حقیقی خوشی HAQEEQI KHUSHI

Spread the love

Rate this post

حقیقی خوشی.  Haqeeqi Khushi

تحریر:  مسز حمیرا امجد سروری قادری۔لاہور

حقیقی خوشی کی تعریف ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں ہم نہ صرف مسرت و اطمینان اور مثبت جذبات محسوس کرتے ہیں بلکہ ہماری زندگی معیاری اور بامقصد ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مقصد ِ حیات کے حصول کا نام خوشی ہے اور اس کا متلاشی ہر انسان ہے۔ خوشی د و طرح کی ہے:

ظاہری یا سطحی خوشی
حقیقی یا دائمی خوشی

اگر ہم سطحی اور ظاہری یا دنیاوی خوشی کی بات کریں تو اس کا کوئی معیار نہیں ہے کیونکہ اکثر کسی بات سے ایک فرد کو خوشی یا راحت ملتی ہے تو دوسرا اس سے نالاں یعنی دکھی بھی ہو سکتا ہے۔دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور ان کے حصول کے لیے اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو صرف کرنا اور اسی کو اپنا مقصد ِ حیات بنا لینا سطحی خوشی ہے۔
کشف المحجوب میں درج ہے:
لِاَنَّ مَنْ رَکَبَھَا ہَلَکَ وَمَنْ خَالَفَھَا مَلَکَ 
ترجمہ:کیونکہ جو خواہش پر سوار ہوا وہ ہلاک ہوا اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ مالک ہوا۔

محرومی کے دور ہونے کا نام بھی خوشی ہے ۔ہر انسان کو اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی محرومی نظر آ تی ہے۔ یہ محرومی اولاد، کاروبار، گھر، نوکری، مال و دولت اور عیش وآرام کی ہو سکتی ہے۔انسان اس محرومی کو دور کرنے کی کوشش میں لگا رہتاہے اور اپنی زندگی کا محور اسی کام اور خواہش کا حصول بنا لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس کے حصول کے لیے حلال و حرام کا فرق بھی بھول جاتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَخَوْفُ مَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیْ اِتِّبَاعُ الْھَوٰی وَطُوْلُ الْاَمْلِ 
ترجمہ:سب سے زیادہ جو مجھے خوف ہے وہ امت کا خواہشاتِ نفس کی اتباع کرنے اور لمبی امیدیں رکھنے کا خوف ہے۔

میرے مرشدپاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ان سطحی خواہشات کو نفس کے بت قرار دیتے ہیں اور شرکِ خفی کا نام دیتے ہیں۔جیساکہ قرآنِ پاک میں ہے:
اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہُ    (سورۃالفرقان۔43)
ترجمہ: کیاآپ نے اس شخص کو دیکھاہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کواپنا معبود بنالیاہے ۔

اس آیت کی تفسیرمیں حضرت ابنِ عباسؓ نے بیان کیا ہے کہ افسوس صد افسوس اس شخص پر جس نے اللہ تعالیٰ کے سوااپنے نفس کی خواہش کو خدا بنایا ہوا ہے اور اس کی تمام دن اور رات کی محنت و طلب اپنی اسی خواہش کے حصول کے لیے ہے۔

اس طرح انسان کی تمام تر منصوبہ بندی اور سوچ کا مرکز انہی خواہشات اور سطحی خوشیوں کا حصول ہوتا ہے اور وہ اپنے خالق اور اس کے حکم کو بھول کر اصل مقصدِحیات سے ہٹ جاتا ہے یعنی طالبِ دنیا بن جاتا ہے۔ایساشخص دنیاوی آسائش، ترقی ا ور عز وجاہ کے حصول کو ہی اصل خوشی قرار دیتا ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے نزدیک ایسی خوشیوں کے دعویدار طالبِ دنیا کہلاتے ہیں۔

آپؒ کے مطابق ظاہری خوشی کے متلاشی انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مقصود آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک نارِ جہنم سے بچنا اور بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول زندگی کی کامیابی ہے۔لہٰذاایسے افراد عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ، صوم و صلوٰۃ، حج، زکوٰۃ، نوافل، ذکر اذکار اور تسبیحات محض آخرت میں خوشگوار زندگی کے حصول کی خاطرکرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اُخروی کامیابی ہی اصل خوشی ہے۔اُخروی کامیابی اور خوشی کے دعویدار حضرت سلطان باھوؒ کے مطابق طالبِ عقبیٰ کہلاتے ہیں۔

آپؒ کے نزدیک حقیقی اور دائمی خوشی کے متلاشی انسان طالبِ مولیٰ کہلاتے ہیں۔ان کی عبادات اور ذکر و اذکار کا مقصود دیدارِ حق تعالیٰ، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری اور اللہ تعالیٰ کا قرب و وصال پانا ہے۔اس لیے کہ حقیقی خوشی ہی اصل مقصدِ حیات ہے جس کے حصول کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ حقیقی خوشی کا متلاشی ہمیشہ کوئی ذہین، اعلیٰ ظرف اور روشن دماغ و روشن ضمیر انسان ہوتا ہے۔

طلبِ مولیٰ کے لیے حقیقی خوشی کی ابتدائی شکل یہ ہے کہ وہ بے غرض ہوتا ہے اور دنیاوی خواہشات، عزوجاہ سے بے نیاز ہوتاہے۔ طالبِ  مولیٰ قناعت اور شکر گزاری کا منبع ہو تاہے اور اپنے تمام تر افعال کو رضائے الٰہی کے لیے سرانجام دیتا ہے۔سورۃ فاطرمیں اللہ تعالیٰ نے ان گروہوں کا ذکر فرمایا ہے:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ ج وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ھُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ۔ (سورۃ الفاطر۔ 32)
ترجمہ: پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا(یعنی امتِ محمدیہ کو)۔ سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں ۔یہی (اس کتاب یعنی قرآن کا وارث ہونا)بڑا فضل ہے۔

حضرت جنید بغدادیؒ اپنی تصنیف معالی الہمم میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں:
قرآنِ مجید کی اس آیت کی تفسیر یوں ہے کہ بنی آدم میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی جانب صرف طلب ِ دنیا کے لیے رجوع کرتے ہیں اور ان کی ہرعبادت اور دعا کی غرض صرف دنیا اور اس کی آسائشوں کا حصول ہوتا ہے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پروردگار کی جانب دونوں جہانوں یعنی دنیا کے ساتھ ساتھ عقبیٰ کی طلب لے کر بڑھتے ہیں۔ ان لوگوں کی طلب بھی ایک متعین مقصد اور ان کی ذاتی غرض کی خاطر ہے لیکن ایک تیسرا گروہ بھی ہے ،وہ نہ دنیا طلب کرتا ہے نہ آخرت اور نہ عاقبت کے خوف سے عقبیٰ طلب کرتا ہے۔ وہ دین بھی نہیں مانگتا، جنت کی طلب و آرزو بھی نہیں کرتا۔ وہ گروہ اللہ سے صرف اللہ کو طلب کرتا ہے۔اس کاقرب، دیدار اور رضا مانگتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فضل ہے۔ (معالی الہمم)

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے مطابق اپنی عبادت و ریاضت کے اجر اور انعام کی صورت میں انسان کے لیے حقیقی خوشی رکھی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ عبادت خالصتاً رضائے الٰہی کے لیے کی جائے۔ مثال کے طور پرنماز کو مومن کی معراج قرار دیا ہے یعنی اپنے ربّ سے ملاقات اور کلام کا بہترین ذریعہ۔ اسی طرح رمضان المبارک کے روزے بھی اللہ پاک کی خوشنودی اور روزہ دار کو خوشیاں عطا کرنے کا ایک بہانہ ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے اپنی تصنیفِ لطیف ’’حقیقتِ روزہ‘‘ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادمبارک نقل کیا ہے:
روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کی خوشی اور دوسری رویت (دیدار) کی خوشی ۔(مسلم۔2707)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ خوشیاں عطا فرمائے۔ (حقیقتِ روزہ)

اہلِ شریعت یہاں افطارسے مرادغروبِ آفتاب کے وقت کھانا پینا لیتے ہیں اور رویت سے مراد ہلالِ عید دیکھنا۔ تاہم اہلِ طریقت کے نزدیک افطار سے مرادجنت میں داخل ہونااور اس کی نعمتیں کھا کر روزۂ طریقت افطار کرناہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ کو بھی یہ نصیب فرمائے اور رویت سے مراد چشمِ سرّ (نورِ بصیرت) سے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونا ہے۔

حقیقی خوشیوں کو پانے کے لیے سب سے پہلے طالبِ مولیٰ بننا ضروری ہے اور اس سے اگلا مرحلہ مرشد کامل اکمل کی تلاش ہے۔

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ   (سورۃ المائدہ۔  35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اوراس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔

اس آیت مبارکہ میں دو باتوں کا حکم ہوا اوّل تقویٰ اختیار کرنا دوم اللہ کے قرب و معرفت کے لیے وسیلہ پکڑنا، ڈھونڈنا یا تلاش کرنا۔

شرعی اصطلاح میں وسیلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو،جس نے راہِ سلوک طے کیا ہو اور اس راستہ کے نشیب و فراز سے واقف ہو۔ تصوف میں وسیلہ سے مراد مرشد، ہادی ،شیخ یا پیر ہے۔

بقول شاعر

اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

مرشد کامل تک پہنچ جانے کے بعد طالب ِمولیٰ پر خوشیوں کے روحانی دروازے درجہ بدرجہ کھلتے جاتے ہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ کے مطابق مرشد کامل وہ ہے جو بیعت کے پہلے روز ہی طالب کو سلطان الاذکار ھوُکا ذکر، تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجویہ عطا کرے۔ جو طالب ذوق و شوق سے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ کرتاہے اور مرشد کامل اکمل کی صحبت اختیار کرتاہے تو اس پر معرفتِ الٰہی، قربِ توحید اور مشاہدہ حضوری کے اسرار کھلنے لگتے ہیں۔ 

لذتِ دیدار بہ دیدار دہ
لذتِ دیدار بر دل من بہ نہ

ترجمہ: میرے لیے لذتِ دیدار سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں لہٰذا  یاربّ مجھے لذتِ دیدار عطا کر۔ (امیر الکونین)

حقیقی خوشی کا طالب اللہ کی ذات میں فنا ہونے، اس کے ساتھ بقا پانے اور اس کی معرفت اور لقا حاصل ہونے کا دعویٰ کرتاہے تو اس کے لیے دو ’’ل‘‘ گواہ ہونے چاہیے۔ ایک ’’ل‘‘   لَآ اِلٰہَ  کا یعنی مقام مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے پہلے مر جاؤ) پر پہنچا ہو جہاں نفسانیت اور دنیا کی خواہشات سے فنا ہو چکا ہو اور اللہ کے سوا ہر شے کی نفی کر چکا ہو۔ اوردوسرا ’’ل‘‘ لاھوت۔ دونوں گواہ لامکان تک پہنچاتے ہیں۔اس طریقے سے اللہ کا دیدار قرآن کی اس آیت مبارکہ کے مطابق روا ہے جس میں اللہ پاک فرماتا ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی     (سورۃبنی اسرائیل۔72)
ترجمہ:جو اس دنیا میں حق (دیدارِ الٰہی) سے اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ (امیر الکونین)

لہٰذا طالبِ مولیٰ کو معرفت، قرب و وصالِ الٰہی اور لذتِ دیدار کی خوشیاں عطا ہوتی ہیں۔البتہ اللہ پاک نے اپنی رضا اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا اور خوشی میں رکھی ہے۔ اس لیے قرب و وصالِ الٰہی اور لذتِ دیدار جیسی دائمی خوشیوں کا حصول عشقِ مصطفیؐ کے بغیر ناممکن ہے ۔جب بات عشق کی ہے تو پھر اس کی کسوٹی بھی سب سے جدا ہے۔ یہ دنیاوی چاہتیں اور محبتیں نہیں جو وقت اور ضرورت کے تحت کم، زیادہ اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ عشق کا معیار تو یہ ہے کہ تمام محبتوں سے بڑھ کر کسی ایک کو جنون کی حد تک چاہا جائے جس کی وضاحت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارک ہے:
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُوْنَ اَ حَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہِ وَ وَلَدِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ   (بخاری۔15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
جب انسان اس معیار پر پورا اُترے گاتب ہی حقیقی خوشی کی لذت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اللہ اور اس کے محبوب رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید محبت کو اللہ نے مومنین کی صفت قرار دیاہے اور عشق کا خمیرانسان کی روح میں شامل ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے رشتہ داروں اور دنیاوی معاملات کے ساتھ عشق کی انتہا تک پہنچنے کے لیے عارفین یا فقرائے کاملین نے ایک طریقہ کار وضع فرما دیا ہے جس کے مطابق ضروری ہے کہ پہلے عشقِ مجازی یعنی عشقِ مرشد کے زینہ کے ذریعے عشقِ حقیقی کے مراحل طے کیے جائیں۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کرہم عشقِ حقیقی تک پہنچ سکتے ہیں۔ سلسلہ سروری قادری میں عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور عشقِ الٰہی کے سفر میں عشقِ مجازی (عشقِ مرشد) ذکر وتصوراسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتاہے بشرطیکہ اسمِ اللہ ذات کسی صاحبِ مسمیّٰ مرشد سے حاصل ہوا ہو۔

دورِحاضرمیں وہ کامل مرشدکامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں جو طالبانِ مولیٰ کو بیعت فرما کر بغیر کسی ریاضت اور چلہ کشی کے سلطان الاذکار ھوُ، تصور اسمِ اللہ ذات اور مشق مرقومِ وجودیہ عطا فرماتے ہیں۔ طالب میں جب یہ ذکر قرار پکڑتاہے تو وہ عشقِ مرشد میں ڈوب جاتاہے جس کے بعد اسے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تڑپ اور مجلسِ محمدیؐ حاصل ہوتی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
باطن میں دیدارِ الٰہی اور حضوریٔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دو ایسے انتہائی مقام ہیں کہ ان سے بلند باطنی مقام اور کوئی نہیں ہے اور مجلسِ محمدیؐ آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح صحابہ کرامؓ کے دور میں تھی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔

جب طالب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہوتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک کی زیارت سے اس کی تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور وہ فنا فی اللہ بقا باللہ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے اور طالبِ مولیٰ کے لیے یہی حقیقی اور دائمی خوشی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے فضل و کرم سے یہ تمام حقیقی خوشیاں عطا فرمائے اور ہمیں ہمارے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی نگاہ ِ فیض اور آپ کی پر خلوص محبت کی نعمت سے سرفراز فرمائے جو بلاشبہ ان حقیقی خوشیوں کے حصول کا اصل زینہ اور منزل ہیں۔ آمین

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں