اقبالؒ اور قرآن و حدیث Iqbal Aur Quran-o-Hadees

Spread the love

Rate this post

اقبالؒ اور قرآن و حدیث۔Iqbal Aur  Quran-o-Hadees

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

اسلام کی تمام تعلیمات کا سر چشمہ قرآن و سنت ہے ۔شاعر ِمشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اُمتِ مسلمہ کو قرآنِ کریم پڑھنے اور اس سے نورِ ہدایت اخذ کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ اپنی مشہور و معروف خطابت میں فرماتے ہیں’’ صوفیائے اسلام میں ایک بزرگ کا قول ہے کہ جب تک مومن کے دل پر بھی کتاب (قرآن حکیم)  کا نزول ویسا ہی نہ ہو جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوا تھا ،اس کا سمجھنا محال ہے‘‘۔ (اقبال اور قرآن،صفحہ 9)
اسی نکتے کو آپؒ اپنے شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں :

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف

(بالِ جبریل)

ڈاکٹر محمد عبد المقیت شاکر علیمی تصنیف ’’اقبال و حدیث ‘‘ میں لکھتے ہیں:
اقبالؒ کاکلام قرآن و حدیث کا مرقع ہے ۔ بلاشبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل علامہ اقبالؒ پر ذوقِ عمل کی جو راہیں کھلیں اس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرہ کار میں لے لیا اور اسوۂ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علامہ اقبالؒ نے جو کچھ حاصل کیا اس کو اپنی فلسفیانہ زبان میں من و عن بیان کر دیا ہے، یہی اقبال کی عظمت ہے۔ فلسفۂ خودی، فلسفۂ حیات، مردِ مومن، تصوف اور اس کے موضوعات مثلاًفقر، صبر و توکل، زہد و ورع، خوف و رجا اور عشق و وجدان کے سلسلے میں جو کچھ بھی انہوں نے فرمایا وہ قرآن و حدیث سے ہی مستنبط ہے ۔(اقبال اور حدیث صفحہ 22)
بقول اقبالؒ :

مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے 

(بانگِ درا )

علامہ اقبالؒ عارف تھے اور عارف کی تعلیمات در حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات ہوتی ہیں۔قارئینِ کرام کے لیے علامہ اقبالؒ کا کلام قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا جا رہا رہے تاکہ یہ باور کروایا جا سکے کہ آپؒ کی تعلیمات اور پیغام دراصل قرآن و حدیث کا ہی بیان ہے ۔

فقر اور اقبالؒ

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ’’فقر ‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں :
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ:فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ عَلٰی سَآئِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْن 
ترجمہ:فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر افتخار حاصل ہے ۔

علامہ اقبالؒ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ ’روحِ قرآنی‘
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو ’سلطانی‘
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ’ظلِّ سبحانی‘ 

(ضربِ کلیم)

فقر دو طرح کا ہے؛ ایک فقرِاختیاری اور دوسرا فقرِاضطراری ۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جس فقر پرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فخر فرمایا ہے وہ فقرِ اختیاری ہے ۔ فقرِ اضطراری ’’فقرِ مکب ‘‘ ہے یعنی منہ کے بل گرانے والا۔ اس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فَقْر الْمُکِبْ
ترجمہ:میں فقرِ مکب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔
علامہ اقبالؒ اس فقر کے متعلق فرماتے ہیں :

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری 

(بالِ جبریل)

اقبالؒ اور عشقِ مصطفیؐ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فلاح واصلاح کے لیے قرآنِ کریم نازل فرمایا اور اس کی عملی صورت کو احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، ساقیٔ کوثر، شافعِ محشر کی صورت میں ہمارے درمیان زندہ جاوید بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پہچان اور آپؐ کی بارگاہ تک رسائی کے بغیر دینِ محمدیؐ کی حقیقت آشکار نہیں ہوتی ۔ 

 بقول اقبالؒ :

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است 

 (ارمغانِ حجاز )

ترجمہ:تو خود کوحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچا کیو نکہ وہی مکمل دین ہیں ، اگر تو ان تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق ومحبت اور سر فروشانہ عقیدت ایمان کی بنیاد اور اساس ہے ۔جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے :
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان میں کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ ( صحیح بخاری۔15) 

 علامہ اقبالؒ اپنی شاعری میں جابجاعشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اظہار کرتے ہیں :

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں 

(بانگِ درا)

آپؒ فرماتے ہیں مومن وہی ہے جو آپؐ کی سنت کی پیروی کو اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھتا ہے اور آپؒ اسی کو ایمان کی تکمیل اور معراجِ انسانیت تصور کرتے ہیں۔ آپؒ کے نزدیک عشق و مستی کی تمام کیفیات نورِ محمدی سے معمور ہیں۔ مثنوی ’’مسافر‘‘ میں فرماتے ہیں :

می ندانی عشق و مستی از کجاست
این شعاعِ آفتابِ مصطفیؐ است
زندیٔ تا سوزِ او در جانِ تست
این نگہ دارندۂ ایمان تست

ترجمہ: کیا تم نہیں جانتے کہ عشق و مستی کہاں سے ہے۔یہ تو محمدؐ کے سورج کی شعاع ہے (جس سے مومن کا دل روشن ہے) ۔ جب تک اس کا سوز تمہاری جان میں ہے تم زندہ ہو ، یہ حرارت تو تمہارے ایمان کی نگہدار ہے۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  کا پیغام اور اقبالؒ

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
 اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت  نہیں۔(سورۃآلِ عمران۔ 18)

علامہ اقبالؒ بھی اپنے کلام میں مسلمانوں کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ انسان کی خودی اور ارتقائے کامل اس بات پر موقوف ہے کہ وہ اللہ کی واحدانیت کا زبان اور دل دونوں سے اقرار کرے ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  (نہیں ہے کو ئی معبود سوائے اللہ کے ) سے اس طرح دامن وابستہ کرے کہ اس کے عمل سے ثابت ہو کہ وہ کائنات میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ، کسی ہستی کی اطاعت کرتا ہے ، نہ معبود قرار دیتا ہے ، نہ مقصود اور نہ مطلوب کیونکہ اس کے سوا نہ کوئی مقصود ہے اور نہ ہی کوئی مطلوب۔

بقول اقبالؒ :

تا   نہ   رمز    لَآ اِلٰہَ    آید   بدست
بند غیر اللہ را نتوان شکست 

 ( پس چہ بائد کرد )

ترجمہ: جب تک   لَآ اِلٰہَ  کا نکتہ ہاتھ نہ آئے غیر اللہ کے بند توڑے نہیں جا سکتے ۔

پیش غیر اللہ ’’لا‘‘ گفتن حیات
تازہ از ہنگامۂ او کائنات

 (پس چہ بائد کرد)

ترجمہ: غیر اللہ کے سامنے   لَآ   کہنا زندگی ہے ، اسی کے ہنگامے کائنات میں تازگی پیدا ہوتی ہے ۔ 

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالیشان ہے:
رسمی اور رواجی طور پر کلمہ طیب پڑھنے والے تو کثیر ہیں مگر اخلاص سے کلمہ طیب پڑھنے والے بہت قلیل ہیں۔ 
علامہ اقبالؒ اپنے کلام کے ذریعہ بھی مسلمانوں کو یہی باور کرواتے ہیں :

خرد  نے  کہہ  بھی  دیا    لَآ اِلٰہَ  تو  کیا  حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں 

(ضربِ کلیم)

اقبال کے نزدیک ’’کافری‘‘ کیا ہے ؟

شرک سب سے بڑا گناہ ہے ۔ ساری امیدوں کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔ حدیث شریف ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم کو چاہیے کہ اپنی سب حاجتیں اللہ ہی سے مانگا کرو ، یہاں تک کہ اگر چپل کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو بھی اللہ تعالیٰ سے ہی مانگو۔
بقول اقبالؒ:

بتوں سے تجھ کو امیدیں، خداسے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

(بالِ جبریل)

منافق

 منافق ہی ہیں جو مومنین کو دغا دیتے ہیں۔ سورۃا لبقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وہ اللہ کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں۔ (سورۃالبقرۃ ۔9)

آپؒ فرماتے ہیں :

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش!

