رمضان المبارک کی برکتیں Ramzan-ul-Mubarak Ki Barktain


5/5 - (8 votes)

رمضان المبارک کی برکتیں ( Ramzan-ul-Mubarak Ki Barktain)

تحریر:فقیہہ صابر سروری قادری

انسان کی تخلیق محض عبادت کے لیے ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْن (سورۃ الذاریات۔ 56)
ترجمہ: اور میں نے انسانوں اور جنوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔

روزہ بدنی عبادت ہے جو پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ اس کی فرضیت کا اندازہ درج ذیل آیات سے لگایا جا سکتا ہے: 
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورۃ البقرہ۔185)
ترجمہ: پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔ 

اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزے رکھنے کا حکم دے رہا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ (سورۃ البقرہ ۔,184 183)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔یہ (روزے) چند دن کے ہیں ۔

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں:
جب تم اللہ تعالیٰ سے ’اے ایمان والو!‘ کا خطاب سنو تو اس کے لیے اپنے کان خالی کر دو کیونکہ یہ کسی کام کے حکم یا ممانعت کے لیے ہے۔ 

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں:
ندا (یعنی اللہ کا اپنے بندے کو پکارنے)کی لذّت سے عبادت کی مشقت اور تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ اس میں اٰمَنُوْا  ایسے راز کی طرف اشارہ ہے جو پکارنے والے اور مخاطب کے درمیان ہے جیسے وہ کہے اے میرے شخص جو میرے باطنی رازوں سے واقف ہے اور اسے جانتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین)

تقویٰ

روزے کا مقصد نہایت اعلیٰ اور اس بدنی ریاضت کا پھل یہ ہے کہ مسلمان متقی بن جائے اور تمام اخلاقِ رذیلہ اور اعمالِ بد سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے۔جب مسلمان اپنے ربّ کے حکم سے حلال چیزیں ترک کردیں تو وہ چیزیں جن کو ان کے ربّ نے حرام کر دیا ہے (چوری، غیبت، بددیانتی، رشوت، جھوٹ وغیرہ) کیا ان کا ارتکاب کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس مہینہ بھر کی مشقت اور مشق کا مقصد یہی ہے کہ سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور پرہیز گار بن جائیں تاکہ روزے کا اصل مقصد پا لیں۔ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے قران و حدیث کے احکام و آداب کی روشنی میں رکھ لے تو واقعتا نفس کا تزکیہ شروع ہو جاتاہے۔ پھر جب نفس میں ابھار شروع ہوتا ہے توآئندہ رمضان آموجود ہوتا ہے۔ متقی بننے سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تقویٰ کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ فرمایا ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ ‘‘
جتنازیادہ دل اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گا اتنا ہی بندہ متقی ہو گا۔
حضرت جنیدؒ نے فرمایا ’’ روزہ آدھی طریقت ہے۔ ‘‘ (کشف المحجوب) 

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے انسان کے اندر نفس کا ابھار کم ہو جاتا ہے اور شہوات و لذات کی اُمنگ گھٹ جاتی ہے۔ یہ روزے چند دنوں کے ہوتے ہیں، اگر ہم ظاہری باطنی احکام پر عمل کرتے ہوئے رکھیں تو بفضلِ الٰہی متقی بن جائیں گے۔

روزے کی فضیلت

سحری: 

رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں اور رحمتوں والا ہوتا ہے۔ اس میں روزے دار کو سحری نصیب ہوتی ہے جس کے متعلق قرآن پاک میں ارشادہے:
وَ بِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ  (سورۃالذاریٰت ۔18)
ترجمہ: اور سحری کے اوقات میں وہ معافی مانگتے ہیں۔
سحری کا وقت دل کی صفائی کے لیے بہترین اور اخلاص میں تشویش میں ڈالنے والی چیزوں سے خالی ہوتا ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
اللہ تعالیٰ ہر شب جب تہائی پچھلی رات رہتی ہے تو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں قبول کروں اور کوئی ہے جومجھ سے مانگے اور میں دوں اور کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت کا خواہاں ہو پس میں اس کو بخشش دوں۔ 

روزہ اور صحت : 

ڈاکٹر واطبا بتاتے ہیں کہ روزہ کاصحتِ جسمانی سے خاص تعلق ہے اور رمضان میں سب خود یہ تجربہ کرتے ہیں کہ بارہ سے پندرہ گھنٹے خالی پیٹ رہ کر افطار کے وقت بیشمار نعمتیں اور لذیذ غذائیں چند منٹوں کے اندر معدہ میں پہنچ جاتی ہیں اور کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ یہ صرف روزہ کی برکت ہے۔ اگر طبعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں جہاں ظاہر باطن کا تزکیہ ہوتا ہے وہاں تندرستی بھی حاصل ہو تی ہے چنانچہ حافظ مندری نے ’’ الترغیب و الترہیب‘‘ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان نقل کیا ہے:
 ’’جہاد کرو غنیمت حاصل ہو گی، روزے رکھو تندرست رہو گے، سفر کرو مالدار ہو جاؤ گے۔‘‘ (رواہ الطبرانی) 

روزہ گناہ سے حفاظت:

اگر روزہ کو تمام احکام و آداب سے پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ سنن نسائی میں ارشادِ نبوی نقل ہے:
اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا (نسائی۔2235)
ترجمہ: روزہ (گناہ سے روکنے والی) ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ 

ایک اور جگہ ارشاد پاک ہے: 
 جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ(گناہوں کوچھوڑے بغیر) محض کھاناپینا چھوڑے۔  (صحیح بخاری ۔1804)
معلوم ہوا کہ صرف کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے سے ہی روزہ کامل نہیں ہوتا بلکہ روزے کو فواحش، منکرات اورہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھنا لازم ہے۔ روزہ رکھنے والے کو چاہیے کہ بدکلامی نہ کرے جیسا کہ ارشادِ نبویؐ ہے: 
جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں۔ اگر کوئی شخص گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزے سے ہوں۔(بخاری۔1894) 
روزہ دار کو چاہیے کہ پانچوں حواس کو قابو میں رکھے۔ (کشف المحجوب)

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا ’’جب تو روزے رکھے تو تیرے کان، آنکھ، ہاتھ، زبان الغرض تیرا ہر عضو روزہ دار ہونا چاہیے۔‘‘ 
 حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’بہت سے ایسے روزہ دار ہیں جن کو (حرام کھانے یا حرام کام کرنے کی وجہ سے) پیاس، بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے (ریاکاری کی وجہ سے) جاگنے کے سوا کچھ نہیں۔(ابن ِماجہ۔1690)

روزے کی جزا

روزہ دار کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑا اجر و ثواب رکھا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ آقاپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
روزے دار کی خاموشی تسبیح ہے اور سونا عبادت ہے۔ اسکی دعا قبول ہوتی ہے اسکے عمل دو گنا کیے جاتے ہیں۔ 

ایک روزہ رکھ لینے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا انعام ملتا ہے؟ ارشادِ نبوی ؐہے:
جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسکو آتشِ دوزخ سے اتنی دور کر دے گا جتنی دور کوئی شخص ستر سال چل کر پہنچے۔  ( بخاری ۔2840 ) 

اس حدیث میں نفل یا فرض روزہ کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ خاص رمضان کے روزوں کے بارے میں ارشادِ نبویؐ ہے:
 شرعاً جسے روزے چھوڑنے کی اجازت نہ ہو، عاجز کرنے والا مرض بھی لاحق نہ ہو اس نے اگر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے بھی اس کے ایک روزہ کی تلافی نہ ہوگی اگر چہ (بطور قضا) عمر بھر روزے بھی رکھ لے ۔(مشکوٰۃ) 

بات یہ کہ ہر چیز کا ایک موسم ہوتا ہے اورموسم کے اعتبار سے اشیائے اجناس کی قیمت بڑھتی اور چڑھتی ہے۔ ماہِ رمضان المبارک فرض روزوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اگر کسی نے اپنی بدبختی سے رمضان کا ایک بھی روزہ چھوڑ دیا تو اس کے نامہ اعمال میں گناہِ کبیرہ تو لکھا ہی گیا اور روزہ رکھنے پرجو ثوابِ عظیم اور بہت بڑی خیر و برکت سے محرومی ہوئی وہ اس کے علاوہ ہے جوناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس ایک روزے کے عوض اگر عمر بھر روزے رکھے تب بھی وہ بات حاصل نہ ہوگی جو رمضان میں روزے رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ 

روزے کا ایک خاص وصف

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے روزہ کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’(روزہ کے دوران) انسان کے ہر نیک عمل کا اجر (کم از کم) دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘ لیکن خاص روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندہ میری وجہ سے اپنی خواہش اور کھانے پینے کو چھوڑتاہے۔‘‘ (بخاری۔7492) 

روزہ رکھ کر اسے تمام آداب و احکام کے ساتھ وہی پورا کرتا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے اسی لیے فرمایا اَلصَّوْمُ لِیْ (روزہ خاص میرے لیے ہے) ۔ پھر جس عمل میں ریا کاخدشہ بھی نہ ہو اس کا ثواب بھی ممتاز ہونا چاہیے چنانچہ خداوند کریم دوسری عبادتوں کا ثواب فرشتوں سے دلا دیتا ہے اور روزہ کا ثواب خود مرحمت فرماتا ہے۔

روزہ دار کے لیے جنت کا ایک خاص دروازہ

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے، قیامت کے روز اس میں روزہ دار داخل ہوں گے،ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں داخل نہیں ہو گا۔ (صحیح بخاری۔1896)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا:
روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک خوشی افطارکے وقت اور دوسری اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت۔ (صحیح بخاری۔ 1904)

در حقیقت ربّ کی ملاقات ہی توعبادت کا مقصودِ اصلی ہے۔ اس وقت کی خوشی کا کیا کہنا جب عاجز بندے اپنے معبود سے ملاقات کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ملاقات نصیب فرمائے۔ آمین

 

13 تبصرے “رمضان المبارک کی برکتیں Ramzan-ul-Mubarak Ki Barktain

  1. حضرت جنیدؒ نے فرمایا ’’ روزہ آدھی طریقت ہے۔ ‘‘ (کشف المحجوب)

  2. ارشادِ نبوی ؐہے:
    جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسکو آتشِ دوزخ سے اتنی دور کر دے گا جتنی دور کوئی شخص ستر سال چل کر پہنچے۔ ( بخاری ۔2840 )

  3. روزہ کی اہمیت اور برکات پر بہت اچھی تحریر ہے۔

  4. حضرت جنیدؒ نے فرمایا ’’ روزہ آدھی طریقت ہے۔ ‘‘ (کشف المحجوب)

  5. حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا:
    روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک خوشی افطارکے وقت اور دوسری اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت۔ (صحیح بخاری۔ 1904)

  6. ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دیدارِ الہی کی توفیق عطا کرے۔ آمین

  7. روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے انسان کے اندر نفس کا ابھار کم ہو جاتا ہے اور شہوات و لذات کی اُمنگ گھٹ جاتی ہے۔ یہ روزے چند دنوں کے ہوتے ہیں، اگر ہم ظاہری باطنی احکام پر عمل کرتے ہوئے رکھیں تو بفضلِ الٰہی متقی بن جائیں گے۔

  8. حدیثِ نبویؐ ہے:
    اللہ تعالیٰ ہر شب جب تہائی پچھلی رات رہتی ہے تو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں قبول کروں اور کوئی ہے جومجھ سے مانگے اور میں دوں اور کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت کا خواہاں ہو پس میں اس کو بخشش دوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں