحم کرے۔ انہوں نے چاہا کہ لوگ ان پر بھروسہ نہ کر لیں ورنہ وہ جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے اور اس کے آخری عشرہ میں ہے اور وہ شب قدر ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح میں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔ ‘‘(مسلم)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس رات کی علامات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
* یہ رات کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے۔
* نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل ہوتی ہے۔
* صاف شفاف گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے۔
* اس رات صبح تک آسمان کے ستارے (شہاب ثاقب) شیاطین کو نہیں مارے جاتے یعنی شہاب ثاقب نہیں ٹوٹتے۔
* اس رات کے پچھلے پہر تو بے حد کیف و سرورہوتا ہے۔
* آسمان کی طرف نظر کرنے سے نور زمین کی طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
* اس رات میں ایمان والوں کے دل عبادت میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت فطری طور پر عبادت کی طرف کچھ زیادہ ہی مائل ہوتی ہے۔
* بعض اسلاف نے اس رات میں سمندر کا پانی چکھا تو میٹھا و شریں معلوم ہوا ۔
* بعض بزرگانِ دین نے یہ بھی بیان کیا کہ لیلۃ القدر میں ہر چیز سجدہ ریز ہو جاتی ہے یہاں تک کہ درخت بھی اس رات میں سجدہ کرتے ہیں اور زمین کی طرف جھکتے ہیں پھر اپنی جگہ پر آجاتے ہیں۔
* عوام الناس کی نسبت اہلِ نظر کو لیلۃ القدر کا زیادہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ (حقیقت روزہ)
حقیقت یہ ہے کہ اس شب کا ظہور صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پراللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتا ہے ورنہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے دو افراد میں سے ایک اس رات کا جلوہ پاتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ دراصل اس شب کا مزہ اور لطف و سرور الفاظ میں کیسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ جو لذت لطف و سرور چاشنان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں آتی ہے وہ اوراق پر الفاظ میں کیسے بیان کی جاسکتی ہے۔ (حقیقتِ روزہ)
اثرات لیلۃ القدر
* لیلۃ القدر کے بعد والی صبح کو سورج کی کرنوں میں تندی و تیزی نہیں ہوتی ۔
* سورج بغیر شعاع ٹکیہ کی طرح بالکل ہموار ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند۔
* اللہ جل شانہٗ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا ہے بر خلاف اور ایام کے کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اس جگہ ظہور ہوتا ہے۔
آخری عشرے میں معمولاتِ نبوی ؐ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب آخری دس ایام میں داخل ہوتے تو (عبادت کیلئے) کمر کس لیتے خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے۔(صحیح بخاری صلاۃ التراویح باب العمل فی العشر الاواخد من رمضان)
لیلۃ القدر میں دعا قبول ہوتی ہے
لیلۃ القدر میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں جو دعا مانگی جائے وہ مستجاب (قبول) ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ لیلۃ القدر میں ایسی جامع دعا مانگیں جو دونوں جہانوں میں فائدہ بخش ہو مثلاً اپنے گناہوں کی مغفرت، رضائے الٰہی کے حصول کی دعا مانگی جائے۔ اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ بتائیں کہ اگر مجھے لیلۃ القدرکا پتہ چل جائے تو میں کونسی دعا مانگوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو یہ دعا مانگ:
’’اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو (یعنی معاف کرنے کو پسند کرتا ہے)دوست رکھتا ہے مجھے بھی معاف کردے۔‘‘ مطلب یہ کہ اس رات اپنے پروردگار سے معافی کی درخواست کرتا رہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بھی اسی مقصد کے لئے کیا جاتا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کیا جائے اور تمام دنیا سے کٹ کر گوشہ نشینی اختیار کی جائے جس کی بڑی فضیلت ہے۔ اسمیں عبادت کا ذوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ ذکر اللہ (ذکر و تصور اسم اللہ ذات) سے تزکےۂ نفس اور عرفانِ نفس حاصل ہوتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اتباع کر لی کہ روزے تو فرض ہی تمہیں متقی بنانے کے لئے کئے گئے ہیں ۔ اللہ ربّ العزت ہمیں دیدارِ مصطفیؐ اور اپنا قرب عطا فرمائے آمین۔
*****