(بانگ ِ درا)

دنیا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور(اے لوگو!)یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سواکچھ نہیں ہے، اورحقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ راز)جانتے ہوتے۔ (سورۃالعنکبوت ۔64)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :
دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔ 
 اقبالؒ کے نزدیک یہ دنیا ایک قفس ہے افسوس کہ اس قفس کو ہم نے باغ تصور کر لیا ہے ۔ آپؒ فرماتے ہیں :

قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

 (بانگ ِ درا)

زمانہ:

اقبالؒ کے نزدیک زمانہ کا وجود زندگی ہی سے وابستہ ہے یعنی زندگی نہ ہو تو زمانہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابنِ آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے جب تو زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں ۔(صحیح بخاری ۔7491) 

 علامہ اقبالؒ اپنے شعر میں اسے یوں بیان فرماتے ہیں : 

زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لا تسبو الدھر فرمانِ نبی است 

(اسرارِ خودی ) 

ترجمہ: زندگی زماں سے اور زماں زندگی سے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے کہ زمانہ کو برا نہ کہو۔ 

دیدارِ الٰہی:

دیدارِ الٰہی کے متعلق اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے :
پس جو شخص اپنے ربّ کا لقا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔(سورۃالکہف۔110)
اور میں تمہارے اندر موجودہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔ (سورۃ الذاریات۔21)
اور مشرق اور مغرب (سب)اللہ ہی کا ہے ،پس تم جدھر بھی دیکھو گے اللہ کا چہرہ نظر آئے گا۔ (سورۃالبقرہ ۔115)

حدیثِ مبارکہ:

حضرت جریر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔‘‘(بخاری ۔ 7435) 

بقول اقبالؒ:

کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں 

(بانگِ درا)

بر مقامِ خود رسیدن زندگی است
ذات را بے پردہ دیدن زندگی است 

(جاوید نامہ)

ترجمہ: اپنی پہچان کے مقام پر پہنچنا ہی حقیقی زندگی ہے اور اپنی پہچان سے اللہ کی پہچان حاصل کرکے ذاتِ حق کو بے پردہ دیکھنا ہی حیاتِ جاودانی ہے۔ 

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا 

(بانگِ درا)

اقبالؒ اورطالبِ مولیٰ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور تم لوگ تین قسموں میں بٹ جاؤ گے۔ سو (ایک) دائیں جانب والے، دائیں جانب والوں کا کیاکہنا ۔اور (دوسرے) بائیں جانب والے، کیا (ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے،(یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (اللہ کے) مقرب ہوں گے ۔ نعمتوں کے باغات میں (رہیں گے)۔(سورۃ الواقعہ۔ 7-12)

حضرت جنید بغدادیؒ اپنی تصنیف ’’معالی الہمم‘‘ میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں :
قرآنِ مجید کی اس آیت کی تفسیر یوں ہے کہ بنی آدم میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی جانب صرف طلبِ دنیا کے لیے رجوع کرتے ہیں اور ان کی ہر عبادت اور دعا کی غرض صرف دنیا اور اس کی آسائشوں کا حصول ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی جو اپنے پروردگار کی جانب دونوں جہانوں یعنی دنیا کے ساتھ ساتھ عقبیٰ کی طلب لے کر بڑھتے ہیں۔ ان لوگوں کی طلب بھی ایک متعینہ مقصد اور ذاتی غرض کی خاطر ہے۔ لیکن ایک تیسرا گروہ بھی ہے ، وہ نہ دنیا کی طلب کرتا ہے نہ آخرت اور نہ عاقبت کے خوف سے عقبیٰ طلب کرتا ہے ۔ وہ دین بھی نہیں مانگتا، جنت کی طلب اور آرزو بھی نہیں کرتا ۔ وہ گروہ صرف اللہ سے اللہ کو طلب کرتا ہے، اس کا قرب، دیدار اور رضا مانگتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فضل ہے۔ (معالی الہمم)  

علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے کلام میں جا بجا طالبِ مولیٰ کا ذکر کیا ہے ۔ آپؒ نوجوان طالبِ مولیٰ کے لیے شاہین کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے 

( بانگِ درا)

جس کا عمل ہے بے غرض، اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر 

( بانگِ درا)

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں 

( بانگِ درا)

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پرُ دم ہے اگر توُ، تو نہیں خطرۂ افتاد 

  (ضربِ کلیم)

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

(بالِ جبریل) 

انسانِ کامل

سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصانیف مبارکہ’’فقرِ اقبالؒ‘‘اور’’ شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
راہِ فقر میں اپنی ہستی کو اللہ کی ذات میں فنا کر کے بقا باللہ ہو جانا عارفین کا سب سے اعلیٰ اور آخری مقام ہے ۔ یہاں پر وہ دوئی کی منزل سے بھی گزر جاتے ہیں۔فقر کے اس انتہائی مرتبہ کو مقامِ فنا فی  ھوُ، وحدت ، فقر فنا فی اللہ بقا باللہ یا وصالِ الٰہی کہتے ہیں اور یہ مقامِ توحید بھی ہے۔ عام اصطلاح میں اس مقام تک پہنچنے والے انسان کو ’’انسانِ کامل‘‘یا ’’فقیرِ کامل‘‘ کہا جاتا ہے۔(فقرِ اقبالؒ)

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے کامل و ارفع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مظہرِاُتم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی انسانِ کامل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد یہ مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے آپ کے نائبین کو حاصل ہوا ہے۔ دنیا میں ہر وقت ایک شخص قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باطنی نائب اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ ( شمس الفقرا)

 درج ذیل حدیث میں ایسے صاحبِ فقر انسانِ کامل کے متعلق بیان ہوا ہے :
میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد ) نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوںجس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (بخاری6502)

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقین  پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے 

(بانگِ درا)

 علامہ اقبالؒ انسانِ کامل کو درج ذیل ناموں سے تعبیر کرتے ہیں:
 مردِ مومن ، بندہ مومن، مردِ حق، مردِ کامل، مردِ دانا، مردِ حرُ، امامِ برحق، قلندر، صاحبِ ایجاد، مردِ خود آگاہ، دیدہ ور، صاحبِ ادراک، امامِ وقت، مردِ فقیر، بندۂ حق، بندۂ حق بین، صاحبِ دل، مہدیٔ برحق ۔ 

 علامہ اقبالؒ ان الفاظ میں انسانِ کامل کے متعلق فرماتے ہیں :

ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز

   ( بالِ جبریل)

عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں

(زبورِ عجم)

ترجمہ:برسوں زندگی کبھی کعبہ میں کبھی بت خانہ میں روتی ہے ۔ تب جاکر عشق کے پردے سے ایک دانائے راز (انسانِ کامل) باہر نکلتا ہے۔ 

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اورہر امر کو جمع کر رکھا ہے ہم نے امامِ مبین میں ۔(سورۃ یسٓ۔ 12)
اس آیت میں امامِ مبین سے مراد انسانِ کامل ہے۔
حدیثِ نبویؐ ہے :
مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔حدیث
نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہوں ۔ 

بقول اقبالؒ: 

ہر لحظۂ ہے ’مومن‘ کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے  قرآن

    (ضربِ کلیم )

جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ 

(ضربِ کلیم)

حاصلِ کلام :

 قارئینِ کرام علامہ اقبالؒ کا کلام قرآن و حدیث کا ہی بیان اور تفسیر ہے۔ آپؒ کی تعلیمات کو ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ آپؒ کی تعلیمات راہِ فقر کے سالکوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپؒ نے جو تصور ’’انسانِ کامل ‘‘ کے متعلق پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی شخصیت کے عین مطابق ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس ہی امام مبین، مہدیٔ برحق، مردِ کامل، انسانِ کامل اور فقیرِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر علامہ اقبالؒ کی تعلیمات کی حقیقت اور روح کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ عارف کی تعلیمات کو عارف ہی جان اور سمجھ سکتا ہے۔ فقرِ اقبال کے متعلق مزید جاننے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ’’فقرِ اقبالؒ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ یہ کتاب علامہ اقبالؒ کے عقیدت مندوں کے لیے نایاب تحفہ ہے۔ 

استفادہ کتب:
۱۔فقرِ اقبالؒ : تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔شمس الفقرا : تصنیفِ لطیف۔ ایضاً
۳۔کلیاتِ اقبال فارسی :  ترتیب ، ترجمہ و تشریح پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
۴۔اقبال اور قرآن : ڈاکٹر غلام مصطفی خان
۵۔اقبال اور حدیث: تصنیف ڈاکٹر محمدعبد المقیت شاکر علیمی 

٭٭٭٭٭

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں