محرمِ راز کی صفات Mehram-e-Raaz Ki Sifaat


5/5 - (2 votes)

محرمِ راز کی صفات  (Mehram-e-Raaz Ki Sifaat )

مسز فاطمہ برہان سروری قادری (لاہور)

فقر کی اصطلاح میں حقیقی محرمِ راز سے مراد وہ ہستی ہے جسے امانتِ فقر منتقل کی جائے اوریہ مرتبہ صرف اسے حاصل ہوتاہے جو ظاہری و باطنی آزمائشوں میں کامیابی و کامرانی سمیٹتے ہوئے اپنے مرشد کا محبوب بن جائے۔ نہ دن دیکھے نہ رات، نہ سورج کی تپش نہ یخ بستہ سردی، نہ اپنا آرام دیکھے نہ اپنا فائدہ۔ بس یار کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔ اپنی اَنا کی تسکین پر اَنا کی نفی کو ترجیح دینے والا ہی اپنے مرشد کی رضا حاصل کرتا ہے۔ ایسا طالب نہ تو جنت، حور و قصور کا لالچ رکھتا ہے اور نہ ثواب کی غرض۔ مرشد کاچہرہ اس کے لیے کعبہ اور مرشد کا دیدار اس کے لیے حج ہوتا ہے۔ 

مرشد مینوں حج مکے دا، رحمت دا دروازہ ھوُ
کراں طواف دوالے قبلے، نت ہووے حج تازہ ھوُ

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے محرمِ راز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ان تمام تر صفات سے مالا مال تھے جن کی بنا پر ایک مرشد کامل اپنے طالبِ خاص کو اپنا محرمِ راز اور امانتِ الٰہیہ کے لیے منتخب کرتا ہے۔ حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے آپ مدظلہ الاقدس کو بطور طالب ہر آزمائش سے گزار کر پرکھ لیا تو امانتِ فقر جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور فرمایا۔ امانتِ فقر سے مراد وہ عظیم ورثہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوا اور آپؓ سے ہوتے ہوئے سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ تک پہنچا۔ اسی طرح یہ امانت منتقل ہوتے ہوئے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ تک پہنچی اور آپؒ نے یہ امانت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کو منتقل فرمائی۔ 

اس مضمون میں ان صفات کو بیان کیا جا رہا ہے جن کی بنا پر ایک مرشد اپنے طالبِ صادق کو امانتِ الٰہیہ جیسی عظیم نعمت سے نوازتا ہے۔

محرم راز کی صفات

وفا و قربانی 

سب سے اوّلین صفت جو ایک مرشد اپنے طالبِ خاص میں تلاش کرتا ہے وہ وفا اور قربانی ہے۔ وفا اور قربانی ایسا جذبہ ہے جوبندے کو تمام مخلوقات میں افضل اور ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول بنا دیتا ہے۔ وفا شعاری یہ ہے کہ ہر حال میں،ہر خوشی میں، تنگی میں، آزمائش میں اپنے مرشد کے دامن سے وابستہ رہا جائے۔ ساری دنیا کی مخالفت مول لینے کی نوبت پیش آئے تو بھی اس سے منہ نہ پھیرا جائے۔ وفا نبھانا اور اپنے مرشد پر اپنا تن من دھن وار دینا عاشقوں کا خاصہ ہے۔ عقل تو اپنا آپ بچانے کی طرف مائل کرتی ہے لیکن عشق وفا و قربانی کی آغوش میں ہی پھلتا و پھولتا ہے۔ بقول اقبالؒ:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عقل والوں کے نصیبوں میں ذوقِ جنوں
یہ عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں 

حضرت سلطان باھوُ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں :

عقل فکر دیاں سب بھل گیاں، جد عشقے نال جا ملیا ھوُ
میں قربان تنہاں توں باھوؒ، جنہاں عشق جوانی چڑھیا ھوُ

صدق و اخلا ص 

عشق آزمائش طلب کرتا ہے۔ مرشد کی بارگاہ میں اورعشقِ حقیقی کے امتحان میں وہی سرخرو ہوتا ہے جو اپنا ہر عمل محض رضائے الٰہی کے لیے کرتا ہے۔ اخلاصِ نیت عمل کی زینت ہے، اخلاص عمل کا لبادہ ہے، اخلاص باطن کی قوت ہے، اخلاص بندے کی کاوش ہے، اخلاص وجۂ قبولیت ہے، اخلاص حق تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے، اخلاص وحدہٗ لاشریک کے ساتھ واحد ہو جانے کا نام ہے۔ اخلاص رضائے الٰہی کی سیڑھی ہے، اخلاص عاشقوں کا عمل ہے۔ اخلاص عشق کی صداقت کا نام ہے۔ جوں جوں نیت میں اخلاص بڑھتا جاتا ہے توں توں محبوب پر سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ 

اپنی حقیقی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے صدق اور اخلاص لازم و ملزوم ہیں۔ بلکہ صدق اخلاص کی ہی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ راہِ فقر میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ طالب اخلاص، صدق اور عاجزی کے ساتھ آگے بڑھتا جائے کیونکہ اللہ عمل کو نہیں بلکہ بندے کی نیت کو دیکھتا ہے۔ صدق اور اخلاص اس لیے بھی ضروری ہے کہ طالب اسی کے ذریعہ حق و باطل کے مابین فرق کر سکتا ہے۔ اگر طلب میں اخلاص ہو گا تو بندہ کامل اور ناقص مرشد کی پہچان کر سکتا ہے۔ اگر نیت میں اخلاص ہو گا تو طالب جا ن سکے گا اس کے دل میں آنے والا خیال منجانب حق ہے یا شیطان کی طرف سے ہے۔
صدق ہی عشق میں تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صدق نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ (فرمان سلطان العاشقین)
عبادت اسی طرح سے قبول ہوتی ہے جس طرح کی نیت ہوتی ہے۔ (فرمان سلطان العاشقین) 

محنت و لگن 

محنت و لگن طالبِ صادق کی نمایاں صفت ہے۔ اس کی پوری زندگی عمل، جدوجہد اور محنت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے۔ درحقیقت انسان جس بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو محنت، لگن اور جدوجہد ہی کامیابی کا راز ہیں۔ انسان محنت تب کرتا ہے جب اس کے اندر کسی مقصد کو پانے کی لگن اور شوق موجود ہو۔ اس لیے یہ تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ کس مقصد کی خاطر محنت کرے گا مثلاً اگر کسی کی زندگی کا مقصد اپنے مستقبل کو بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے، نوکری تلاش کرتا ہے، کاروبار میں پیسہ لگاتا ہے، اس کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تھی ظاہری زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش۔ جس طرح بندہ ظاہری وجود رکھتا ہے اسی طرح اس کا ایک باطنی وجود بھی ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد معرفت اور دیدارِ الٰہی ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس پر قرآن زور دیتا ہے،یہی سنتِ نبویؐ ہے اور اسی مقصدکے لیے اصل جدوجہد کا کہا گیا ہے۔ اگر مرشد اور طالب کے تعلق کی بات کی جائے تو ایک مرشد اسی مقصد کے لیے طالب سے مجاہدہ (ڈیوٹی) کرواتا ہے اور اس کی تربیت کرتا ہے۔ طالب جتنی محنت کرتا ہے اسے اتنی ہی توفیقِ الٰہی نصیب ہوتی جاتی ہے جس سے بالآخر وہ اپنے حقیقی مقصد کو پا لیتا ہے۔ 

شجاعت و بہادری

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

دینِ حق کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس راستے پر مخالف اور باطل قوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دینِ حق کی اصل روح سے روشناس ہونے کے لیے تمام ظاہری اور باطنی مخالفتوں کا سامنا کر کے دورِ حاضر کے ولیٔ کامل کی تلاش میں نکلنا پڑتا ہے اور اس ولیٔ کامل کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہرقدم‘ قدمِ محمدیؐ پر ہوتا ہے۔ دنیا، نفس اور شیطان فقر کی راہ کے دشمن ہیں جو ہر لمحہ طالب کو اس کے مرتبے سے گرانے کے لیے گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

سر قدم شد قدم را با سر بجو
غرق شو فی اللہ فنا وحدت بگو 

ترجمہ: حق کے راستے پر اپنے قدموں کو سر اور سر کو قدم بنا کر چل اور غرق فی اللہ فنا ہو کر وحدتِ حق کا ترجمان بن جا۔ (قربِ دیدار)

 صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر بلال حبشیؓ کی صفات پیدا کی جائیں جس سے دشمن کے ہر وار پر دل احد احد پکار اُٹھے۔ ایک بہادر طالب ہی دین پر استقامت اختیار کر سکتا ہے اور یہ صفت حقیقی محرمِ راز میں ہی موجود ہوتی ہے۔ وہی تمام ظاہری و باطنی مخالفتوں کا سامنا کر کے اپنے دور کے مرشد کامل سے جا ملتا ہے اور پھر ہر آزمائش میں کامیاب ہوتا ہوا امانتِ فقر کے لائق بن جاتا ہے۔ 

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن 

حضرت سلطان باھوؒ ایسے طالبِ صادق کے متعلق فرماتے ہیں: 

سر دیون سرِّ کھولن ناہیں، ایسا شوق پیالا پیتا ھوُ
میں قربان تنہاں توں باھوؒ، جنہاں عشق سلامت کیتا ھوُ

تفکر و تدبر

تفکر و تدبر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی سوچ بچار اور غوروفکر کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید جا بجا اپنی ذات، آسمان و زمین اور اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ سب اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اپنی ذات، اپنے خدا اور اس کی بنائی ہوئی کائنات کے مخفی اسرار سے آشنا ہو سکتا ہے۔ محرمِ راز کے اندر یہ صفت زمانہ طفلی سے ہی موجود ہوتی ہے جس میں گزرتے وقت اور تجربات کے ساتھ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم نے غوروفکر کرنے والوں کی چند نشانیاں بیان کی ہیں:
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (سورۃ  آل عمران۔190)
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔ تو پاک ہے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ (سورۃ  آل عمران۔191)
مذکورہ بالا آیات میں پہلی نشانی تو یہ ہے کہ صاحبِ تفکر طالب صادق اہلِ عقل والوں میں سے ہوتا ہے، دوم دائمی ذاکر ہوتاہے، سوم متقی اور اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ یہ تمام صفات حقیقی محرمِ راز کی ہیں یعنی وہ ان تمام صفات کا مظہر ہوتا ہے ۔ 

اہلِ تجدید

مردِ مومن یا مردِ قلندر اہلِ تقلید میں سے نہیں بلکہ اہلِ تجدید میں سے ہوتا ہے۔ اہلِ تقلید اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ بقول اقبالؒ نیا زمانہ ‘نئے صبح و شام پیدا کرتا ہے۔ اللہ کا پیغام اور فقر کا فیض عام کرنے کے لیے اپنے زمانے کے نئے اور جدید طریقوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ درحقیقت وہ مجددِ دین اور امام الوقت ہوتا ہے۔
تجدید یا تجدیدِدین سے مراد کوئی نیا دین یا اسلام پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دین میں سے تمام باطل رجحانات و حجابات کو مٹا کر اس کی اصل اور خالص حالت میں پیش کرنا ہے اور یہ کام تو صرف وہی کر سکتا ہے جو خود دینِ اسلام کی اصل روح سے واقف ہوتا ہے۔ 

اس کے متعلق ایک حدیث میں بیان ہوا ہے رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتدا میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اسکے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔ (سنن ابی داؤد۔ 4291)

 جس طرح سیدّنا غوث الاعظمؓ نے اپنے زمانے میں تمام باطل فتنوں کا خاتمہ کر کے دینِ اسلام کی حقیقی روح کو زندہ کیا،حقیقی محرمِ راز اور حاملِ امانتِ فقر کی بھی یہ نشانی ہے کہ وہ دین پر سے تمام نفسانی حجابات کا خاتمہ کر کے دین کی حقیقی روح کو زندہ کر دے گا۔ 

قائدانہ صلاحیتیں

اپنے مرشد کامحرمِ راز وہی طالبِ صادق بن سکتا ہے جس میں  قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوں۔ ایک لیڈر اسی کو کہا جا سکتا ہے جو رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہو اور ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار، فیصلہ سازی، سچائی، بہادری، دوراندیشی، بہترین سامع جیسی صفات کا مرکب ہو۔ جس کا اوّلین مقصد لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنا نہ ہو بلکہ انہیں یکجائی کی جانب مبذول کرنا ہو۔ انہیں ایک پلیٹ فارم یا تحریک تلے جمع کر کے تحریک کے اجتماعی مقاصد حاصل کرنا ہو۔ وہ اللہ کے فرمان ’’اللہ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھو ‘‘ کا مصداق ہو۔ وہ اپنے ہر کارکن سے اس کی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ہر معاملے میں حکمتِ عملی کے ساتھ چلنااور ترجیحات طے کرنا، اپنے دلائل سے عوام الناس کو قائل کرنا یہ تمام صفات مضبوط کردار کے حامل بہترین لیڈر کی ہیں۔ 

باعمل عالم

فقر میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو صاحبِ علم ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں خود فرماتا ہے ’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں؟‘‘ دین کے ظاہری علم کو شریعت کہا جاتا ہے اور باطنی علم کا تعلق معرفت اور حقیقت سے ہے۔ پس فقر میں کامیاب ہونے کے لیے دونوں علوم سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ عشق کے بغیر عارف کیسے بنا جا سکتا ہے! جذبہ عشق کے بغیر علم گمراہی اور شیطان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن محرمِ راز کی نشانی یہ ہے کہ اس کے علم کا ’’ع‘‘ عشق کے’’ع‘‘ میں ضم ہو تا ہے اور اس کا اظہار عمل کے ذریعہ کرتا ہے۔ زندگی کے ہر معرکہ میں جدوجہد اور عمل ہی اس کی کامیابی کارازہوتاہے کیونکہ  

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

محرمِ راز کا کردار

محرمِ راز کا کردار اس طرح کا ہونا چاہیے کہ اس کی شخصیت میں صدق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مانند ہو، حیا حضرت عثمان غنیؓ جیسی، محاسبۂ نفس میں حضرت عمرؓ کی طرح کامل اور شجاعت و بہادری میں حضرت علیؓ کی مثل ہو۔ جس طالب میں یہ صفات موجود ہوں وہی محرمِ راز اور امانت ِفقر کا حامل ہوتاہے۔ 

سلطان العاشقین بطور محرم راز 

محرمِ راز کی جتنی بھی صفات بیان کی گئی ہیں وہ تمام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی حیاتِ مبارکہ کو دیکھا جائے تو عشقِ مرشد کی لازوال تصویر ہے۔ عشقِ مرشد بلند ہمت اور استقامت پسند طالب کا وصف ہے۔ عشقِ مرشد ہی فقر میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ عشقِ مرشد محب سے محبوب بننے کا سفر ہے اور اس سفر کی حقیقی منزل اسی مقام پر آکر اپنے مرتبۂ کما ل کو پہنچتی ہے جب ایک مرشد اپنے طالبِ خاص کو خرقۂ فقر پہنا کر اپنا محرمِ راز چن لیتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عاشقوں کے سلطان، شبیہ غوث الاعظمؓ، شانِ فقرا ور سلطان الفقر ششم حضر ت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے محرمِ راز ہیں اور خرقہ فقر پہنے ہوئے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صفاتِ کاملہ کو ایک موضوع میں بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ آپ مدظلہ کی پرُتاثیر شخصیت کو بیان کرنے کے لیے کئی دفاتر درکار ہوں گے لیکن پھر بھی آپ کی شان اور عظمت کو بیان کرنے کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

آپ مدظلہ الاقدس فقر کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں جسے سمجھنا حدِ ادراک سے بالاتر ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے بلند اور اعلیٰ مرتبہ کی حقیقت سے وہی روشناس ہو سکتا ہے جس کی روح زندہ اور نفس مردہ ہو، جس کا باطن روشن ہو اور عشقِ مرشد سے معمور ہو۔ عشقِ مرشد فیضِ الٰہی ہے جسے اس کا ایک قطرہ بھی مل جائے وہ با نصیب ہو جاتا ہے۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی اپنے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے ساتھ وفا و قربانی کا یہ عالم تھا کہ عشقِ مرشد میں سب فنا کر دیا۔ اپنا مال و دولت، آرام و سکون حتیٰ کہ اپنی ذات بھی۔ مرشد کی رضا سے بڑھ کر کبھی کسی چیز کوعزیز نہ رکھا۔

ایک مرتبہ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے عشق، صداقت اور وفاداری کو دیکھتے ہوئے فرمایا ’’نجیب بھائی کی مثال تو ایسے ہے سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔‘‘ وفا یہی ہے کہ طالب عشق میں صادق، محبت میں بااخلاص اور ہردم اپنے مرشد کو راضی کرنے کی دھن میں رہنے والا ہو۔ تقاضائے عشق یہی ہے کہ یار پر سب کچھ لٹا دیا جائے اور اُف بھی نہ کی جائے۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں :

عشق آن شعلہ است کہ جوں بر افروخت
ہر کہ جز معشوق باشد جملہ سوخت

ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق (مرشد) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے ۔

میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں :

جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آبھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے 

اگرسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی مسلسل محنت و جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ زمانہ طالبی میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے مرشد کی خدمت میں صرف کیا اور جب سے مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے تو ہر لمحہ اپنے مرشد کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اللہ کے دین کو گھر گھر پہنچانے اور معرفت و دیدارِ الٰہی کی نعمت عطا کرنے کے لیے ہر وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ تعلیماتِ فقر کو دنیا بھر میں عام فرمانے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا آغاز کیا۔اس کے علاوہ نئی اور جدید ٹیکنالوجی، ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس کا استعمال کر کے دینِ حق کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہے ہیں۔

آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد کی عطا کی ہوئی ہر ڈیوٹی کو انتہائی محنت و لگن کے ساتھ سر انجام دیا اور کبھی بھی ان خدمات کے بدلے کوئی ظاہری و باطنی مرتبہ طلب نہیں کیا۔ مرشد کی خوشنودی سے بڑھ کر کسی اور چیز کی طلب نہیں رکھی۔ 
کسی نے کیا خوب فرمایا ہے:

جے تو ربّ نوں منانا پہلے یار نوں منا
ربّ من جاندا یار نوں منانا اوکھا ہے

جو طالب یار (مرشد کامل) کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی فقر و معرفت کے راز کو پاتا ہے۔بے شک آپ مدظلہ الاقدس اس عظیم مرتبے سے سرفراز ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو فقر کے حقیقی محرمِ راز سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے ساتھ عہدِ وفا نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

سلطان العاشقین زندہ آباد
تحریک دعوتِ فقر پائندہ باد 

استفادہ کتب:
۱۔قرب ِدیدار:  تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز


8 تبصرے “محرمِ راز کی صفات Mehram-e-Raaz Ki Sifaat

  1. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عاشقوں کے سلطان، شبیہ غوث الاعظمؓ، شانِ فقرا ور سلطان الفقر ششم حضر ت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے محرمِ راز ہیں اور خرقہ فقر پہنے ہوئے ہیں۔

  2. اللہ تعالیٰ ہم سب کو فقر کے حقیقی محرمِ راز سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے ساتھ عہدِ وفا نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

  3. جے تو ربّ نوں منانا پہلے یار نوں منا
    ربّ من جاندا یار نوں منانا اوکھا ہے

  4. سلطان العاشقین زندہ آباد
    تحریک دعوتِ فقر پائندہ باد

  5. ے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
    عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
    عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں
    یہ عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں