حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

Spread the love

Rate this post

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات۔ Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط 13                                                                            سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

حضرت طلحہؓ کو مروان نے شہید کیا

قیس بن حازم کہتے ہیں: میں نے مروان بن حکم کو دیکھا ہے، جنگِ جمل میں جب اس نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ پر تیر پھینکا تو وہ ان کے گھٹنے پر جا کر لگا، وہ اس درد میں بھی تسبیح پڑھتے رہے حتیٰ کہ وہ شہید ہو گئے۔ (مستدرک 5591)

حضرت ثور بن مجزاۃؓ فرماتے ہیں: میں جنگِ جمل کے دن حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس سے گزرا، وہ اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہے تھے۔ میں ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، انہوں نے کہا: مجھے اس آدمی کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح دکھائی دے رہا ہے، تمہارا تعلق کس گروہ سے ہے؟ میں نے کہا: میں امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ انہوں نے کہا: اپنا ہاتھ بڑھاؤ، میں تمہاری بیعت کرتا ہوں۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے بیعت کر لی پھر ان کی روح قبض ہو گئی۔ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس جا کر ان کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ کی بات سنائی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری بیعت کے بغیر طلحہ رضی اللہ عنہٗ کو جنت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ (مستدرک5601)

جنگِ جمل کے شرکا کے بارے میں حضرت علیؓ کی رائے

حضرت ابو بختری سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ سے سوال کیا گیا اہلِ جمل کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا کیا وہ مشرک تھے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا نہیں! شرک سے تو وہ بھاگے تھے۔ پھر کہا گیا کیا وہ منافق تھے؟ انہوں نے فرمایا نہیں! منافق لوگ تو اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔ پوچھا گیا پھر کون تھے وہ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہمارے بھائی تھے جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی۔ (ابنِ ابی شیبہ38918)

عبد خیر کہتے ہیں: حضرت علیؓ سے اہلِ جمل کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ہمارے بھائی تھے جنہوں نے ہم پر بغاوت کی تھی۔ وہ لوٹ آئے ہم نے قبول کرلیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی16752)

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے لشکروں میں منادی کرا دی کہ کوئی شخص اس معرکہ سے بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرے، اس سے نہ لڑے، نہ کسی زخمی پر حملہ کرے اور نہ کسی کا مال و اسباب چھینے۔ (تاریخ ابن خلدون ، جلد 2، حصہ1، ص 396)

شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ خطا کھانے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے، تو وہ اس جہت سے (معذور ہیں) کہ انہوں نے شبہ سے استدلال اگرچہ زیادہ راجح دوسری دلیل بھی موجود تھی۔ (ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص 520)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہٗ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابوثابت فرماتے ہیں: جنگِ جمل کے موقع پر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ تھا، جب میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کھڑے دیکھا تو میرے دل میں بھی وسوسہ پیدا ہوا جو دوسرے لوگوں کے دلوں میں تھا۔ لیکن نمازِ ظہر کے وقت اللہ تعالیٰ نے وہ وسوسہ مجھ سے دور کر دیا۔ چنانچہ میں نے امیرالمومنین کے ہمراہ قتال کیا۔ جب جنگ ختم ہوئی اور میں مدینہ منورہ میں آیا تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔ میں نے کہا: خدا کی قسم! میں کھانے یا پینے کی کوئی چیز مانگنے کیلئے نہیں آیا بلکہ میں تو حضرت ابوذرؓ کا آزاد کردہ غلام ہوں۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں نے ان کو اپنا واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا: جب دل اپنے مقام پر اُڑ رہے تھے تو تُواس وقت کیسے بچ گیا؟ میں نے کہا: میری بھی حالت وہی تھی لیکن زوالِ شمس کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے شرح صدر عطا کر دیا۔ انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا ہے ’’علیؓ قرآن کے ساتھ اور قرآن علیؓ کے ساتھ رہے گا اور یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ یہ دونوں اکٹھے ہی میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔‘‘ (مستدرک 4628)

جنگِ جمل کی پیشین گوئی

طبرانی میں ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فوج میں یہ خبر پہنچی کہ بصرہ کے لوگ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے زیرِقیادت جنگ کے لیے جمع ہو چکے ہیں تو وہ پریشان ہو کر گھبرا گئے۔ پھر حضرت علیؓ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی قسم! اہلِ بصرہ مغلوب ہوں گے اور شکست کھا جائیں گے، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ شہید ہو جائیں گے اور اہلِ کوفہ سے تمہاری امداد کے لیے چھ ہزار اور ساڑھے پانچ سوافراد آئیں گئے یا پانچ ہزار اور ساڑھے پانچ سو (یہ راوی کی طرف سے شک ہے)۔

حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں یہ سن کر میرے دل میں شک سا پیدا ہوا چنانچہ جب کوفہ پہنچے تو میں نے کہا اب اندازہ ہو جائے گا اگر کوفہ سے مذکورہ بالا کمک آ گئی تو یہ ایک پیشین گوئی تھی جو حضرت علیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی ہو گی ورنہ یہ صرف ایک جنگی چال ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک فوجی سے پوچھا کہ کوفہ سے کتنی کمک آئی ہے تو اس نے وہی تعداد بیان کی جو حضرت علیؓ نے فرمائی تھی۔ پھر میں نے کہا یہ بات حضرت علیؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتائی تھی۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 3، ص 515)

حضرت عقاب بن ثعلبہؓ فرماتے ہیں: حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں مجھے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ کو ناکثین ( بیعت توڑنے والوں یعنی اصحابِ جمل)، قاسطین (بغاوت کرنے والے یعنی اہل صفین) اور مارقین (دین سے نکل جانے والوں یعنی خوارج ) سے جہاد کرنے کا حکم دیا۔ (مستدرک 4674)

حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا معاملہ

کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہے جن سے پتہ چلے گا کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان کسی قسم کا بغض نہ تھابلکہ دونوں ہستیاں ان برائیوں سے پاک تھیں۔ درحقیقت منافقین اور ابنِ سبا مع اس کے ساتھی اس جنگ کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اگر حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی آپس میں کوئی ناراضی ہوتی تو اسطرح کا سلوک ہرگز وہ ایک دوسرے سے نہ کرتے۔ بلکہ دونوں ہستیاں ایک دوسرے کے مقام سے بخوبی واقف تھیں اور ایک دوسرے کو غلط نہ کہتے تھے۔

جب جنگِ جمل اختتام کو پہنچی تو حضرت علیؓ نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رہائش اور آرام کا بندوبست کیا۔ کچھ فتنہ پردازوں نے جو بظاہر حضرت علیؓ کے لشکر کا حصہ بننے کی آڑ لے رہے تھے، حضرت عائشہؓ کی گستاخی کی۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کو معلوم ہوا کہ بعض عوام اور بلوائی اُم المومنین کو سخت و ناملائم الفاظ سے یاد کرتے ہیں آپؓ نے ان میں سے بعض لوگوں کو گرفتار کروا کے دُرّے لگوائے۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ1، ص 400)

ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
ایک آدمی نے حضرت علیؓ کو خبر دی کہ دروازے پر دو آدمی حضرت عائشہ صدیقہؓ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حضرت علیؓ نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ ان دونوں کو سوسو کوڑے لگواؤ۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ 7، ص 246)

جنگِ جمل کے بعد حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے فرمایا:
اے میرے بیٹو! ایک دوسرے کو ملامت اور طعنہ زنی نہ کرنا۔ اللہ کی قسم میرے اور علیؓ کے درمیان شروع سے ہی وہی بات ہے جو ایک عورت اور اس کے دیور کے درمیان ہوتی ہے، وہ میری ناراضی کے باوجود بہترین آدمی ہیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ 7، ص 246)

اسی طرح حضرت علیؓ نے لوگوں سے فرمایا:
اے لوگو! حضرت عائشہ ؓدنیا و آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ 7، ص 246)

دورانِ جنگ جب حضرت عائشہؓ کا ہودج جس اونٹ پر تھا، وہ نیچے گرا توحضرت علیؓ جنگ چھوڑ کر حضرت عائشہؓ کے پاس فوراً تشریف لائے اور آپؓ کا حال دریافت فرمایا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
امیرالمومنین حضرت علیؓ (حضرت عائشہؓ کو) سلام کرنے کے لیے آئے اور دریافت فرمایا اے اماں جان! آپؓ کا کیا حال ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں خیریت سے ہوں۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ 7، ص 244)

حضرت علیؓ نے دونوں فریقوں کے مقتولین کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے دونوں فریقوں کے مقتولین کو جمع کر کے نمازِ جنازہ پڑھی، دفن کرایا۔۔۔لشکرگاہ میں جو کچھ مال و اسباب تھا، جمع کر کے جامع مسجد میں لائے اور یہ منادی کرا دی کہ جو شخص چاہے اپنے مال و اسباب کی شناخت کر کے لے جائے البتہ وہ آلاتِ حرب بیت المال میں رکھ لیے جائیں گے جن پر نشانِ حکومت بنا ہوا ہے۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ 1، ص 399-400)

اس طرح حضرت عائشہؓ بھی حضرت علیؓ کے ساتھ شہید ہونے والے شہدا سے اظہارِ ہمدردی کرتیں۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عائشہؓ نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جو ان کے لشکر اور حضرت علیؓ کے لشکر میں شہید ہو گئے تھے۔ جب بھی ان میں سے کسی کا تذکرہ آتا تو آپؓ اس کے لیے کلمہ ترحم کہتیں اور دعا کرتیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر ، جلد 4، حصہ 7، ص 246)

 اسی طرح جب حضرت عائشہ صدیقہؓ بصرہ سے رخصت ہونے لگیں تو حضرت علیؓ نے بڑی شان و شوکت اور کمال عزت کے ساتھ رخصت کیا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے بصرہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت علیؓ نے جس قدر سواریوں، توشہ اور سامان وغیرہ کی ضرورت تھی، آپؓ کے پاس بھیج دیا اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ آنے والے لوگوں میں جس قدر بچ گئے تھے انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی ماسوائے ان کے جو خود ہی بصرہ میں رہنا پسند کریں اور حضرت عائشہؓ کی مصاحبت کے لیے بصرہ کی چالیس معروف و صالح خواتین کو منتخب کیا اور آپ کے بھائی محمد بن ابی بکرؓ کو بھی آپ کے ساتھ بھیجا۔ جب کوچ کا دن آیا تو حضرت علیؓ دروازے پر آ کر کھڑے ہو گئے اور دیگر لوگ بھی رخصت کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے ہودج میں مکان سے باہر تشریف لائیں اور لوگوں کو الوداع کہا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ (تاریخ ابنِ کثیر، حصہ ہفتم، جلد 4، ص 246)

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
رجب 32ھ کو امیرالمومنین حضرت علیؓ نے سامانِ سفر کا بندوبست کیا اور اُم المومنین حضرت عائشہؓ کو بصرہ کی چالیس عورتوں اور حضرت محمد بن ابی بکرؓ کے ہمراہ بصرہ سے روانہ کیا، مشایعت کی غرض سے چند میل خود آئے اور آپ کے بڑے لڑکے حضرت حسنؓ ابنِ علیؓ ایک دن کی مسافت تک ساتھ گئے۔ (تاریخ ابنِ خلدون، حصہ اوّل، جلد 2، ص 400)

حضرت عمار بن یاسرؓ نے کہا کہ بے شک ہماری ماں (یعنی حضرت عائشہؓ) نے یہ سفر کیا (جنگِ جمل والا) اور خدا کی قسم وہ زوجہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دنیا میں اور آخرت میں لیکن اللہ نے ہمیں آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ جان لے کہ ہم ان کی اطاعت کرتے ہیں یا اللہ کی۔ (ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص 523)

جنگِ جمل اور امتِ مسلمہ میں تقسیم

یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگِ جمل کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت تقسیم پیدا ہوگئی۔ مکہ سے لے کر بصرہ تک تقریباً تمام قبائل تقسیم ہو گئے۔ حضرت عائشہؓ صدیقہ کا لشکر جدھر سے گزرتا وہاں کا قبیلہ تین حصوں میں بٹ جاتا۔ اوّل حضرت عائشہؓ کا ساتھ دینے والے، دوم حضرت علیؓ کا ساتھ دینے والے اور سوم اس معاملے سے علیحدہ رہنے والے۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہؓ نے تمام علاقوں میں خطوط لکھے کہ ان کی مدد کے لیے نکلیں، اس طرح وہ قبائل بھی تقسیم ہو گئے۔ 

گو کہ اس دور میں ذرائع ابلاغ اتنے تیز نہیں تھے اور خبرجلدی نہیں پھیلتی تھی لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ جنگِ جمل کے واقعہ کا علم بہت سے مسلمانوں کو اسی دن ہو گیا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
مؤرخین کہتے ہیں کہ مکہ، مدینہ اور بصرہ کے درمیان رہنے والوں کو جنگ کے دن ہی اس حادثہ عظیم کا علم ہو گیا تھا اور یہ اس طرح کہ گدھ اور چیلیں انسانی اعضا ہاتھ اور پاؤں وغیرہ اٹھائے اُڑ رہی تھیں اور ان میں سے کچھ ان راستوں پر گر جاتا تھا حتیٰ کہ اہلِ مدینہ نے جنگ کے دن غروبِ شمس سے پہلے ہی اس حادثہ عظیمہ کو جان لیا۔ یہ اس طرح کہ ایک گدھ ان لوگوں کے پاس سے کوئی چیز لے کر گزرا، وہ اتفاق سے گر پڑی۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ ہتھیلی تھی جس میں ایک انگوٹھی تھی جس پر نقش عبدالرحمٰن بن عتاب تھا۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 246)

بیعتِ خلافت

خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت امیر معاویہؓ کو خطوط لکھے کہ بیعت کر لیں لیکن حضرت امیر معاویہؓ نے ان خطوط کا کوئی جواب نہ دیا۔ 

ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
اسی زمانے میں دوسرا خط سبرہ جہنی کے ہاتھ معاویہؓ کے پاس بھیجا گیا۔ معاویہؓ نے شہادتِ عثمانؓ کے بعد تین مہینے تک کچھ جواب نہ دیا بعد ازاں قبیصہ عبسی کو ایک خط سر بہ مہربھجوایا جس کا عنوان یہ تھا ’’من معاویہ الی علی‘‘۔ علاوہ اس کے کچھ زبانی پیام کہہ کر قاصد کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا۔ سبرہ اور قبیصہ ربیع الاوّل 36ھ میں مدینہ داخل ہوئے۔ جس طرح حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا تھا اسی طرح قبیصہ نے پیام دے کر خط دیا۔ مہر توڑی گئی، لفافہ کھولا گیا تو اس میں سوائے عنوانِ خط کے اور کچھ تحریر نہیں تھا۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد ۲، حصہ اول، ص 380)

طبری لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے پاس سبرہ الجہنی کو قاصد بنا کر روانہ کیا۔ یہ ان کے پاس پہنچے اور حضرت علیؓ کا خط دیا۔ لیکن حضرت امیر معاویہؓ نے خط کا کوئی جواب نہ دیااور کئی روز بعد قاصد کو روانہ کر دیا۔ قاصد جب جواب لکھنے کے لیے کہتا تو حضرت امیر معاویہ ؓجواب نہ دیتے بلکہ یہ شعر پڑھنے لگتے:
’’قلعہ کی طرح جمے رہو یا پھر مجھے ایک ہولناک جنگ کی دعوت دوجو جوان اور بچے کو بوڑھا بنا دے۔
تمہارے پڑوسیوں اور لڑکوں کی ایسی خونریزی ہو گی کہ کنپٹی اور سر کے بال بھی سفید ہو جائیں گے۔
آقا اور غلام دونوں عاجز ہو جائیں گے اور ہمارے علاوہ کوئی والی اور حاکم نہ ہو گا۔‘‘
الغرض جب بھی سبرہ الجہنی خط پڑھ کر سناتے یا جواب کا تقاضا کرتے تو حضرت امیر معاویہؓ یہی اشعار پڑھتے۔ (طبری، جلد ۳، حصہ دوم، ص ۹۳)
حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو بہت سے خطوط لکھے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 330) 

میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت معاویہؓ کو بیعت کے بارے میں لکھا تھا تو جواب میں جوخط حضرت علیؓ کو روانہ کیا گیااس میں خالی کاغذ تھا۔ (خلفائے راشدین، صفحہ 204)

طبری لکھتے ہیں:
حضرت امیر معاویہؓ نے بنو عبس کے ایک شخص کو بلوایا اور بنو رواحہ کے ایک آدمی کو بھی طلب کیا جس کا نام قبیصہ تھا اور اسے ایک دفتر (خط) سپرد کیا جس کا عنوان تھا ’’معاویہ کی جانب سے علی کو جواب‘‘۔ اس پر مہر لگی ہوئی تھی۔ قبیصہ کو یہ دفتر سپرد کر کے حضرت امیر معاویہؓ نے حکم دیا کہ جب تم مدینہ پہنچو تو نیچے کا کاغذ کھول لینا۔ پھر اسے کچھ باتیں سکھائیں کہ مدینہ پہنچ کر لوگوں سے ایسا اور ایساکہنا۔۔۔ جب حضرت امیر معاویہؓ کے قاصد مدینہ پہنچے تو قاصد نے اسی طرح کاغذات کھول دیے جس طرح حضرت امیر معاویہؓ نے حکم دیا تھا۔ لوگوں نے ان کاغذات کو دیکھنا شروع کیا اور اسے دیکھ کر اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے اور یہ سب کو معلوم ہو گیا کہ حضرت امیر معاویہؓ اس خلافت پر معترض ہیں۔ قاصد اسی طرح آگے بڑھتا ہوا حضرت علیؓ کے پاس پہنچا اور کاغذات کا پلندہ انہیں دیا۔ انہوں نے مہر توڑی تو اس میں کچھ بھی تحریر نہ تھا۔ (طبری، جلد 3، حصہ دوم، ص 39,40)

حضرت علیؓ نے جب والیٔ شام مقرر کیا تو اسے بھی واپس کر دیا گیا۔ ابن ِخلدون لکھتے ہیں:
سہیل بن حنیف جو امیرِشام ہو کر جا رہے تھے تبوک پہنچے۔ چند سواروں سے ملاقات ہوئی۔ سواروں نے دریافت کیا تم کون ہو؟ سہیل نے جواب دیا ’’میں امیر شام ہوں‘‘۔ سواروں نے کہا تم کو اگر حضرت عثمانؓ کے سوا اور کسی نے امیر مقرر کر کے روانہ کیا ہے تو لوٹ جاؤ۔ سہیل یہ سن کر مدینہ کی جانب لوٹے۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد ۲، حصہ اول، ص 279-280)

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے حضرت علیؓ کو مشورہ دیا تھا کہ حضرت امیر معاویہؓ کو معزول نہ کریں ورنہ آپ کی خلافت کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت علیؓ سے کہا:
خصوصاًحضرت امیر معاویہؓ کو شام کی امارت پر بحال رکھیں اور کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر آپ نے انہیں معزول کر دیا تو وہ آپ سے خونِ عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کریں گے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد۴، حصہ ہفتم، ص ۹۲۲)

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔ تاریخ ابنِ خلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمن ابنِ خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۲۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۳۔ ازالتہ الخفا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں